بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’ہوانا سِنڈروم‘ اور مائیکرو ویو کا معمہ، جس نے امریکی سفارت کاروں اور جاسوسوں کو بیمار کیا

’ہوانا سِنڈروم‘ اور مائیکرو ویو کا معمہ: جسےامریکی سفارت کاروں اور جاسوسوں کے خلاف خفیہ ہتھیار سمجھا جاتا رہا

  • گورڈن کریرا
  • سیکیورٹی کارسپینڈینڈینٹ، بی بی سی نیوز

Illustration of woman in a hotel room experiencing pain in her head

ڈاکٹر، سائنسدان، انٹیلیجنس کے ایجنٹس اور سرکاری افسران سب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’ہوانا سنڈروم‘ نامی بیماری کے پھیلنے کی کیا وجہ ہے۔ ایک پراسرار بیماری جسے امریکی سفارتکاروں اور جاسوسوں کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

کچھ لوگ اسے ایک ’جنگی حملہ‘ کہتے ہیں، دوسروں کو تعجب ہوتا ہے کہ کیا یہ نگرانی کی کوئی نئی اور خفیہ شکل ہے۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے ذہن کا ایک خیال بھی ہو سکتا ہے۔ تو کون ہے اس کے پسِ پشت یا کون سے عوامل اس کے ذمہ دار ہیں؟

اس بیماری کا آغاز عموماً ایک ایسی آواز کے ساتھ شروع ہوتا ہے جسے اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کے لیے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ متاثرین اس کے اثرات کے نتیجے میں اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے شور کو ‘بزنگ’، ‘دھات پیسنے والی’ یا ‘چھیدنے والی چیخیں’ جیسی آوازیں کہہ کر بیان کر پاتے ہیں۔

ایک عورت نے اپنی سر میں کم درجے کی ایک قسم کی برقی آواز اور شدید دباؤ بیان کیا۔ دوسری کو سر درد محسوس ہوا۔ جنھوں نے آواز نہیں سنی، انھوں نے گرمی یا دباؤ محسوس کیا۔ لیکن ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آواز سنی، انھیں اپنے کانوں کو ڈھانپنے کے باوجود بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ سنڈروم کی کیفیت سے گزرنے والے کچھ لوگوں کو چکر آتا ہے اور وہ مہینوں تک تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔

‘ہوانا سنڈروم’ کا پہلا واقعہ سب سے پہلے سنہ 2016 کیوبا میں پیش آیا۔ اس کے پہلے کیسز سی آئی اے افسران تھے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی اس بیماری کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ لیکن آخر کار اس کے بارے میں بات پھیلی اور پھر پریشانی پیدا ہوئی۔ چھبیس اہلکار اور اُن کے اہلِ خانہ کے افراد میں ان علامات کی وسیع اقسام کی اطلاعات ملیں۔ کچھ کھسر پھسر ایسی سنی گئی کہ کچھ ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ یہ مریض کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں اور یہ سب کچھ ان کے اپنے ذہن میں ہو رہا ہے۔

پانچ سال بعد ایسے کیسوں کی رپورٹوں کی تعداد اب سینکڑوں میں ہے اور بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ یہ بیماری ہر براعظم میں پھیلی ہوئی ہے، جس سے امریکہ کی بیرون ملک کام کرنے کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔

حقیقت جاننا اب امریکی قومی سلامتی کی اولین ترجیح بن چکا ہے- جسے ایک عہدیدار نے انٹیلی جنس کا سب سے مشکل چیلنج قرار دیا ہے۔

Short presentational grey line

اس بیماری کے بارے ٹھوس ثبوت نظر نہیں ملے ہیں، جس کی وجہ سے ‘ہوانا سنڈروم’ کو ایک جنگی حملے کے طور پر لینے کی بجائے نظریات کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ اہلکار اسے ایک نفسیاتی بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ کچھ دوسروں کو یہ ایک خفیہ ہتھیار نظر آتا ہے۔ لیکن شواہد کی بڑھتی ہوئی تعداد اس ممکنہ کارروائی کی وجہ ‘مائیکرو ویوز’ کو قرار دے رہے ہیں۔

سنہ 2015 میں امریکہ اور کیوبا کے درمیان کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ لیکن دو سال کے اندر ہوانا سنڈروم کی وجہ سے سفارت خانے کو تقریباً بند کرنا پڑا تھا، کیونکہ عملے کو ان کی فلاح و بہبود کے خدشات کے پیشِ نظر واپس بلا لیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ کیوبا کی حکومت – یا اس کا کوئی ایک سخت گیر دھڑا جو تعلقات کو بہتر بنانے کا مخالف ہے – ایسی حملہ آور بیماری کا ذمہ دار ہو سکتا ہے، جس میں کچھ صوتی قسم کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ بہرحال کیوبا کی سیکورٹی سروس امریکی اہلکاروں کی آمد سے گھبرائی ہوئی تھی اور یہ سروس کیوبا کے دارالحکومت پر سخت گرفت رکھتی تھی۔

تاہم جب اس طرح کی بیماری کے واقعات دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی پیش آئے تو کیوبا کے سیکیورٹی اداروں کے ملوث ہونے کا یہ نظریہ کمزور ہوتا گیا۔

