ابھی احمد کا فون آیا ہے، کہتا ہے فلاں دوست کے والد دل کے مریض ہیں حالت بہت خراب ہے، لیکن وہ اسپتال جانا نہیں چاہتے مجھے بتائیے وہ کیا کریں؟
دو سال پہلے کی ہی بات ہے، شعیب بھائی کی کال آئی، کہنے لگے فاضل ماما کو کینسر ڈائگنوز ہوا ہے، بتائیں کیا کریں۔ میں نے کہا علاج کروائیں گے اور کیا کریں گے۔
اللّٰہ شعیب بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے، 30 لاکھ سے اوپر مہیا کیے، دن رات ایک کر دیے اور جان لڑادی کہ اس جوان کی جان بچ جائے مگر فاضل ماما چلا گیا۔
پتا ہے کیوں؟
میں تو کہتا ہوں اپنوں کی جہالت لے ڈوبی۔
زندگی اور موت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے چاہے علاج ہو یا نہ ہو لیکن، علاج تو فرض ہے نا؟۔
جب فاضل ماما کی آخری کیمو تھراپی ہونی تھی تو اہلِ خانہ نے کہا کہ نہیں ہم تو روحانی علاج کروائیں گے، جب انہیں کہا گیا کہ بس اب کچھ دنوں کی بات ہے اور یہ ٹھیک ہوجائے گا تو کہنے لگے، بچنے کی گارنٹی دیتے ہو؟
جس روحانی شخصیت اور حکیم صاحب سے علاج کرواتے رہے وہ مرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس پر اثرات تھے ہم کیا کریں؟
احمد کہتا ہے دوست کو کیا کہوں وہ پریشان ہے، ابا اسپتال جانے کو تیار نہیں۔
اب اولاد پریشان ہے لیکن والد صاحب اسپتال جانے کو تیار نہیں، میں نے غصے میں کہا کہ کہو مر جانے دو بڈھے کو، ہم کیا کریں؟
لیکن یہ پریشانی تو ہر کینسر ٹریٹ کرنے والے اونکولوجسٹ اور شائد 90 فیصد ڈاکٹروں کو ہے۔
’پھوپھی کہتی ہے کہ میں بھائی کی بائیوپسی نہیں ہونے دوں گی‘
’کینسر ہے تو روحانی علاج کروائیں گے‘
’فلاں کا پانی پلوائیں گے، فلاں سے دم کروائیں گے‘
کوئی جیتا ہے تو جئے یا مرے میری بلا سے، میرا اعتقاد سلامت رہے۔
Comments are closed.