بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جارج فلائیڈ کی ہلاکت: سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا

جارج فلائیڈ کی ہلاکت: سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا

جارج فلائیڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے کیس میں جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا ہے جس کے بعد انھیں عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل سمیت تمام الزامات میں قصوروار پایا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس ڈیرک شاوین کی ایک فوٹیج منظر عام پر آئی تھی جس میں انھوں نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا ہوا تھا۔

طبی معائنہ کار کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ڈیرک شاوین نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بے حرکت ہو گئے تھے۔

جارج فلوئیڈ کی یہ فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ بھر میں نسل پرستی کے خلاف کئی دن تک مظاہرے کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی صدر جو بائیڈن نے جیوری کے فیصلے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جارج فلوئیڈ کی موت ’دن کی روشنی میں قتل ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’منظم نسل پرستی پوری قوم کی روح پر ایک دھبہ ہے۔‘

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’آج ہم نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن پھر بھی اس سے درد دور نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ابھی بھی نظام میں اصلاح کرنا ہو گی۔‘

فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر لوگوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نعرے لگائے۔

ڈیرک شاوین

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے

جارج فلائیڈ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

مینیاپولس میں گذشتہ برس 25 مئی کی شام کو پولیس کو ایک پاس کے گروسری سٹور سے فون آیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک شخص جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ کے ساتھ ادائیگی کی ہے۔

پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر انھیں پولیس گاڑی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں بند جگہ سے گھٹن اور گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ کلسٹروفوبک ہیں۔

پولیس کے مطابق انھوں نے جسمانی طور پر مزاحمت کی لیکن انھیں ہتھکڑی لگا دی گئی۔ واقعے کی ویڈیو میں یہ بات سامنے نہین آتی کہ تصادم کیسے شروع ہوا۔

بہرحال پولیس افسر ڈیرک شاوین کے گھٹنے کے نیچے ان کی گردن نظر آئی جہاں سے جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں‘ اور ’مجھے مت مارو۔‘

کاؤنٹی کے طبی معائنہ کار کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے پولیس افسر نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بے حرکت ہو گئے تھے۔

پولیس افسر شاوین کے اپنا گھٹنا ہٹانے سے لگ بھگ دو منٹ قبل دیگر افسران نے جارج فلائیڈ کی دائیں کلائی کو نبض کے لیے چیک کیا لیکن انھیں نبض نہیں مل سکی۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے بعد انھیں مردہ قرار دیا گیا۔

جارج فلوئيڈ کے ایک وکیل نے ڈیرک چاون پر دانستہ طور پر سوچ سمجھ کر قتل کرنے کا الزام لگایا تھا۔

جارج فلائیڈ

،تصویر کا ذریعہTWITTER/RUTH RICHARDSON

مقدمے کے حتمی دلائل میں کیا گہا گیا؟

تین ہفتے تک مقدمے کی سماعت جاری رہنے کے بعد پیر کو استغثیٰ اور دفاع نے سماعت مکمل ہونے سے پہلے اپنے حتمی دلائل دیے۔

ڈیرک شاوین کے وکیل ایرک نیلسن نے اس بار پر زور دیا کہ کہ ان کے مؤکل نے وہ کیا جو کوئی بھی ’معقول پولیس آفیسر‘ کرتا۔

دفاع میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہو سکتا ہے کہ منشیات مسٹر فلائیڈ کی موت کا سبب بنی ہوں۔

وکیل ایرک نیلسن نے استدلال کیا کہ مسٹر فلائیڈ کا منشیات کا استعمال ’اہم‘ تھا کیونکہ جسم افیون کے استعمال پر رد عمل ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر کسی ایسے شخص کے معاملے میں جس میں ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص ہوئی ہو۔

وکیل نے یہ بھی استدلال کیا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے جان بوجھ کر طاقت کے استعمال کے قواعد کی خلاف ورزی کا امکان نہیں ہے کیونکہ انھیں اس چیز کا علم ہو گا کہ اس پورے واقعے کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب استغاثہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پولیس اہلکار ڈیرک شاوین کی جانب سے طاقت کا استعمال ہی جارج فلوئیڈ کی موت کی وجہ بنا۔

ڈیرک چاؤین

،تصویر کا ذریعہAFP

پراسیکیٹر نے جیوری سے اپیل کی کہ ’وہ اپنی عقل کا استعمال کریں۔‘ انھوں نے پولیس افسر ڈیرک شاوین کے گھٹنے کے نیچے جارج فلوئیڈ کی گردن دبانے کی ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’اپنی آنکھوں پر یقین کریں۔ آپ نے جو دیکھا وہ دیکھا۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ یہ پولیس کا کام نہیں بلکہ قتل تھا۔‘

استغاثہ نے یہ بھی کہا کہ معاملہ ’اتنا سادہ تھا کہ ایک بچہ بھی اسے سمجھ سکتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.