کینیڈا کی مشکل ترین سڑک ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کرنا کیسا ہے؟
- اینا کامنسکی
- بی بی سی ٹریول
ہمارا چھوٹا سیسنا طیارہ ٹنڈرا کے اوپر ہچکولے کھا رہا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں گہرے نیلے پانی کے جھرنے اور پگھلتی برف سے اٹی ندیاں تھی۔
مختلف جگہوں پر اُبھری ہوئی سرسبز پہاڑیاں انتہائی دلفریب دکھائی دیتی تھی جنھیں دیکھتے ہی پائلٹ کی بے ساختہ آواز میرے ہیڈ فونز میں گونجی۔۔۔ ’پنگوز‘۔ یعنی برف اور سبزے سے اٹے ہوئے ٹیلے یا پہاڑیاں، پائلٹ نے میری چڑھتی بھنویں دیکھتے ہوئے لفظ ’پنگوز‘ کی وضاحت پیش کی تھی۔
ان گول گول ٹیلوں کے درمیان ایک گہری ربن کی طرح کی بل کھاتی سڑک گزرتی ہے۔ اس سے چند دن قبل ہی میں نے ڈیمسٹر ہائی وے پر آرکٹک تک گاڑی چلائی تھی۔ ڈیمسٹر ہائی وے کینیڈا کی مشکل ترین شاہراہوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔
ویسے اس کچی پکی سڑک کے لیے ہائی وے ایک بہت اچھی اصطلاح ہے۔ یہ سڑک یوکون کے دارالحکومت وائٹ ہارس اور ڈاؤسن شہر کی آبادی کے درمیان سے گزرنے والی ایک ہائی وے سے نکلتی ہے۔ اس 764 کلومیٹر طویل شاہراہ پر قطب شمالی یعنی آرکٹک کے قصبہ انوک پہنچنے سے قبل گھنے جنگل اور برف پوش چوٹیاں آتی ہیں۔
ڈیمپسٹر ہائی وے کا تصور 1950 کی دہائی کے آخر میں میک کینزی ڈیلٹا میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کیا گیا تھا اور یہ کئی دہائیوں پرانے کتوں کے ذریعے نگرانی کرنے کے راستے کی جگہ پر قائم کی گئی تھی۔ اب ایک اور مرکزی شاہراہ یا ہائی وے، اس ڈیمسٹر ہائی وے کے ساتھ آن جڑی ہے اور اس کو قطب شمالی کے قصبے انیوک سے بھی مزید 147 کلومیٹر آگے تک لے جاتی ہے۔
یہ شاہراہ اب آرکٹک اوقیانوس کے شمالی ساحل پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے ٹوکیاٹک تک جاتی ہے۔
یہ طویل اور سنسنان ڈیمسٹر ہائی وے کینیڈا کے بہترین اور مشکل ترین لمبے سفروں میں سے ایک ہیں جہاں فور بائی فور گاڑی کی مدد سے ایڈونچر کیا جا سکتا ہے۔
اس مشکل شاہراہ پر سفر کرنا آسان نہیں بلکہ گاڑی چلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس شاہراہ پر گاڑی چلانے والے اور اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے والوں کو ٹورسٹ دفتر کی جانب سے ’مشکل ترین شاہراہ پر سفر‘ کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ یہ ایک کچی سڑک ہے، جہاں نہ تو کوئی موبائل سگنل ہیں، نہ ہی قیام و طعام کے بے پناہ مواقع۔ یہاں پورے راستے میں صرف ایک پیٹرول پمپ موجود ہے جو تقریباً آدھے سفر کے بعد آتا ہے۔
جو کوئی بھی اس شاہراہ پر سفر کرنے کا ارادہ رکھے اسے ذہنی طور پر کسی خراب صورتحال یا سفری مشکل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے خود تجربہ کیا۔
ہمارا چھوٹا سا گروہ جس میں، میں، جہاز کا پائلٹ اور ایک جوڑا شامل تھا قصبے ٹکٹویاکٹک جسے مقامی افراد ٹک پکارتے ہیں سے سے ایک روزہ دورے کے بعد ایونیوک واپس آ رہے تھے۔ یہ سیاحتی دورہ ٹنڈرا نارتھ ٹورز نامی کمپنی کے تحت تھا۔
سنہ 2018 تک انیوک کے خطے تک صرف ایک چھوٹے جہاز، کشتی یا موسم سرما میں آئس روڈ کے ذریعے جایا جا سکتا تھا۔ جبکہ ٹک کے مقامی افراد آبادی سے دور دراز رہائش پذیر ہیں۔ ان کی مصروفیات میں وہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور اسے زیر زمین بنائے ہوئے فریزر میں سٹور کر لیتے ہیں۔ ایلین جیکبسن جیسی مقامی گائیڈ کی طرح جنھوں نے اپنے گھر میں ہمیں خوش آمدید کہا کو اس نئی سڑک کی تعمیر اور اس کے باعث ان کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات پر کچھ تحفظات بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ممکن ہے کہ اس سڑک کے یہاں زیادہ سیاح آئیں اور شائد اس سے یہاں گیس اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہو۔‘