Short presentational grey line

حال ہی میں ایک اور امکان پر غور کیا جا رہا ہے – ایک امکان جس کی جڑیں سرد جنگ کے تاریک ادوار میں موجود ہیں، اور ایک ایسی جگہ جہاں سائنس، طب، جاسوسی اور جیو پولیٹکس سب آپس میں گُھل مِل جاتے ہیں۔

جب الینوائے یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز لن نے ہوانا میں پراسرار آوازوں کے بارے میں پہلی رپورٹ پڑھی تو اسے فوراً شک ہوا کہ ایسی سرگرمیوں کی ذمہ دار ‘مائیکرو ویوز’ بنتی ہیں۔ ان کا یہ خیال نہ صرف نظریاتی تحقیق پر مبنی تھا بلکہ پرانی تحقیق کے تجربوں کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا۔ اس نے کبھی خود بھی ایسی آوازیں سنی تھیں۔

دوسری جنگ عظیم کے ارد گرد کے ادوار اور اس کے بعد سے یہ دیکھا گیا تھا کہ اگر لوگوں کے قریب ریڈار آن کیا جائے اور اُس سے آسمان پر مائیکرو ویوز ایک ’پلس‘ (ایک دھیمے جھٹکے) کی صورت میں خارج ہوں تو اس کا ہدف بننے والے خاص قسم کی آواز محسوس کرتے تھے ہیں باوجود اس کے کہ وہاں کوئی اور بیرونی شور نہیں ہو رہا تھا۔ سنہ 1961 میں ڈاکٹر ایلن فری کے ایک مقالے میں کہا گیا تھا کہ ایسی آوازیں مائکروویوز کے اعصابی نظام کے ساتھ تعامل کی وجہ سے محسوس ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ‘آزاد ذریعے کا اثر’ کی اصطلاح وجود میں آئی ہے۔ تاہم اس مسئلے کی صحیح وجوہات – اور مضمرات – اب تک غیر واضح رہے ہیں۔

line

Jeep drives though Cuba

line

سنہ 1970 کی دہائی میں پروفیسر لن نے واشنگٹن یونیورسٹی میں اپنے تجربات کا کام شروع کیا۔ وہ جاذبِ نظر اشیا سے مزین ایک چھوٹے سے کمرے میں لکڑی کی کرسی پر بیٹھا تھا، ایک انیٹینا تھا جو اس کے سر کے پچھلے حصے کی جانب جھکا ہو تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں ہلکا سوئچ تھاما ہوا تھا۔ باہر ایک ساتھی نے مائکروویو کی لہریں اینٹینا کے ذریعے بے ترتیب وقفوں سے ایک پلس کی صورت میں بھیجیں۔ اگر پروفیسر لن کوئی آواز سنتا تو وہ سوئچ دبا دیتا۔

ایک لہر زپ یا کلک کرنے والی انگلی کی طرح لگتی تھی۔ یہ پرندے کی چہچہاہٹ کی طرح کا لہروں کا ایک سلسلہ تھا۔ وہ باہر سے آنے والی صوتی لہروں کی طرح اس کے سر میں پیدا ہوتیں۔ پروفیسر لن کا خیال تھا کہ انرجی نرم دماغ کے ٹشو میں جذب ہوتی ہے اور سر کے اندر حرکت پذیر دباؤ کی لہر میں تبدیل ہوتی ہے جسے دماغ ایک آواز سے تعبیر کرتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوا جب ہائی پاور مائکروویوز لہریں ایک پلس کے طور پر خارج ہوتی تھیں، نہ کہ کم طاقت کی مسلسل شکل میں جو آپ کو جدید مائکروویو اوون یا دیگر آلات سے ملتی ہے۔

Illustration of man undergoing an experiment on his brain

پروفیسر لن یاد کرتے ہیں کہ وہ محتاط تھے کہ اسے زیادہ اونچا نہ کریں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے دماغ کو نقصان پہنچے۔

سنہ 1978 میں اس نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ دریافت کیا کہ وہ اکیلا ہی اس موضوع پر تحقیق نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ کچھ اور لوگ بھی یہ کام کر رہے تھے۔ سائنسدانوں کے ایک گروپ سے اپنے تازہ ترین مقالے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اُسے دوسرے محققین کی جانب سے ایک غیر معمولی دعوت ملی جو اپنی جگہ الگ سے اپنے تجربات کر رہے تھے۔

Short presentational grey line

سرد جنگ کے دوران سائنس عالمی طاقتوں کے درمیان شدید قسم کی دشمنی کے دور میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ کہیں مخالف ہم سے آگے نہ نکل جائے دماغی کنٹرول جیسے شعبوں پر بھی تحقیقی کام ہو رہے تھے، اور اس میں مائیکرو ویو پر کام بھی شامل تھا۔

