خالد شیخ محمد: جب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘
- گورڈن کوریرا اور سٹیو سوین
- بی بی سی نیوز
مطلوب ترین افراد کا پوسٹر
20 سال قبل امریکہ میں اغوا شدہ طیاروں کو امریکہ کے تاریخی مقامات سے ٹکرانے کی شازش تیار کرنے والا ماسٹر مائنڈ جیل میں بند ہے اور اپنے مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ لیکن کیا اسے ایسا کرنے سے برسوں پہلے روکا جا سکتا تھا؟
‘وہ میرا آدمی تھا۔’
جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز سے ٹکرانے والے طیاروں کی ٹیلی ویژن پر تصاویر دکھائی جا رہی تھیں تو فرینک پیلگرینو ملائیشیا کے ایک ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ پہلی چیز جو ان کے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ‘میرے خدا یہ تو خالد شیخ محمد ہے، وہ تو میرا آدمی تھا۔’
خالد شیخ محمد کے ہدف اور عزائم بھی یہی تھی اور فرینک پیلیگرینو اپنے کام کی وجہ سے ان کے عزائم کو جانتے تھے۔
ایف بی آئی کے سابق سپیشل ایجنٹ پیلیگرینو نے تقریبا تین دہائیوں تک شیخ محمد کا تعاقب کیا تھا اس کے باوجود ابھی تک 9/11 کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کا انصاف سے سامنا نہیں ہوا ہے۔
شیخ محمد کے ایک وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ کیس ختم ہونے میں مزید 20 سال لگ سکتے ہیں۔
صدر بش میگافون کے ساتھ آگ بجھانے والے عملے کے ہمراہ
اسامہ بن لادن، جو اس وقت القاعدہ کے سربراہ تھے، نائن الیون کے حملوں سے قریب سے وابستہ تھے۔ لیکن نائن الیون کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے مطابق حقیقت یہ تھی کہ خالد شیخ محمد (جو بعد میں ’کے ایس ایم‘ کے طور پر جانے گئے) اس حملے کے اصل معمار تھے۔ یہ وہ شخص تھے جنھیں یہ خیال آیا اور وہ اسے لے کر القاعدہ کے پاس پہنچے۔
وہ کویت میں پیدا ہوئے اور سنہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں لڑنے سے پہلے انھوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ 9/11 کے حملے سے کئی سال پہلے سے ایف بی آئی ایجنٹ فرینک پیلیگرینو اس جہادی کے تعاقب میں تھے۔
پیلیگرینو کو ایف بی آئی نے سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا۔ یہیں سب سے پہلے خالد شیخ محمد کا نام امریکی حکام کی توجہ کا مرکز بنا کیونکہ اس نے ملوث افراد میں سے ایک کو رقم کی منتقلی کی تھی۔ ایف بی آئی ایجنٹ نے سنہ 1995 میں خالد شیخ محمد کے عزائم کا اندازہ اس وقت لگایا جب اس کا نام بحر الکاہل کے اوپر کئی بین الاقوامی طیاروں کو اڑانے کی سازش میں سامنے آیا۔ سنہ 1990 کی دہائی کے وسط میں پیلیگرینو ‘اپنے آدمی’ کو پکڑنے کے قریب پہنچ گیا تھا جب انھیں پتا چلا کہ وہ قطر میں ہے۔
ان کے ساتھ ایک ٹیم عمان پہنچی جہاں سے انھیں قطر میں داخل ہونا تھا اور اس طرح انھوں نے شیخ محمد کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک طیارہ ملزم کو واپس لانے کے لیے تیار تھا، لیکن زمین پر امریکی سفارت کاروں کی طرف سے مزاحمت جاری تھی۔ پیلیگرینو قطر گئے اور سفارتخانے میں سفیر اور دیگر حکام کو بتایا کہ ان کے پاس شیخ محمد کے خلاف طیاروں کی سازش کے الزامات ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اس ملک میں کسی قسم کی پریشانی پیدا کرنے سے پرہیز کرتے نظر آئے۔
