بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’فوج نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا مگر ضمیر نے اجازت نہیں دی‘

میانمار میں فوجی بغاوت: انڈیا فرار ہونے والے پولیس اہلکاروں کو ’فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا‘

میانمار کے پولیس اہلکار فوج کے احکامات کے خلاف

میانمار کے متعدد پولیس اہلکار فوج کے احکامات کے خلاف ہیں اور اس باعث ملک چھوڑ گئے

میانمار کے پولیس افسران نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ فوج کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرنے کے بعد سرحد پار انڈیا فرار ہو گئے تھے۔

میانمار کی فوج نے گذشتہ ماہ بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور مقتدر جماعت کی رہنما آنگ سانگ سوچی کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس طرح کے کچھ انٹرویوز میں وہاں سے فرار ہونے والے درجن بھر سے زائد اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ اس خوف سے فرار ہو گئے کہ فوج کے حکم پر وہ شہریوں کو مارنے یا نقصان پہنچانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

’مجھے مظاہرین پر گولی چلانے کے احکامات دیے گئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

نینگ کا نام ہم نے ان کی حفاظت کے پیشِ نظر بدل دیا ہے۔ وہ نو سال سے میانمار (جسے برما بھی کہا جاتا ہے) میں بطور پولیس اہلکار خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

اب یہ 27 برس کے پولیس اہلکار شمال مشرقی انڈیا کی ریاست میزورم میں روپوش ہیں۔

میانمار

فوج نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ مظاہرین پر فائرنگ کریں

میں نے نینگ اور 20 کے پیٹے میں موجود دیگر پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ سے ملاقات کی جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فوج کے احکامات سے انکار کرنے بعد اپنی ملازمتیں چھوڑ کر اپنے ملک سے بھاگ نکلے تھے۔

ایک افسر کا کہنا تھا کہ ’مجھے ڈر تھا کہ میں فوج کے خلاف احتجاج کرنے والے بے گناہ لوگوں کو مارنے یا ان کو نقصان پہنچانے پر مجبور ہو جاؤں گا۔

’ہمیں لگتا ہے کہ فوج کی جانب سے کسی منتخب حکومت کا تختہ الٹنا غلط تھا۔‘

تاتماداو کے نام سے جانی جانے والی میانمار کی فوج نے گذشتہ ماہ یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد سے ہزاروں جمہوریت نواز مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس دوران سکیورٹی فورسز پر 50 سے زائد افراد کے قتل کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

ملک کے مغرب میں واقع ایک قصبے میں نچلے درجے کے افسر نینگ بتاتے ہیں کہ فروری کے اواخر میں ان کے علاقے میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ مظاہرین پر فائرنگ سے دو بار انکار کرنے کے بعد وہ بھاگ گئے۔

میزورم

بی بی سی نے انڈین ریاست میزورم میں ان پولیس اہلکاروں سے بات کی

’میں نے اپنے سینیئر سے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا اور میں لوگوں کے ساتھ جا کر کھڑا ہو جاؤں گا۔

’فوج اب بپھر رہی ہے۔ وہ دن بدن سفاک ہوتی جارہی ہے۔‘

جب ہم بات کر رہے تھے تو نینگ نے اپنا فون نکال کر مجھے اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کی تصاویر دکھائیں جنھیں وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی پانچ برس جبکہ دوسری صرف چھ ماہ کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں خوف ہے کہ شاید اب وہ ان سے نہیں مل پائیں گے۔

میں نے نینگ اور اس گروپ کے باقی افراد سے ریاست میرزوم کی پہاڑیوں اور وادیوں کے درمیان کسی نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور جہاں ہم موجود تھے وہاں سے میانمار صرف 10 میل کے فاصلے پر تھا۔

جن افسران سے ہم نے بات کی وہ پہلے انکار کرنے والوں میں سرفہرست ہیں اور میانمار کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے عینی شاہدین ہیں۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے سو سےزیادہ لوگ میزورم آچکے ہیں

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے سو سے زیادہ لوگ میزورم آچکے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے عہدے داروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہیں جو ملک میں جمہوریت کے حامی ہیں اور سول نافرمانی کی تحریک (سی ڈی ایم) میں شامل ہو رہے ہیں۔

ان پولیس اہلکاروں نے ہمارے سامنے جو دعوے کیے بی بی سی ان کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔

اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے میانمار میں بغاوت مخالف مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں عام شہریوں کے قتل کی مذمت کی ہے اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر قابو پائیں۔

فوج نے اپنے اقدامات پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عالمی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ مقامی حکام کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد سے 100 سے زیادہ افراد میانمار سے میزورم فرار ہو گئے ہیں۔

ہٹٹ (فرضی نام) نے بتایا کہ جس رات فوج نے حکومت کا تختہ پلٹا اس رات انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ ’چند گھنٹوں بعد ہمیں معلوم ہوا کہ فوج نے بغاوت کر دی ہے۔‘

یہ لوگ تیاؤ دریا پار کر کے انڈیا پہنچے ہیں

یہ لوگ تیاؤ دریا پار کر کے انڈیا پہنچے ہیں

بائیس سالہ ہٹٹ کا کہنا ہے کہ وہ اور دیگر پولیس والے فوج کے ساتھ مل کر گلیوں میں گشت کر رہے تھے۔ جمہوریت نواز تحریک کی حمایت میں پرامن طریقے سے برتنوں کو پیٹ کر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو گرفتاری کی دھمکی دی گئی تھی۔

ہٹٹ کا کہنا ہے کہ انھیں بھی مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے لیے کہا گیا لیکن انھوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔

’فوجی افسر نے ہمیں پانچ سے زیادہ گروہوں میں آنے والے لوگوں کو گولی مارنے کا حکم دیا۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں کو مارا پیٹا گیا۔ جب میں نے بے قصور لوگوں کے ساتھ مارپیٹ دیکھی، انھیں لہو لہان دیکھا تو میرے ضمیر نے مجھے اس کارروائی میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی۔‘

ہٹٹ کا کہنا ہے کہ اپنے تھانے کے وہ واحد اہلکار ہیں جو فرار ہوئے اور موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا آتے وقت جب سرحد کے قریب مختلف گاؤں سے گزر رہے تھے تو انھیں بہت ڈر لگ رہا تھا۔

جن لوگوں سے ہم نے بات کی تھی وہ دریائے تیاؤ پار کر کے انڈیا گئے تھے۔ ہم نے جن گروہوں کے ساتھ بات چیت کی ان کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں مزید پولیس اہلکار وہاں سے بھاگ کر انڈیا کا رخ کر سکتے ہیں۔

گریس جن کا نام ہم نے تبدیل کر دیا ہے ان دو خاتون پولیس افسروں میں سے ایک ہیں جن سے ہم نے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ فوجی مظاہرین کو گھیرنے کے لیے لاٹھیوں اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ایک موقع پر جب آنسو گیس فائر کی جا رہی تھی اور اس احتجاج میں بچے بھی شامل تھے۔

انھوں نے کہا ’وہ چاہتے تھے کہ ہم بھیڑ کو منتشر کریں اور اپنے دوستوں کو گرفتار کریں لیکن ہم ایسا نہیں کر سکے۔ ہمیں پولیس سے محبت ہے لیکن اب نظام بدل گیا ہے ہم اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتے۔‘

چوبیس برس کی گریس کا کہنا ہے کہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ آنے کا دکھ بھی ہے خاص کر ان کی والدہ جنھیں دل کا عارضہ لاحق ہے۔

میانمار

’میرے والدین بوڑھے ہو چکے ہیں اور وہ خوفزدہ بھی ہیں لیکن ہمارے نوجوانوں کے پاس بھاگ کر ان کو پیچھے چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

میانمار میں حکام نے انڈیا سے ’دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے‘ کے لیے فرار ہونے والے ان پولیس اہلکاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

میزورم کے وزیر اعلیٰ زورم تھنگا نے کہا کہ جو لوگ انڈیا آئے ہیں ان کو عارضی طور پر پناہ دی جانی چاہیے، آگے کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ مرکزی حکومت کرے گی۔

فرار ہونے والوں میں صرف پولیس افسران نہیں ہیں۔ ہم نے میانمار کے ایک دوکاندار سے بات کی جو فرار ہو کر میزورم پہنچے تھے۔

ان پر میانمار کے حکام نے لوگوں کو آن لائن جمہوریت نواز تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دینے کا الزام لگایا تھا۔

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فرار ہونے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’میں خود غرضی میں بھاگ کر نہیں آیا۔ ملک میں سبھی فکر مند ہیں میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں آیا ہوں اور اس تحریک کی حمایت کے لیے یہاں سے جو کر سکتا ہوں کروں گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.