پروفیسر لن کو ماسکو کے قریب پشچینو نامی قصبے میں سائینسی تحقیق کے ایک مرکز میں سوویت تحقیقی کام کا انداز دکھنے کو ملا۔ پروفیسر لن یاد کرتے ہیں کہ ‘ان کے پاس ایک بہت وسیع، بہت اچھی طرح سے لیس لیبارٹری تھی۔ لیکن ان کا تجربہ اس کے اپنے کام کی نسبت کافی خام قسم کا تھا۔ وہ لوگ جس شخص پر تجربہ کرتے تھے اُسے سمندر کے نمکین پانی میں بٹھاتے لیکن اس کا سر پانی سے باہر رکھتے پھر اس کے دماغ کو مائکرو ویو کی لہروں کی پلس کی صورت میں اخراج کا ہدف بناتے۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ مائکرو ویوز اعصابی نظام کے ساتھ تعامل کرتا ہے اور وہ اسی موضوع پر پروفیسر لن سے ان کے متبادل نظریہ پر سوالات کرنا چاہتے تھے۔

تجسس نے مزید میل جول روک دیا، تاہم امریکی جاسوسوں نے سوویت تحقیق پر نظر رکھی۔ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کی سنہ 1976 کی ایک رپورٹ، جسے بی بی سی نے دریافت کیا، کہتی ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسی کو کمیونسٹ بلاک میں مائکرو ویو ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا، لیکن اس نے کہا کہ اسے ایسے تجربات کے بارے میں علم ہوا ہے جہاں مائکرو ویو کی پلس کی صورت میں خارج ہونے والی لہروں سے مینڈکوں کے گلے کو تب تک مسلسل ہدف بنایا جاتا جب تک کہ ان کے دل دھڑکنا بند نہ ہو جائیں۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ کو تشویش تھی کہ سوویت سائنسدان مائیکرو ویوز کا استعمال دماغی کارکردگی کو خراب کرنے یا نفسیاتی اثر کے لیے ایسی آوازیں پیدا کرنے کے لیے بھی کر سکتے تھے۔ ‘ان کی اندرونی صوتی تاثر کی تحقیق فوجی یا سفارتی اہلکاروں کے رویے کے گمراہ کرنے یا ان میں خلل ڈالنے کی کافی صلاحیت رکھتی ہے۔’

امریکی مفاد محض دفاعی ضروریات تک محدود نہیں تھا۔ جیمز لن کو کبھی کبھار ایسے خفیہ امریکی منصوبوں کے کام کو دیکھنے کا موقعہ ملا جن میں وہ اس مائیکرو ویو کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرنے کے تجربات کر رہے تھے۔

Short presentational grey line

اور جب پروفیسر لن پشچینو میں تھے، امریکیوں کا ایک اور گروپ اس بات سے پریشان تھا کہ انہیں مائیکرو ویو کے حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا تھا – اور یہ کہ ان کی اپنی حکومت نے پھر ان سرگرمیوں کے بارے معلومات کو چُھپا دیا تھا۔

تقریباً ایک چوتھائی صدی تک ماسکو میں 10 منزلہ امریکی سفارت خانے کو نچلی سطح کے مائیکرو ویوز کے ایک وسیع، پوشیدہ غلاف میں گھیر لیا گیا تھا۔ یہ ‘ماسکو سگنل’ کے نام سے مشہور ہوا۔ لیکن کئی سالوں تک سفارت خانے کے اندر کام کرنے والوں میں سے بیشتر کو اس غلاف کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

یہ غلاف قریبی سوویت اپارٹمنٹ کی بالکونی پر اینٹینا سے شروع ہوتا تھا اور سفارت خانے کی بالائی منزلوں سے ٹکراتا جہاں سفیر کا دفتر تھا اور جہاں زیادہ حساس کام کیا جاتا تھا۔ اسے پہلی بار سنہ 1950 کی دہائی میں نوٹ گیا تھا اور بعد میں دسویں منزل کے ایک کمرے سے اس کی نگرانی کی گئی۔ لیکن اس کا وجود ایک راز تھا جو اندر سے کام کرنے والے چند لوگوں کے علاوہ سب سے چھپا کر رکھا گیا تھا۔ سنہ 70 کی دہائی کے وسط میں سفارت خانے میں دوسری اہم پوزیشن پر کام کرنے والے جیک میٹلاک بتاتے ہیں کہ ‘ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔’

US Embassy on Novinsky Boulevard in Moscow, circa 1964

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1964 میں ماسکو میں نووِنسکی بُلیوارڈ پر امریکی سفارت حانے کی عمارت۔

تاہم سنہ 1974 میں تعینات ہونے والے امریکہ کے نئے سفیر، والٹر سٹوسل نے دھمکی دی کہ اگر اس راز سے سفارت خانے کے سارے عملے کو آگاہ نہ کیا گیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ مسٹر میٹ لاک یاد کرتے ہیں کہ ‘اس کے اس اعلان نے ہر طرف ایک ہلچل پیدا کردی۔’ سفارت خانے کا عملہ جن کے بچے تہہ خانے کی نرسری میں ہوتے تھے، وہ خاص طور پر پریشان تھے۔ تاہم اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے خطرے کے خوف کو کم کرنے کی کوشش کی کہ جیسے یہ کوئی خطرے کی بات نہیں تھی۔

پھر سفیر اسٹوسل خود بیمار ہو گیا – آنکھوں سے خون بہنا اس کی علامات میں سے ایک ہے۔ واشنگٹن میں سوویت سفیر کو سنہ 1975 میں ایک غیر اعلانیہ فون کال میں، امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسٹوسل کی بیماری کو مائیکرو ویو سے جوڑ دیا، اور اعتراف کیا کہ ‘ہم بات پر شور نہیں مچانا چا رہے ہیں’۔ اسٹوسل 66 سال کی عمر میں لیوکیمیا سے مر گیا۔ اس کی بیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس نے ایک اچھے فوجی کا کردار نبھانے کا فیصلہ کیا تھا۔’

