اسرائیل، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفارتی تعلقات کی بحالی سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا؟
- نسرین حاطوم
- بی بی سی نیوز عربی
گذشتہ برس ستمبر میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے بہت اہم سمجھا گیا تھا۔ اس معاہدے سے یہ امید کی گئی کہ اسرائیل پر عرب ممالک کے دروازے کھل جائیں گے جو سنہ 1979 میں مصر کے ساتھ اور سنہ 1994 میں اردن کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے بعد بھی نہیں کھلے تھے۔
اس معاہدے پر بہت باتیں ہوئيں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تینوں ممالک کے درمیان اس معاہدے سے توقعات کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ پچھلے ایک سال میں اسرائیل، ابوظہبی اور مناما میں جو کچھ کرنے میں کامیاب رہا، اسے قاہرہ اور عمان میں اتنی کامیابی نہیں ملی تھی۔
مصر اور اردن میں اسرائیل کے متعلق خدشات موجود ہیں۔ یہی صورت حال اسرائیل میں مصر اور اردن کے معاملے میں ہے۔ لیکن اس طرح کے خدشات متحدہ عرب امارات اور بحرین میں ظاہر نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ سے اسرائیل ان دونوں ممالک کے ساتھ ثقافت، تعلیم، سیاحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ تجارتی اور سفارتی سطح پر تعلقات بڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔
اسرائیل کے صدر کو متحدہ عرب امارات کے سفیر محمد محمود الخواجہ اپنے کاغذات سونپتے ہوئے
سفارتی اتحاد
تینوں ممالک کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کے لیے اس معاہدے کے مطابق ان ممالک میں سفارتی تعلقات بڑھانے پر زور دیا گیا۔ اس تناظر میں اسرائیل میں بحرین کے سفیر خالد یوسف الجلاہمہ نے ایک اعلان میں کہا کہ وہ اسرائیلی صدر کو معاہدے کے ایک سال مکمل ہونے پر کامیابیوں کی تصویر پیش کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں متحدہ عرب امارات کے سفیر محمد محمود الخاجہ نے رواں سال مارچ میں اس معاہدے پر اپنا نظریہ دیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لیپڈ نے جون میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور وہاں اسرائیلی سفارت خانے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر متحدہ عرب امارات میں یہودی کمیونٹی کے صدر ربی لیوی ڈیکمین بھی موجود تھے۔
ایتان ناہ کو متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کا پہلا سفیر مقرر کیا گیا جبکہ بحرین میں یہ ذمہ داری ایٹی ٹیگنر کو سونپی گئی۔
بحرین کے یہودیوں کی پرانی تصاویر
خلیجی ممالک میں یہودی
ان معاہدوں کے بعد لوگوں کی توجہ خلیجی ممالک میں آباد یہودیوں کی طرف مبذول ہوئی۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین دونوں ملکوں میں یہودی آباد ہیں۔ بحرین کے مقابلے میں متحدہ عرب امارت میں یہودی زیادہ ہیں۔ بحرین میں رہنے والے یہودی بحرینی یہودی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر عراقی نژاد ہیں۔ یہ لوگ کئی دہائیوں سے بحرین میں مقیم ہیں۔
بحرین میں یہودیوں کا اپنا قبرستان بھی ہے اور یہودیوں کے لیے ان کا عبادت خانہ بھی ہے۔ لیکن متحدہ عرب امارات میں یہودیوں کی موجودگی صرف گذشتہ 20 برسوں میں ہی دیکھی گئی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہاں آباد یہودی امارت سے نہیں ہیں۔ یعنی وہ مختلف ممالک سے آئے ہیں۔ زیادہ تر یہودی امریکہ، جنوبی افریقہ اور کچھ یورپی ممالک سے آئے ہیں۔
تین ممالک کے درمیان معاہدے کے بعد دونوں ممالک میں رہنے والے یہودی عوامی سطح پر ثقافتی، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ روایتی طور پر یہودیوں میں کوشر کو حلال سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ کھانا بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ہوٹلوں میں پایا جا رہا ہے۔
بحرین میں یہودی برادری کے صدر ابراہیم نونو
بحرین میں یہودی کمیونٹی کے سرکاری نمائندے ابراہیم نونو نے بی بی سی عربی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بحرینی یہودیوں کی تعداد تقریباً 100 ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد زیادہ تر وقت ملک سے باہر رہتے ہیں۔ ابراہیم کو توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں بحرین میں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
بحرین میں یہودیوں کی موجودگی کے بارے میں ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’پچھلی صدی میں عراقی یہودیوں نے بحرین کو انڈیا اور یورپ کے ساتھ رابطے کے مرکز کے طور پر دیکھا۔ وہ عراق سے کام تلاش کرنے کے لیے بحرین آتے تھے۔‘