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی خدشات اور تحفظات ہیں۔ یہاں کے مقامی افراد کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ کیسے اس سے پہلے کے علاقوں جیسا کہ انیوک کے افراد منشیات اور شراب کی لت میں پڑ کر تباہ ہو گئے تھے۔
حالانکہ کے کینیڈا کے دوردراز آبادی انیوک برادری کو اپنے روائتی طرز زندگی، صدیوں پرانے ہنر اور جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کیے بنا نیوگیشن یا راستے کی تلاش کے ہنر کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی مدد فراہم ہے۔
میں ابھی کچھ دن بعد بھی ان سب پر غور کر رہا تھا جب میں انیووک اور اس کے اگلو چرچ، قطار میں بنے رنگ برنگے گھروں قطاروں اور الیسٹین سے نکل رہا تھا، جہاں میں ہر روز ایک بس میں بنے ریستورنٹ جسے مختلف شوخ سٹیکرز لگا کر سجایا گیا تھا ہرن کے گوشت اور مچھلی کے ٹیکو کھانے کے لیے جاتا تھا۔
ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کا تجربہ
اس شاہراہ پر سفر کے دوران پہلے پہل تو چیزیں اچھی رہی۔ میں نے ڈیمسٹر ہائی وے کا ہچکولے کھاتے حصے کا سفر اپنی ایس یو وی میں طے کیا اور اس کے ساتھ جڑے ایک چھوٹے اور کم گھنے جنگل سے گزرتا ہوا میں وسیع دریائے میکنزی کے کنارے تک دو گھنٹوں میں پہنچ گیا۔
یہاں دریائے کے پار کار لے جانے والی کار فیری یعنی بڑی کشتی میری منتظر تھی۔ جس پر سوار ہوا اور پلک چھپکتے ہی نے یہاں دریا کے راستے میں موجود ایک مقامی آبادی کو کراس کرنے لگا۔
مگر اس کے کچھ دیر بعد ہی مجھے پیل ریور فیری لینڈنگ سے ہٹا دیا گیا، جو کہ فورٹ میک فیرسن کی معمولی طور پر بڑی گویچن بستی کے جنوب میں ہے۔ یہ آخری قصبہ ہے جسے میں ڈاسن سٹی سے پہلے دیکھوں گا جو تقریباً 580 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ موسم گرما میں برف سے پگھلنے والے پانی نے دریا میں پانی کی سطح بلند کر دی ہے اور یہ فیری وہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتی۔ میں نے پوچھا کہ یہ سروس دوبارہ کب شروع ہو گی؟‘ تو اس آدمی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ ’شاید کل، شاید نہیں۔‘
مقامی افراد کی طرح مجھے بھی اپنا آپ قدرت کے مزاج کے رحم و کرم پر محسوس ہوا۔ تاہم مقامی افراد کی طرح دریا کے دوسری پار جانا میرے لیے زندگی و موت کا معاملہ نہیں تھا۔
آپ اس صورتحال سے ذرا اس بات کا تصور کریں کہ انتہائی سرد موسم (نومبر تا دسمبر) میں اگر یہاں کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہو جائے یا موسم بہار ( مارچ تا اپریل) کے دوران جب یہ برف پگھل کر یہاں کے دو دریاؤں میں بہتی ہے اور اس دوران نہ تو آئس روڈ کھلی ہوتی ہے اور نہ ہی دریاؤں میں طغیانی کے باعث فیری سروس چل پاتی ہیں تو اس وقت یہ مقامی لوگ کیا کرتے ہوں گے۔
خیر میں نے رات دریائے پیل کے کنارے بنے ایک ہوٹل میں گزاری۔ میں وائٹ ہارس سے فلائٹ پکڑنا چاہتا تھا اور اس تمام ایڈونچر کے دوران اب میرے پاس وقت کم مقابلہ سخت تھا۔