سنہ 1976 سے لوگوں کی حفاظت کے لیے سکرینیں لگائی گئیں۔ لیکن بہت سے سفارت کار ناراض تھے، یہ مانتے ہوئے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کی اور پھر صحت کے کسی بھی ممکنہ اثرات کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی۔ یہ دعویٰ دہائیوں کے بعد ‘ہوانا سنڈروم’ کے نام سے مشہور ہوا۔

ماسکو سگنل کس کے لیے تھا؟ ‘مجھے پورا یقین ہے کہ سوویت اہلکاروں کے ارادے ہمیں نقصان پہنچانے کے علاوہ بھی تھے۔ وہ نگرانی کی ٹیکنالوجی میں امریکہ سے بہتر تھے اور ایک نظریہ یہ تھا کہ وہ بات چیت سننے کے لیے کھڑکیوں کے شیشوں پر مائیکرو ویوز بھیجتے جن کے واپس پلٹنے کی صورت میں وہ کھڑکیوں کے اندر ہونے والی بات چیت سن سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ عمارت کے اندر چھپے ہوئے اپنے سننے کے آلات کو استعمال کر رہے تھے یا مائیکرو ویوز کے ذریعے وہ معلومات حاصل کر رہے تھے جو امریکی الیکٹرانک آلات کو دی جاتی تھیں ( یہ ‘جھانکنا اور پھینکنا’ کہلاتا تھا)۔ سوویت اہلکاروں نے ایک موقع پر میٹ لاک کو بتایا کہ اس کا مقصد دراصل سفارت خانے کی چھت پر امریکی آلات کو جامد کرنا تھا جو ماسکو میں سوویت مواصلات کو روکنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

یہ نگرانی اور جوابی نگرانی کا دور ہے، اتنا خفیہ کہ سفارت خانوں اور حکومتوں میں بھی صرف چند ہی لوگوں کو اس کا مکمل علم ہوتا تھا۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ ہوانا سنڈروم میں زیادہ طاقتور، ہدف بنا کر مائیکروویوز کے ذریعے کسی قسم کی نگرانی کرنے کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا تھا۔ برطانیہ کے ایک سابق انٹیلی جنس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مائیکرو ویو سگنل نکالنے یا ان کی شناخت اور ٹریک کرنے کے لیے الیکٹرانک آلات کو ‘روشن’ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لوگ قیاس کرتے ہیں کہ ایک آلہ (حتیٰ کہ شاید ایک امریکی بھی) خراب طریقے سے تیار کیا گیا ہو یا وہ کسی خرابی کا شکار ہو سکتا ہے اور کچھ لوگوں میں جسمانی ردعمل کا سبب بنا ہو۔ تاہم امریکی حکام بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں سے کسی ایسے آلے کی نشاندہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسی کوئی شہ کبھی برآمد ہوئی ہے۔

Short presentational grey line

ایک خاموشی کے وقفے کے بعد یہ سرگرمیاں کیوبا سے آگے تک پھیلنے اور بڑھنے لگیں۔

دسمبر سنہ 2017 میں، سی آئی اے کا ایک سینیئر اہلکار، مارک پولیمروپلس ماسکو کے ایک ہوٹل کے کمرے میں اچانک بیدار ہوا۔ وہ اپنے روسی ہم منصبوں سے ملنے شہر میں آیا ہوا تھا۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میرے کان بج رہے تھے، میرا سر گھوم رہا تھا۔ مجھے لگا کہ میں قے کرنے جا رہا ہوں۔ میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ خوفناک حالت تھی۔’ یہ پہلے ہوانا کیسز کے ایک سال بعد کا واقعہ تھا، لیکن سی آئی اے میڈیکل آفس نے اسے بتایا کہ اس کی علامات کیوبا کے کیسز کی علامات سے مماثلت نہیں رکھتی تھیں۔ اس کے علاج کے لیے ایک طویل دور شروع ہوا۔ اُس کا شدید سر درد کبھی دور نہیں ہوا اور سنہ 2019 کے موسم گرما میں وہ ریٹائر ہونے پر مجبور ہوگیا۔

مسٹر پولیمروپلس کے خیال میں وہ اصل میں کسی قسم کے تکنیکی نگرانی کے آلے سے متاثر ہوا ہے جسے ‘بہت زیادہ تبدیل کردیا گیا تھا۔’ لیکن جب سی آئی اے میں مزید کیسز سامنے آئے جو کہ سب ایسے افراد میں دیکھے گئے جو روس کے سفارت خانے میں کام کرتے تھے، تب اسے یقین ہوگیا کہ اسے کسی ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

لیکن پھر چین میں ایسا واقعہ پیش آیا، جس میں سنہ 2018 کے اوائل میں گوانگ ژو میں قونصل خانے کا واقعہ بھی شامل تھا۔