انھوں نے کہا: ’میرے دادا عراق سے بحرین آئے تھے۔ وہ یہاں ایک بیکری میں کام کرتے تھے۔ بحرین میں کپڑوں کی فیکٹریوں یا الیکٹرانکس کمپنیوں میں کام کرنے آنے والے یہودیوں کی تعداد 800 تک پہنچ گئی تھی۔ ان میں سے بیشتر مناما مارکیٹ میں ہی کام کرتے تھے۔‘
بحرین میں سنہ 1935 میں یہودیوں کے لیے عبادت خانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہودی برادری کے بچوں کو عبرانی زبان، عبادت اور دیگر مذہبی رسومات سکھانے کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ سنہ 1948 تک حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ اسی سال اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو بہت سے لوگ اسرائیل ہجرت کر گئے جبکہ کچھ یہودیوں نے یورپ اور امریکی ممالک میں پناہ لی۔
ابراہیم کے مطابق بحرین میں رہ جانے والے لوگ بحرینی کمیونٹی کے ساتھ مکمل طور پر گھل مل گئے اور بحرین کے معاشرے کی تعمیر میں بے مثال حصہ ڈالا۔
اسرائیلی سکیورٹی مشیر متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورے پر
معاہدے سے ان ممالک کو کیا ملا؟
اس معاہدے کا اثر معاشی شعبوں میں بھی نظر آرہا ہے۔ اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل میں توانائی، پانی، خلا، صحت اور زراعت کے شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔
اسرائیل کے سینٹرل بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت 60 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسرائیل نے 20 کروڑ ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا ہے جبکہ درآمدات 30 کروڑ ڈالر رہی۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی بزنس کونسل کی توقعات کے مطابق رواں سال کے آخر تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو جائے گی۔ اگلے تین برسوں میں اس کے تین ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ دونوں ممالک کے چار ہزار سے زائد تاجر اس کونسل میں شامل ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان بحرین کے ساتھ تین لاکھ ڈالر کی تجارت ہوئی۔ گذشتہ سال کے آخری تین ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی تجارت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تین ممالک کے درمیان وائٹ ہاؤس میں معاہدے پر دستخط ہوئے۔
اسرائیل کی وزارت خزانہ کے مطابق اسرائیل، بحرین کے ساتھ ہیرے اور معدنیات کے شعبے میں اپنی برآمدات میں اضافہ کرے گا جبکہ پٹرولیم اور ایلومینیم کے شعبے میں اپنی درآمدات میں اضافہ کرے گا۔
برٹش سینٹر فار سٹڈیز کے علاقائی سربراہ امجد طہٰ
معاشی شعبے میں ہونے والی پیش رفت
برٹش سینٹر فار سٹڈیز کے علاقائی سربراہ امجد طہٰ نے بی بی سی نیوز عربی کو بتایا کہ اس معاہدے نے ٹیکنالوجی، زراعت اور سکیورٹی کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تینوں ممالک اسرائیل-امارات-بحرین کے اکٹھے ہونے سے معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
تاہم ان لوگوں کے مطابق اس اتحاد کے ذریعے اسرائیل خلیجی خطے میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کے عزائم کا جواب تیار کرنے میں مصروف ہے۔ بی بی سی نیوز عربی سے گفتگو میں طہٰ کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد ایران کی مدد سے خطے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے لڑنے میں مدد دے گا۔
دوسری جانب دبئی کے دی نیئر ایسٹ اینڈ گلف انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری اینالیسس کے ڈائریکٹر ریاض خاجی نے بی بی سی نیوز عربی سے گفتگو میں مختلف رائے کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا: ‘کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ جہاں تک اس معاہدے کے مقصد کا تعلق ہے اس کی سیاسی اور اسٹریٹجک اہمیت ضرور ہے لیکن میرے خیال میں معاشی پہلو سب سے زیادہ اہم اور واضح ہے۔‘
ریاض خاجی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس معاہدے کی سب سے اہم بات اسرائیل کے لیے عرب ممالک کے دروازے کھول دینا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک نے اسرائیل کی موجودگی کو قبول کر لیا ہے۔ ان کے مطابق بہت سے عرب ممالک اسرائیل کو دشمن کے طور پر دیکھتے تھے لیکن اس معاہدے کے بعد صورت حال بدل جائے گی۔
تاہم اس پورے عمل کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دبئی کے دی نیئر ایسٹ اینڈ گلف انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری اینالیسس کے ڈائریکٹر ریاض
امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کا اثر
امریکہ میں جو بائیڈن کے صدر بننے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کا عمل بھی اس عمل پر اثر انداز ہوا ہے۔ بائیڈن کی آمد کے بعد سعودی عرب کی زیر قیادت عرب ممالک کے ساتھ معاہدے کو بڑھانے کا اسرائیل کا عمل ابتدائی توقعات کے برعکس رک گیا ہے۔
