آسکرز تقریب نے کس طرح کینیا کی ایک ڈیزائنر کی زندگی اور قسمت بدل ڈالی؟
نتھنیا میویندوا گذشتہ چار سالوں سے کاروبار چلا رہی ہیں
کینیا کی فیشن ڈیزائنر نتھنیا میویندوا لاس اینجلس میں ہیں اور یہاں ان کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ معروف شخصیات آسکر کے ریڈ کارپٹ پر ان کے لگژری بیگ کندھے سے لٹکا کر چلیں اور تصویریں بنوائیں۔
میویندوا کے بیگ مشہور شخصیات کے لیے بطور تحفہ دیے گئے۔ آسکرز کی تقریبات کے دوران ہوٹل کے کمروں میں مصنوعات کو نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے اور سٹارز سے کہا جاتا ہے کہ وہ مفت میں ملنے والے ان تحائف کا اپنے لیے انتخاب کریں جس کے عوض اُن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تحفے میں ملنے والی مصنوعات کے برانڈ کی توثیق کریں گے یا ریڈ کارپٹ پر ان اشیا کو زیب تن بھی کریں گے۔
37 سالہ میویندوا کے پرتعیش بیگز کا انتخاب پہلے بھی کیا جا چکا ہے لیکن میویندوا اس سے قبل کبھی بھی ہالی وڈ کی چمک دمک اور گلیمر دیکھنے کے لیے موجود نہیں تھیں۔
گذشتہ سال کینیا کی حکومت اور آسکر میں تحفہ دینے والی ایک سویٹ کمپنی کے درمیان شراکت داری سے ان کے پروڈکٹ کو وہاں نمائش کا موقع ملا۔
ان کے ایک ڈیزائن کو ایوارڈ یافتہ امریکی اداکارہ وائلا ڈیوس نے پسند کیا۔
جیسے ہی انھوں نے اس کی نمائش کی ان کے پروڈکٹ کی فروخت اچانک بڑھ گئی اور آسمان چھونے لگی۔
میویندوا کے بیگ 150 امریکی ڈالر سے 420 امریکی ڈالر میں ملتے ہیں۔ میویندوا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے بعد لوگوں نے اسے یوں ہاتھوں ہاتھ لیا کہ ’یار، بہتر ہے کہ ہم اس کا ایک بیگ خرید لیں اس سے پہلے کہ وہ بہت مہنگے ہو جائیں۔‘
وایولا ڈیوس تشہیر کی مفت اشیا میں رکھے میویندوا کے بیگ کے ساتھ
’آدھی رات میں چیخ‘
ان کے بيگز کی عالمی سطح پر نمائش نے کووڈ وبائی امراض کے بعد انھیں انتہائی ضروری حوصلہ فراہم کیا اور افریقہ میں میویندوا کے بیگز کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔
’اچانک، کینیا والوں نے ان کا نوٹس لینا شروع کر دیا۔ یعنی کہ اس طرح کے یہ لڑکی کہاں چھپی ہوئی تھی؟ اور یہ سب بڑے کام کر رہی تھی۔‘
اور پھر فروری میں میویندوا کے بریسلیٹ ہینڈ بیگ میں سے ایک کو گریمی ایوارڈز کے موقع پر بطور تحفہ سٹارز کو دیا گیا۔ خیال رہے کہ گریمی ایوارڈز کا موسیقی کے بڑے اعزاز میں شمار ہے اور یہ فنکشن بڑے ناموں سے بھرا ہوتا ہے۔
وہ خوش قسمت رہیں اور ان کا بیگ امریکی گلوکار اور نغمہ نگار بیانکا ایٹر بیری نے اٹھایا۔ وہ بلش کے نام سے مشہور ہیں۔
میویندوا نے کہا: ’یہ ایک سرخ مچھلی کے چمڑے کا کلائیوں میں لیا جانے والا صرف ایک چھوٹا سا پرس ہے۔ اس میں آپ صرف اپنی لپ سٹک، اپنے کریڈٹ کارڈ اور اپنے فون رکھ سکتے ہیں۔ یہ پرس اٹھانے میں واقعی آسان اور آرام دہ چیز ہے اور یہ بہت خوبصورت بھی ہے۔‘
’یہ بہت بڑا سرپرائز تھا۔ اور پھر جب اس کے ساتھ ان کی ریڈ کارپٹ پر تصویر لی گئی تو بخدا مزا آ گیا۔‘
جب بلش کی ان کے بیگ کے ساتھ تصاویر آن لائن پر پوسٹ کی گئیں تو اس وقت وہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں اپنے گھر پر تھیں۔ ان کا فون بجنے لگا۔ لیکن کینیا میں اس وقت نصف رات کا وقت تھا اس لیے ان کے پاس جشن منانے والا کوئی نہیں تھا۔
’میں (خوشی سے) خود ہی چیخ رہی تھی کیونکہ سب سو رہے تھے۔۔۔ یہ حیرت انگیز تھا۔‘