چین میں متاثر ہونے والوں میں سے کچھ نے سان ڈیاگو کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر بیٹریس گولومب سے رابطہ کیا، جنہوں نے مائیکرو ویوز کے صحت کے اثرات کے ساتھ ساتھ دیگر نامعلوم بیماریوں پر طویل تحقیق کی ہے۔ اس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے جنوری سنہ 2018 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی میڈیکل ٹیم کو تفصیلات ارسال کیں اور لکھا کہ وہ مائیکرو ویوز کو ان بیماریوں کا ذمہ دار کیوں سمجھتی ہیں۔ لیکن ان کی تفصیلات پر ایک عدم دلچسپی والا جواب ملا ‘یہ پڑھنے کے لیے ایک دلچسپ مقالہ ہے۔’

پروفیسر گولمب کا کہنا ہے کہ گوانگ ژو میں اہلکاروں کے خاندان کے افراد نے تجارتی طور پر دستیاب آلات استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کی تابکاری ریکارڈ کی تھی۔ (ان آلات کی) ‘سوئی دستیاب ریڈنگ سے زیادہ ہوگئی۔’ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ملازمین کو بتایا کہ وہ ریڈنگ جو انھوں نے خود ہی کی تھی اُسے ایک سرکاری راز سمجھا جائے۔

مسائل کی ایک بڑی تعداد ابھی ابتدائی تحقیقات کے مراحل میں ہے۔ جن میں ایک تو مسلسل اعداد و شمار جمع کرنے میں ناکامی تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام رہے اور ان کی اندرونی میڈیکل ٹیموں کے شکوک و شبہات نے ان کے درمیان کشیدگی پیدا کردی۔

Illustration of five secret agents in a room

 چین میں پیش آنے والے ایسے نو واقعات میں سے صرف ایک کا ابتدائی طور پر محکمہ خارجہ نے تعین کیا تھا کہ اس کی علامتیں ہوانا کیسز پر مبنی سنڈروم کے معیار سے مماثلت رکھتی تھیں۔ محکمہ خارجہ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جیسے ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ کوئی بات پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھوں نے ایسی علامات محسوس کرنے والے افراد کے باقی کیسوں کو نظر انداز کرکے چھوڑ دیا۔ ان متاثرہ اہلکاروں نے یکساں سلوک کے لیے اپنی قانونی جنگ شروع کی جو آج بھی جاری ہے۔

جیسے جیسے مایوسی بڑھتی گئی متاثرہ افراد میں سے کچھ نے مارک زید کی طرف رجوع کیا، جو قومی سلامتی کے معاملات کے ماہر ہیں۔ اب وہ تقریبا دو درجن سرکاری اہلکاروں کے لیے کام کرتا ہے، جن میں نصف کا تعلق انٹیلی جنس کمیونٹی سے ہے۔

مسٹر زید کہتے ہیں کہ ‘یہ ہوانا سنڈروم نہیں ہے۔ یہ غلط نام ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ امریکی حکومت کے علم میں ہے۔ سنہ 1960 کی دہائی سے جو شواہد میں دیکھتا چلا آرہا ہوں میں نے یہ رائے ان کو دیکھنے کے بعد بنائی ہے۔’

سنہ 2013 سے مسٹر زید امریکی قومی سلامتی ایجنسی کے ایک ملازم کی نمائندگی کر رہے ہیں جس کا خیال ہے کہ سنہ 1996 میں اسے نقصان پہنچا تھا۔

مسٹر زید سوال کرتے ہیں کہ امریکی حکومت ایسے واقعات کی ایک طویل تاریخ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے واقعات کا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے جنہیں برسوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے بھی مائیکروویوز تیار کیں اور وہ خود بھی اسے خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔

مائیکرو ویو کو ہتھیار بنانے میں ملکی دلچسپی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آگے بڑھ گئی۔ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1990 کی دہائی سے امریکی ایئر فورس کے پاس ‘ہیلو’ نامی ایک پروجیکٹ تھا جس کا مقصد تھا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ مائیکرو ویو لوگوں کے سروں میں پریشان کن آوازیں پیدا کر سکتا ہے۔ ایک کو ‘گُڈبائی’ کہا جاتا ہے جسے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا، اور دوسرے کا خفیہ نام ‘گڈ نائٹ’ تھا جس سے یہ دریافت کرنا تھا کہ آیا اسے لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایک دہائی قبل کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوئی تھیں۔

لیکن ذہن کا مطالعہ کرنے والا علم اور یہ کہ انسانی دماغ کے ساتھ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے، اس پر ان لوگوں کی توجہ بڑھ گئی جو اس علم کو سیکیورٹی اور عسکری مقاصد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

پینٹاگون کے مشیر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں نیورولوجی اور بائیو کیمسٹری کے پروفیسر جیمز جیورڈانو کا کہنا ہے کہ ‘دماغ کو اکیسویں صدی کے جنگی اہداف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جن میں ایک مائیکرو ویو سے متعلقہ بات کا مطالعہ بھی تھا۔ ‘دماغی علوم کی سائینس اب عالمی سطح پر موجود ہے۔ یہ ایسا شعبہ نہیں ہے جس پر مغررب کی اجارہ داری ہو۔’ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دماغی افعال کو بڑھانے اور نقصان پہنچانے والے دونوں طریقوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک فیلڈ ہے جس میں شفافیت کے اصول و ضوابط کی کافی کمی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چین اور روس مائیکروویو ریسرچ میں مصروف ہیں اور یہ اس امکان کو بڑھاتے ہیں کہ صنعتی اور تجارتی استعمال کے لیے تیار کردہ ٹولز – مثال کے طور پر اشیاء پر مائیکرو ویوز کے اثرات کو جانچنے کے تجربات – ان کی وجہ سے شاید اس سائینس یا ٹیکنالوجی کا کوئی نیا مقصد بن جائے۔ لیکن وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ کیا ان کوششوں کا مقصد خلل ڈالنا اور خوف پھیلانا بھی تھا۔

