جنوبی بحرالکاہل زیرِ سمندر آتش فشاں پھٹنے کے بعد امریکہ اور جاپان میں سونامی وارننگ جاری، شہریوں کو ساحلوں سے دور رہنے کی ہدایت
جنوبی بحرالکاہل میں زیرِ سمندر آتش فشاں پھٹنے کے بعد امریکہ اور جاپان نے اپنے شہریوں کو بحرالکاہل کے ساتھ موجود ساحلی پٹی سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
جاپان کی جانب سے ساحلی علاقوں میں تین میٹر اونچی لہروں اور ملک کے جنوب میں ایک اعشاریہ دو میٹر بلند لہروں کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔
امریکہ کی جانب سے ساحلی علاقے زیرِ آب آنے اور سمندر میں طغیانی کے حوالے سے تنبیہ جاری کی گئی ہے۔
جزیرہ ریاست ٹونگا کے قریب زیرِ سمندر ایک بڑا آتش فشاں پھٹنے سے ایک میٹر سے زیادہ اونچی لہریں اس کے ساحلوں سے ٹکرائی ہیں۔
’ہونگا ٹونگا ہونگا ہاپائی‘ نامی آتش فشاں کے پھٹنے کی آواز جنوبی بحرالکاہل کے اکثر علاقوں میں سنی گئی ہے اور یہاں تک کہ اسے کچھ امریکی علاقوں میں بھی سنا گیا۔
بحرالکاہل میں جس جگہ یہ آتش فشاں پھٹا ہے وہاں سے ٹونگا کا دارالحکومت 65 کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔ ٹونگا کے اکثر علاقوں میں آتش فشاں کے باعث راکھ بھی جمع ہے اور یہاں تقریباً مکمل طور پر بجلی نہیں ہے، فون لائنز کٹ چکی ہیں اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند ہیں۔ یہاں ہونے والی تباہی اور زخمیوں کے حوالے سے تاحال واضح معلومات موجود نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گرجا گھر اور متعدد گھروں کے زیرِ آب آ چکے ہیں اور عینی شاہدین کے مطابق ملک کے دارالحکومت نوکو آلوفا میں راکھ دیکھی جا سکتی ہے۔
جاپان میں کاگوشیما پریفیکچر میں امامی اوشیما نامی جزیرے کے ضلع کومیناٹو میں سنیچر کی رات مقامی وقت کے مطابق 11 بج کر 55 منٹ پر ایک اعشاریہ دو میٹر بلند سونامی کی لہریں ریکارڈ کی گئیں۔
آتش فشاں پھٹنے کے پہلے آٹھ منٹ اتنے دھماکے ہوئے کہ جزیرہ ملک فجی جو اس جگہ سے 800 کلومیٹر دور ہے کے دارالحکومت سووا کے حکام کے مطابق وہاں ‘بادل گرجنے جیسی اونچی آوازیں’ سنائی دیتی رہیں۔
یہ بھی پڑھیے
فجی کی حکومت نے سونامی سے متعلق ایڈوائزری جاری کی ہے اور ساحلی علاقوں میں لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے مراکز قائم کیے ہیں۔ ایسے ہی ایک اور جزیرہ ملک وناتو نے بھی ایسی ہی تنبیہ جاری کی تھی۔
،تصویر کا ذریعہEPA
یونیورسٹی آف آکلینڈ میں آتش فشاؤں سے متعلق معلومات کے ماہر پروفیسر شین کرونن کا کہنا ہے کہ آتش فشاں میں حالیہ دھماکہ گذشتہ 30 برسوں میں ٹونگا میں سب سے بڑا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ آتش فشاں پھٹنے کا بہت بڑا واقعہ ہے، یہ کم سے کم پچھلی دہائی میں ایسا سب سے نمایاں واقعہ ہے۔’
‘اس کے بارے میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ کتنا تیز اور دھماکہ خیز رہا ہے۔ یہ بہت بڑا دھماکہ تھا، اور اس کا پھیلاؤ بھی بہت زیادہ تھا جس کے باعث زیادہ راکھ بھی پھیل گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ٹونگا میں کئی سینٹی میٹر راکھ جمع ہو چکی ہو گی۔‘
آسٹریلیا کی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس حوالے سے ضرورت پڑنے پر معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
Comments are closed.