اسلام آباد ہائی کورٹ حملے کی تحقیقات کے لیے پولیس نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کے سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں حملے کے بعد وکلاء کی پکڑ دھکڑ اور ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہاں حملہ کیا؟ میں نےخط لکھا ہے، اب ریگولیٹر کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں، 70 سال سے کچہری کے لیے کچھ نہیں ہوا، اس حکومت نے کچہری کے لیے بہت کچھ کیا ہے، اس حکومت نے پی ایس ڈی پی سے کچہری منتقلی فنڈز کی منظوری دی، جس پر کام شروع ہونے والا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تو قانون ہی کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں، حکومت ڈسٹرکٹ کمپلیکس پر کام کر رہی ہے، جو یہاں آئے تھے، سب وکیل تھے، باہر سے کوئی نہیں آیا تھا، آدھے سے زائد افراد کو میں جانتا ہوں، دونوں بار کے صدور کو کہا تھا کہ وہ یہاں آ جائیں لیکن وہ یہاں نہیں آئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پولیس نے اس معاملے پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، پولیس کے سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی، جنہوں نے تقاریر کیں، جنہوں نے انہیں ابھارا، ان کی نشاندہی بار کرے، جے آئی ٹی بار صدور سے بات کر لے، وہ نشاندہی کریں گے، احتجاج کی ضرورت نہیں تھی، چیف جسٹس بننے کے بعد سے میں نے کچہری کے لیے کام کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم پر وکلاء بحالی تحریک کے 90 شہداء کا قرض ہے، کوئی قانون سے بالاتر نہیں، 8 فروری کا واقعہ ناقابلِ برداشت ہے، تاہم کسی معصوم یا بے گناہ وکیل کو ہراساں نہ کیا جائے، جے آئی ٹی کے سربراہ ملوث عناصر کی نشاندہی کے لیے ڈسٹرکٹ بارز سے معاونت لیں، جو واقعے میں ملوث ہیں انہیں بھی فیئر ٹرائل کا موقع ملنا چاہیئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.