اس قسم کی ٹیکنالوجی تھوڑی دیر کے لیے ہو سکتی ہے — اور یہاں تک کہ اسے مخصوص حالات میں استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن پھر بھی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کیوبا میں کچھ تبدیل ہوا جس کا مقصد توجہ حاصل کرنا تھا۔

بل ایونینا ایک سینئر انٹیلی جنس عہدیدار تھا، جب ہوانا کے کیسز سامنے آئے وہ اس سال قومی اینٹی انٹیلی جنس اور سیکورٹی سینٹر کے سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ اسے ہوانا میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بہت کم شک ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘کیا یہ ایک جارحانہ ہتھیار تھا؟ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی تھا۔’

ان کا خیال ہے کہ حالیہ فوجی تنازعات میں مائیکروویوز ہتھیار کے طور پر تعینات کیے گئے ہوں گے، لیکن ان کی تعیناتی میں تبدیلی مخصوص حالات کی وضاحت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

فلوریڈا کے ساحل سے 90 میل دور کیوبا طویل عرصے سے مواصلات کو روک کر ‘سگنل انٹیلی جنس’ جمع کرنے کے لیے ایک مثالی جگہ رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران یہ سوویت یونین کا جاسوسی کے مقصد کے لیے سگنلز سننے والے ایک اسٹیشن کا مرکز تھا۔ جب ولادیمیر پیوٹن نے سنہ 2014 میں کیوبا کا دورہ کیا تھا، اطلاعات کے مطابق، اس مرکز کو دوبارہ کھولا جا رہا تھا۔ ایک ذرائع کے مطابق چین نے حالیہ برسوں میں دو خطے تیار کیے ہیں جبکہ روسیوں نے 30 اضافی انٹیلی جنس افسران بھیجے ہیں۔

لیکن سنہ 2015 سے امریکہ نے بھی دوبارہ سے ایسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ اپنے نئے کھولے گئے سفارت خانے اور دنیا بھر میں اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی کے ساتھ، امریکہ ابھی اپنے قدم جمانا، انٹیلی جنس اکٹھا کرنا اور روسی اور چینی جاسوسوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا اور انھیں پسپا کرنے کا کام شروع کر رہا تھا۔ ایک سابق اہلکار کہتا ہے کہ ‘ہم زمینی لڑائی میں تھے۔’

پھر سے آوازیں آنے لگیں۔

مسٹر ایوینا سوال کرتے ہیں کہ ‘ہوانا میں سفارت خانے کے بند ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا؟ اگر روسی حکومت کیوبا میں ان کے انٹیلی جنس کی معلومات اور اثاثوں کو بڑھا رہی تھی اور اس کا اعلان کر رہی تھی، تو شاید ان کے لیے کیوبا میں امریکہ کا موجود ہونا اچھا نہیں تھا۔’

روس نے بار بار ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے یا ‘مائیکروویو ہتھیاروں کو استعمال کر رہا ہے۔’ اس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ‘اس طرح کی اشتعال انگیز، بے بنیاد قیاس آرائیوں اور خیالی مفروضوں کو تبصرے کے لیے سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔’

اور ہوانا سنڈروم کے وجود کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ کیوبا کی منفرد صورتحال ان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔

‘متعدی’ تناؤ

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس انجیلیز میں نیورولوجی کے پروفیسر رابرٹ ڈبلیو بلو نے طویل عرصے سے صحت کی غیر واضح علامات کا مطالعہ کیا ہے۔ جب اس نے ہوانا سنڈروم کی رپورٹ دیکھی تو اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک بڑے پیمانے پر نفسیاتی حالت ہے۔ وہ اس کا موازنہ اس طرح کرتا ہے جب لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے سڑا ہوا کھانا کھایا ہے تو بیمار محسوس کرتے ہیں، اگرچہ اس کھانے میں کوئی بھی خرابی نہیں تھی – یہ ‘پلیسبو اثر’ کے برعکس کیفیت ہے (‘پلیسبو اثر’ اُس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں حقیقت میں کوئی بات نہیں ہوتی ہے لیکن ذہن میں علامت کے مشاہدے سے بیماری محسوس ہونے لگتی ہے)۔ پروفیسر بلو کہتے ہیں کہ ‘جب آپ بڑے پیمانے پر نفسیاتی بیماری دیکھتے ہیں تو عام طور پر کچھ نہ کچھ دباؤ والی صورتحال پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ کیوبا کے معاملے میں اور سفارت خانے کے ملازمین کے بڑے پیمانے پر – خاص طور پر سی آئی اے کے ایجنٹ جو پہلے متاثر ہوئے تھے – وہ یقینی طور پر ایک دباؤ والی صورتحال میں تھے۔’