اگلے دن میں فیری سروس کے ذریعے دریا کے اس بار پہنچا اور یہاں سے اب مجھے گاڑی دوڑانا تھی۔ خیر یہاں قسمت میرے پر مہربان رہی اور میں سڑک کے دونوں جانب گھنے جنگل کے بیچوں بیچ گاڑی دوڑاتا اور کچی سڑک پر مٹی اڑاتا ہوا جنوب کی جانب نکل گیا۔
اس شاہراہ پر گھنٹوں کے حساب سے آپ کے سامنے کا منظر بدلتا ہے۔ اب میں برف پوش چوٹیوں، پگھلتے گلیشیئر کے پانی سے بھرے دریاؤں اور ٹیلوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا سرسبز علاقے میں داخل ہو چکا تھا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ ’مجھے اس وقت تک گاڑی چلانی چاہیے جب تک میں تھک نہیں جاتا یا راستے میں کوئی اور مسئلہ نہیں درپیش ہوتا۔‘
فیری سفر کی تاخیر کے باعث میرے سفر کے پلان میں ردو بدل کے علاوہ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ میں اس غیر آباد اور سنسان علاقے میں رکنا یا پھنسنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے بھوک و پیاس کی فکر نہ تھی بلکہ اب تک میں کسی غیر متوقع ریچھوں کے حملے کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار تھا۔ لیکن مجھے یہاں لگنے والی جنگل کی آگ سے ڈر لگ رہا تھا۔ کیونکہ کینیڈا کے شمال میں گرمیوں کے موسم میں یہ آگ لگنا ایک عام بات بن چکی تھی۔ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ آگ نہ بھڑک اٹھے۔
ملک کے شمال مغربی علاقوں میں لگی جنگل کی آگ کے درمیان سے گاڑی چلاتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ آگ کی بو نے فطری طور پر میرے اندر اس خوف کو پیدا کیا تھا۔ خیر خوش قسمتی سے اس دن ڈیمسٹر ہائی وے پر میرا دن اچھا رہا، موسم میرے پر مہربان ہوا اور میرے ارد گرد جنگل گہری دھند میں لپٹا رہا۔
کچھ ہی دیر بعد آگے چل کر بارش برسنا شروع ہو گئی اور میری گاڑی پر پڑتی بارش کی بوندوں سے میری فکر اور خوف بھی دھل گیا۔ خیر اس دوران ڈرائیونگ میں ایک اور چھوٹی سے مشکل پیش آئی اور وہ یہ تھی کہ کچی سڑک پر بارش کے باعث کیچڑ بن گیا تھا اور گاڑی اس پر پھسلن کا شکار ہو رہی تھی۔
لیکن اسی وقت مجھے یہ احساس ہوا کے فور بائی فور چلاتے ہوئے اگر میں اسے سڑک کے درمیان میں رکھوں تو گاڑی کے کسی جانب پھسلنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ کیونکہ ایسا ہونا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
جیسے ہی ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کے دوران اس کے آدھے حصہ پر قائم ایگل پلینز موٹل مجھے دکھائی دیا میں نے شکر کا سانس لیا اور میں مارے خوشی کے کانپنا شروع ہو گیا۔ اس سرائے میں موجود ویٹرس کو جب میں نہ بتایا کہ میرے ساتھ راستے میں کیا ہوا تو اس نے میری حالت کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہاں آنے والے اکثر افراد ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔
وہ مجھے یہاں تک پہنچتا دیکھ کر خوش ہوئی تھی اور میں نے کھانے کے لیے برگر اور میٹ لوف کا آرڈر دیا۔ اس نے مجھ سے کہا ’دراصل ڈرائیور یہاں بہت تیز گاڑی چلاتے ہیں اور پھسلن کا شکار ہو کر سڑک سے نیچے جا اترتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی برفیلی سڑک پر گاڑی چلانا ہو۔ یہاں موبائل سگنل نہ ہونے کے سبب وہ ہمیں مدد کے لیے بھی نہیں بلا سکتے۔‘
یہ بھی پڑھیے