سینٹر فار سکیورٹی پالیسی کی چیف ریسرچر دالیہ العقیدی اس عمل میں سعودی عرب کی شمولیت کی سختی سے تردید کرتی ہیں۔
العقیدی نے بی بی سی نیوز عربی کو بتایا: ’سعودی عرب خود کو عرب ممالک اور اسلامی ممالک کا رہنما سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کا نگہبان ہے۔ ایسے میں اسرائيل کے ساتھ وہ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا خطرہ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ اگر ایسا کرتا ہے تو اسلامی ممالک میں اس کا اثرو رسوخ خطرے میں پڑ جائے گا۔‘
ان کے بقول سعودی عرب سنہ 2002 میں شروع ہونے والے عرب امن اقدام کے لیے اپنے وعدے پر کام کرنا جاری رکھے گا۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ اسرائیل خطے میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بغیر بھی فعال رہے گا۔
تاہم، بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک ابھی تک جو بائیڈن کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ چین کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔دالیہ العقیدی کا بھی خیال ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
سینٹر فار سکیورٹی پالیسی کی چیف ریسرچر دالیہ العقیدی
وہ کہتی ہیں کہ ’جو بائیڈن کو عہدہ سنبھالنے کے بعد سے کئی دھچکے لگے ہیں۔ چاہے وہ امریکی میکسیکو سرحد پر غیر قانونی داخلے کا معاملہ ہو یا افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا مسئلہ۔ انھیں دھچکے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن اور بینیٹ کے درمیان تعلقات بھی نئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو ٹھوس شکل دینے سے پہلے دونوں کو کچھ وقت درکار ہے۔‘
العقیدی بائیڈن کی ترجیحات کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکہ کی دوست ملک کے طور پر شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ تائیوان کو بھی یہی پیغام ملا ہے کہ امریکہ قابل اعتماد حلیف نہیں ہے۔ اس پر امریکی انتظامیہ کو جلد توجہ دینی ہو گی اور اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘
تاہم دبئی میں قائم دی نیئر ایسٹ اینڈ گلف انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری اینالیسس کے ڈائریکٹر ریاض خاجی کے مطابق ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کے کام کرنے کے طریقے میں کچھ فرق ہو سکتے ہیں، لیکن دونوں کی پالیسی اسرائیل میں حالات کو معمول پر لانا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ریاض خاجی کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں اس معاملے کی ذمہ داری اپنے داماد کو سونپی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ جبکہ بائیڈن اسے ادارہ جاتی طور پر آگے لے جائیں گے۔‘
تاہم ریاض یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تجزیہ کار اب بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
’لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ فلسطین کے مسئلے پر ‘دو ملکی اصول’ پر کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ٹرمپ کے دور حکومت میں امداد پر عائد پابندی ہٹا کر فلسطینیوں کو مالی امداد دینا شروع کر دی۔‘
محمود عباس
مسئلہ فلسطین کا کیا ہو گا؟
جب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والے معاہدے کا اعلان کیا گیا تو کہا گیا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کا دور ختم ہو چکا ہے اور کچھ نیا سوچنا پڑے گا۔ اس معاہدے کے بعد کئی فلسطینی جماعتوں کو خدشہ تھا کہ یہ ایک آزاد فلسطین کے قیام کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو گا۔
اس وقت متحدہ عرب امارات نے ایک سے زیادہ مواقع پر کہا کہ یہ ریاست فلسطین کی شناخت کو روکنے کے مترادف ہے اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی کہا کہ یہ عمل ابھی التوا میں ہے۔
رواں سال مئی میں بحرین اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات شیخ جراح کے پرتشدد واقعات کے دوران آزمائے گئے تھے۔ تاہم معاملہ سنبھال لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ معاہدے کا بنیادی مقصد معاشی ہے۔
ریاض خاجی کے مطابق مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کا معاہدہ جغرافیائی اعتبار سے زیادہ موثر معاہدہ تھا۔ ان کے مطابق: ’متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کا بین الاقوامی برادری پر محدود سیاسی اثرات ہے۔
’انسانی بنیادوں پر فلسطین کو ابوظہبی کی امداد ہو یا فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ، ان سب پر متحدہ عرب امارات کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں نظر آتا ہے۔‘
Comments are closed.