اس سب نے افریقی براعظم سے باہر ان کے بیگز کی فروخت کو بڑھا دیا ہے، اور میویندوا کا کہنا ہے کہ بیونسے کے پروڈیوسر نے بھی ان سے رابطہ کیا۔
’یہ واقعی اچھا ہے کیونکہ لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔‘
ماسائی شکلوں کو محفوظ کرنا
گریمی ایوارڈز میں میویندوا کے منی پرس پر فوٹوگرافر کی نظریں جم گئیں
ان کے ہینڈ بیگز پائیدار مواد سے بنائے گئے ہیں جیسے کہ ضائع شدہ مچھلی کے چمڑے اور گائے کی کھال؛ اور ان کے کام کی خصوصیت میں پیچیدہ منکے اور موتیوں کی لڑیوں کے کام بھی شامل ہیں۔
یہ ان کی والدہ سے متاثر ہے، جو ماسائی ہیں اور اصل میں کینیا کے جنوب مغرب میں واقع کجیاڈو کاؤنٹی سے آتی ہے، جہاں میویندوا نے ماسائی کی نوجوان خواتین کو تھیلوں کے لیے منکے بنانے کے کام کے لیے رکھا ہوا ہے۔
فیشن انٹرپرینیور کا کہنا ہے کہ انھیں ماسائی کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے میں واقعی خوشی ہوتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ روایتی ماسائی موتیوں یا منکے کے کام کو سیاحوں کے ٹرنکٹس کے طور پر فروخت کیے جانے سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مختلف ماسائی برادریوں کے لیے منکے کا کام اپنے نمونوں اور رنگوں کے ساتھ مختلف چیزوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’تنزانیہ کے منکے کے کام میں سب سفید ہوتا ہے اور پھر میری ماں کے آبائی شہر کے منکے کا کام مختلف ہے۔‘
’لہذا میں واقعی میں ان کہانیوں کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ غائب ہونا شروع ہو رہی ہیں اور لوگوں کو اس معلومات کا علم نہیں کہ صرف موتیوں یا منکو کی شکل کو دیکھ کر آپ واقعی کسی قبیلے تک پہنچے سکتے ہیں۔‘
چمڑے اور منکے یا موتیوں کا وہاں کی برادریوں کے ساتھ کام کرنا ان کی پائیدار مواد پر مبنی بزنس کی خواہش کی تکمیل ہے اور ان کا بنایا ہوا کوئی بھی بیگ ایک جیسا نہیں ہوتا۔
میویندوا کے کام کی خاصیت ماسائی تہذیب کی عکاسی ہے
’ہوش ربا دعوت‘
مشہور شخصیات کی جانب سے توثیق نے میویندوا کے کام کرنے کے طریقے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ انھوں نے اطالوی شہر میلان میں ایک باوقار بیگ اور جوتوں کے ڈیزائن کے سکول ارسوتوریا میں تعلیم حاصل کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس بات نے مجھے بین الاقوامی مارکیٹ کے لحاظ سے اب تھوڑا سا مختلف سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ اگر ایک بیگ ریڈ کارپٹ پر نظر آتا ہے، تو اگلا کس طرح کا بيگ ہو گا جسے میں ڈیزائن کروں، یا اگلا کلیکشن کیا ہو گا؟ آپ سوچتے ہیں کہ اگر یہ سرخ قالین پر ہو گا تو کیسا نظر آئے گا؟‘
انھوں نے مزید کہا: ’اس بات نے میرے نقطہ نظر کو اس لحاظ سے بدل دیا ہے کہ میں اب کس طرح ڈیزائن کروں۔‘
میویندوا کہتی ہیں کہ ’اس سال آسکر میں مدعو کیے جانا ہوش ربا تھا‘ کیونکہ انھیں ڈی پی اے لکس گفٹ سویٹ نے مدعو کیا تھا جس کے ساتھ وہ اب براہ راست کام کرتی ہیں۔
وہ پرامید ہیں کہ ذاتی طور پر ان کے بیگ کی تشہیر کے لیے وہاں رہنا اور بھی بڑی چیزوں کا باعث بنے گا۔
اپنی مصنوعات کو مفت میں دینا ابتدائی طور پر ان کی ’دی لیبل سبا‘ نامی کمپنی کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے لیکن بعد میں انھیں اس کا میٹھا پھل ضرور مل سکتا ہے۔
انھوں نے کہا: ’ایسا موقع دیے جانے کے لیے میں واقعی شکرگزار ہوں کہ میں اپنے ورثے پر روشنی ڈالنے اور خوبصورت بیگز کے ذریعے اپنی کہانیاں بانٹنے کے قابل ہو رہی ہوں۔‘
Comments are closed.