ان کے خیال میں روز مرّہ کی علامات جیسے دماغ کی دھند اور چکر آنا دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں – مریض، میڈیا اور صحت کے پیشہ ور افراد جو اس بیماری سے متاثر ہوئے ہتے ہیں – ان میں سنڈروم کی علامات ایک نئی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ ‘یہ علامات کسی بھی دوسری علامات کی طرح حقیقی ہیں۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ جوں جوں ان واقعات کی رپورٹیں پھیلنا شروع ہوئی لوگ انتہائی آگاہی کی وجہ سے خوف زدہ ہو گئے، خاص طور پر جب وہ ایک محدود کمیونٹی کا حصہ تھے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کیفیت یا دباؤ بیرون ملک خدمات انجام دینے والے دیگر امریکی عہدیداروں میں متعدی مرض کی طرح پھیل گیا۔

United States Embassy in Havana, May 2021

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہوانا میں مئی سنہ 2021 میں امریکی سفارت خانے کی عمارت۔

اس معمے کے بارے میں ابھی تک بہت سے پہلوؤں کے بارے میں ابھی کوئی علم نہیں ہے۔ کینیڈا کے سفارت کاروں نے ہوانا میں علامات کی اطلاع کیوں دی؟ کیا وہ امریکیوں کو نشانہ بنانے والے حملوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچتا ہوا محسوس کر رہے تھے؟ اور برطانیہ کے کسی عہدیدار نے ایسی علامات کی اطلاع کیوں نہیں دی؟

مارک زید سوال کرتے ہیں کہ ‘روسیوں نے حالیہ برسوں میں برطانوی سرزمین پر لوگوں کو ریڈیو ایکٹیو مواد سے مارنے کی کوشش کی ہے پھر بھی (مائیکروویو کا) کوئی رپورٹ شدہ کیس کیوں موجود نہیں ہے؟ اُن کے اس سوال کا بل ایوینینا نے جواب دیا کہ ‘میں شاید یہ کہنے سے گریز کروں کہ برطانیہ میں کسی کو بھی علامات کا سامنا کیوں نہیں ہوا۔’

بل ایوینینا کا کہنا ہے کہ امریکہ اب معاملات کو زیادہ گہرے طریقے سے سمجھنے کے لیے ان واقعات کے بارے اپنی تفصیلات اپنے اتحادیوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔

تاہم کچھ مثالیں غیر متعلقہ ہوسکتی ہیں۔ ایک سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے پاس مشرق وسطیٰ کے فوجیوں کا ایک گروپ تھا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسی قسم کے کسی حملے کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ انھیں خوراک میں زہر خورانی کی وجہ سے تکلیف ہوئی تھی، یعنی یہ فوڈ پوئزننگ کا ایک واقعہ تھا۔

مارک زید کہتے ہیں کہ ان سے ایسے افراد نے بھی علاج کے لیے رابطہ کیا جو پہلے سے ہی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ وہ مائیکرو ویوز کا نشانہ بنے تھے۔ ‘ہمیں حقائق کو فرضی کہانیوں سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔’

ایک سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے رپورٹ کردہ آدھے کیسز ممکنہ طور پر کسی مخالف کے حملوں کا نتیجہ ہوں۔ جبکہ دوسرے کیسز کے بارے اس کا کہنا ہے کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔

یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی دسمبر سنہ 2020 کی رپورٹ ایک اہم موڑ تھی۔ ماہرین نے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں سمیت آٹھ متاثرین سے ثبوت جمع کیے۔ تحقیق کرنے والے اس پینل کی صدارت کرنے والے سٹینفورڈ کے پروفیسر ڈیوڈ ریلمین یاد کرتے ہیں کہ ‘یہ کافی ڈرامائی تھا۔

ان میں سے کچھ لوگ اپنے خلاف کسی قسم کی مزید کارروائیوں کے خوف سے چھپے ہوئے تھے۔ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے درحقیقت ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں۔’ تحقیق کرنے والے پینل نے نفسیاتی اور دیگر وجوہات پر غور کیا، تاہم اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ براہ راست، ہائی انرجی والی مائکروویو کی شعائیں ممکنہ طور پر کچھ واقعات کی ذمہ دار تھیں۔ جس کے لیے انھوں نے جیمز لن کے نظریے کی تائید کی جس نے اپنے نظریے کے حق میں ثبوت فراہم کیے تھے۔

Short presentational grey line

اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس مطالعے کو سپانسر کیا، لیکن پھر بھی وہ اس نتیجے کو صرف ایک قابل فہم مفروضہ سمجھتا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اس کی تائید کے لیے مزید شواہد نہیں ملے ہیں۔

امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدیداروں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایسے واقعات سے کیسے نمٹیں (مثال کے طور پر ‘ایک مخصوص کیفیت سے کیسے باہر نکلنا’ – جس کا مطلب ہے کہ جسمانی طور پر کسی جگہ سے ہٹ جانا اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی حملے سے متاثر ہورہے ہیں)۔ محکمہ خارجہ نے عملے کی مدد کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جسے اب ‘صحت کی ناقابلِ وضاحت کیفیات’ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کیسز کی درجہ بندی کرنے کی سابقہ کوششیں کہ آیا وہ مخصوص معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں، انھیں اب ترک کردیا گیا ہے۔ لیکن اس کیفیت کی کسی سائینسی تعریف کی غیر موجودگی میں، ان واقعات کی نشاندہی کرنا اور پھر ان کا شمار کرنا کافی مشکل کام بن جاتا ہے۔