میں نے اس کے جواب میں ہاں میں سر ہلایا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈیمسٹر ہائی وے کے زیادہ تر حصے میں موبائل سگنل نہیں آتے، شاذو نادر ہی کسی کے پاس سٹیلائٹ فون ہوتا ہے اور اس صورتحال میں انھیں پیچھے سے آنی والی گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے انھیں کھائی یا سڑک سے نیچے ڈھلوان میں پھنسی اپنی گاڑی کو نکالنے کے لیے کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔’
میں نے اسے بتایا کہ ڈیمسٹر کی سمجھ مجھے پہلے ہی دن آ گئی تھی جب میں نے انیوک سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور تقریباً 360 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے اس کا آدھا راستہ بنا کسی حادثے کے طے کر لیا تھا۔ اس وقت میں ہائی وے پر تحفظ کے ایک جھوٹے احساس میں مبتلا ہو گیا تھا۔
’میں بھی حیران تھا کہ اس ہائی وے پر سفر کرنے والی حفاظتی تدابیر کی میری گائیڈ بک میں ایک کی جگہ دو اضافی ٹائر رکھنے کا کیوں کہا گیا تھا۔‘
اس سے پہلے کہ میں خود کو بیکار سمجھتا اس سے قبل ہی میں اپنی خام خیال سے بیدار ہو گیا جب میری کار میں سے ایک بیپ سنائی دینے لگی اور میں نے اپنی گاڑی کے میٹر پر دیکھا تو میری گاڑی کے ایک ٹائر سے ہوا بہت تیزی سے نکل رہی تھی۔ کیونکہ ٹائر پنکچر ہو گیا تھا۔
ڈیمسٹر ہائی وے پر ان دنوں جب مٹی اور کٹی ہوئی بجری ڈالی گئی تھی ایسے میں ٹائر پنکچر ہونے کے امکانات کم تھے۔ لیکن یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ کوئی بھی حادثہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو میرے پاس کار جیک اور ٹائر بدلنے کے دیگر اوزار گاڑی میں موجود تھے اور میں ٹائر تبدیل کر سکتا تھا۔ لیکن میں نے اپنی گاڑی کو ایگل پلینز سرائے کے قریب ایک مقامی میکنیک تک لے جانا مناسب سمجھا اور گاڑی کو چند کلومیٹر آگے چلا کر وہاں تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس نے میری گاڑی کا پنکچر لگایا اور مجھے اسی دن ایونک پہنچنے کے قابل بنایا۔
اب ڈاؤسن شہر کے لیے واپسی کا سفر کلندوکے ہائی وے کے آخری حصے کا سفر میرے لیے آسان دہ اور پرسکون تھا۔ سیدھی سڑک پر ارد گرد کا جنگل بھی وسیع ہوتے ہوئے کھل رہا تھا اور سورج بھی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی میں نے ڈیمسٹر- کلندوکے ہائی وے کا جنکشن کراس کیا میری گاڑی کا پیٹرول ختم ہونے کا جھٹکا لگا۔
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ سکینڈوں میں میری گاڑی کا پیٹرول ٹینک خالی ہو گیا اور گاڑی رک گئی۔
بس یہ ان رکاوٹوں میں سے ایک اور تھی جو ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے آپ کے سامنے آ سکتی ہے۔ یہاں کوئی موبائل سگنل نہیں تھے اور میں کلندوکے ہائی وے پر ڈاؤسن شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر مشرق میں بے یارو مددگار کھڑا تھا۔ میری گاڑی رک چکی تھی اور یہ ممکن تھا کہ اگلے کئی گھنٹوں تک میری پاس کوئی مدد نہ پہنچے۔
تاہم خوش قسمتی سے میری گاڑی رکنے کے چند منٹ بعد ہی وہاں سے گزرتی ایک گاڑی نے مجھے لفٹ دے دی اور میں ڈاؤسن شہر میں اپنے گیسٹ ہاؤس واپس پہنچ گیا۔ گیسٹ ہاؤس واپس پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ بھی ڈیمسٹر ہائی وے پر سفر کرنے کے دوران ایڈونچر کی مزے کا حصہ ہے۔ اس تمام سفر کے دوران جب بھی میں کسی مشکل یا حادثے کا شکار ہونے کی قریب پہنچا تو میری خوش قسمتی نے میرا ساتھ دیتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا۔
اور شاید کینیڈا کی سب سے مشکل ہائی وے پر سفر کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔
Comments are closed.