اس سال بشمول برلن اور ویانا میں متاثر ہونے والے ایک بڑے گروپ کے، ایسے کیسز کی ایک نئی لہر آئی۔ اگست میں امریکی نائب صدر کملا ہیرس کا ویت نام کا دورہ تین گھنٹے تاخیر کا شکار ہوا کیونکہ ہنوئی میں سفارت خانے میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔ پریشان سفارتکاران اب اپنے اہل خانہ کے ساتھ غیر ملکی اسائنمنٹ لینے سے پہلے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

سی آئی اے کے سابق اہلکار پولیمروپلس جنھیں بالآخر اس کیفیت سے گزرنے کے بعد اب علاج کی وہ سہولت مل گئی ہے جس کا وہ پہلے سے مطالبہ کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ روسی ہمارے انٹیلی جنس ہمارے افسران کے ساتھ ان کے سفر کے دوران کچھ کارروائی کر رہے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک بڑی پریشانی ہے۔ یہ ہمارے کام کرنے کے طریقوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ بننے والا ہے اور کچھ تبدیلیاں بھی لانے والا ہے۔’

سی آئی اے نے اس مسئلے کی وجہ دریافت کرنے کی ذمہ داری لے لی ہے، اس کام کی ذمہ دار ٹیم میں ایک ایسا اہلکار بھی شامل ہے جو اسامہ بن لادن کی تلاش کرنے والی ٹیم کا انچارج تھا۔

خون کے مارکر

یہ الزام کہ ایک دوسری ریاست امریکی حکام کو نقصان پہنچا رہی ہے، اس کے اپنے مخصوص اثرات بنتے ہیں۔ مسٹر پولیمروپلس کہتے ہیں کہ ‘اس عمل کا مطلب ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔’ اس کا مطلب ہے کہ اب بہت ہی اعلیٰ سطح کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی ساز ادارے ٹھوس شواہد کا مطالبہ کریں گے، جن کے بارے میں اب تک حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کمی ہے۔

پانچ سال گزرنے کے بعد، کچھ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب ہوانا سنڈروم شروع ہوا تو اس کے بارے میں ان کے پاس زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ لیکن دوسرے افراد ان سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مائیکروویو کے ثبوت اب زیادہ مضبوط ہیں، اگرچہ ابھی بھی حتمی نہیں ہیں۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ نئے ثبوت سامنے آرہے ہیں کیونکہ اب پہلی بار ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جن کا زیادہ منظم طریقے سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس سال کے کچھ معاملات میں خون میں مخصوص مارکر دکھائے گئے، جو دماغی چوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ مارکر چند دنوں کے بعد گر جاتے ہیں اور پہلے ہی انہیں ڈھونڈنے میں بہت زیادہ وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ لیکن اب جب کہ علامات کی اطلاع دینے کے بعد لوگوں کا بہت جلد ٹیسٹ کیا جا رہا ہے، ان کا پہلی بار تحقیق کے لیے مشاہدہ کیا گیا ہے۔

فی الحال بحث منقسم ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس مسئلے کا جواب پیچیدہ ہو۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان اعداد و شمار میں حقیقی واقعات ان کا ایک بنیادی حصہ ہو، لیکن دیگر واقعات کو بھی اس سنڈروم کے اعداد و شمار کا حصہ بنا دیا گیا ہو۔ سرکاری اہلکار اس امکان کو بڑھاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور ارادے وقت کے ساتھ بدل گئے ہوں گے، شاید امریکہ کو آزمانے اور پریشان کرنے کے لیے بدل رہے ہوں۔ کچھ اس حد تک کہ پریشان ہیں کہ ایک ریاست دوسرے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ہر وقت سر پر سوار رہ سکتی ہے۔

پروفیسر ریلمین کا کہنا ہے کہ ‘ہم کسی بھی مسئلے یا بیماری کی تشخیص کا ایک سادہ سے لیبل تجویز کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسا لیبل دینا مشکل ہوتا ہے۔ اور جب ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں اس لیے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کہ مبادہ ہم صرف ہمت نہ ہار بیٹھیں اور پسپائی اختیار نہ کرلیں۔

ہوانا سنڈروم کا اسرار ہی اس کی اصل طاقت ہو سکتا ہے۔ جو ابہام اور خوف پھیلتا ہے وہ ایک ضرب کا کام کرتا ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کیا وہ مصیبت میں مبتلا ہیں اور یہ کیفیت جاسوسوں اور سفارت کاروں کے لیے بیرون ملک کام کرنا مشکل بنا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض ‘ہوانا سنڈروم’ ایک مخصوص حالت کے لیے ایک محدود کارروائی تھی، لیکن ہو سکتا ہے کہ اب یہ ایک اپنے اثرات کی وجہ سے ایک نیا مقصد حاصل کرچکا ہو۔

تصاویر: گیری فلیچر

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.