پیلیگرینو نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا: ‘انھوں نے سوچا کہ شاید یہ کشتی کو ڈانواڈول کر سکتا ہے۔’
فرینک پیلیگرینو سنہ 1987 اور 2020 میں
آخر کار سفیر نے پیلیگرینو کو مطلع کیا کہ قطری حکام نے شیخ محمد کا سراغ کھو دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘اس بات پر وہان غصہ تھا اور غصہ کے ساتھ مایوسی بھی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ ہم نے ایک بڑا موقع ضائع کر دیا ہے۔’
لیکن وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 90 کی دہائی کے وسط میں شیخ محمد کو اعلی ترجیحی ہدف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ پیلیگرینو شیخ محمد کو امریکہ کے ٹاپ ٹین موسٹ وانٹڈ میں بھی شامل نہیں کروا سکے۔ ‘مجھے بتایا گیا کہ وہاں پہلے ہی بہت زیادہ دہشت گرد موجود ہیں۔’
لگتا ہے کہ شیخ محمد کو اس بات کی خبر مل گئی کہ امریکی ان میں دلچسپی لے رہے ہیں اس لیے وہ وہاں سے فرار ہوکر افغانستان پہنچ گئے۔
اگلے چند سالوں میں کے ایس ایم کا نام سامنے آتا رہا۔ ان کا نام اکثر دنیا بھر میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی فون ڈائریوں میں ہوتا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ان سے کتنی اچھی طرح سے جڑے ہوئے تھے۔ انھی برسوں کے دوران وہ بن لادن کے پاس گئے اور پائلٹوں کو امریکہ کے اندر عمارتوں کو طیارے سے اڑانے کی تربیت دینے کا منصوبہ پیش کیا۔
اور پھر 9/11 کا واقعہ رونما ہوا۔ کے ایس ایم کے کردار کے بارے میں پیلیگرینو کے شبہات اس وقت درست ثابت ہوئے جب حراست میں موجود القاعدہ کی ایک اہم شخصیت نے ان کی شناخت کی۔ پیلیگرینو یاد کرتے ہیں: ‘ہر ایک کو احساس ہو گیا کہ یہ فرینک کا آدمی تھا جس نے یہ کیا ہے۔ اور جب ہمیں پتہ چلا کہ وہ وہی ہے تو مجھ سے زیادہ افسردہ خاطر اور کوئی نہیں تھا۔’
سنہ 1993 میں ورلڈ ٹرید سینٹر کو ہونے والا نقصان
سنہ 2003 میں خالد شیخ محمد کا سراغ پاکستان میں پایا گا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ پیلیگرینو نے کا خیال تھا کہ وہ اس فرد جرم کے تحت مقدمے کی سماعت کریں گے جس پر انھوں نے کام کیا تھا۔ لیکن پھر وہ غائب ہو گئے۔ سی آئی اے انھیں ایک ‘بلیک سائٹ’ پر لے گئی جہاں ان پر ‘تفتیش کے سخت طریقہ کار’ استعمال کیے گئے۔
سی آئی اے کے ایک سینیئر عہدیدار نے اس وقت کہا تھا کہ ‘میں جلد از جلد یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیا جانتا ہے۔’
شیخ محمد کو کم از کم 183 بار پانی میں غوطہ دیا گیا جسے ‘تقریبا ڈوبنے’ کے مترادف کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ انھیں ریکٹل ری ہائیڈریشن، تناؤ کی پوزیشن، نیند کی کمی، جبری برہنگی وغیرہ کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے کہا گیا کے ان کے بچے مار دیے جائیں گے۔
وہ اس دوران متعدد سازشوں کا اعتراف کرتے رہے۔ لیکن سینیٹ کی ایک رپورٹ نے بعد میں پایا کہ مبینہ طور پر جتنے انکشاف انھوں نے کیے ان میں سے زیادہ تر ان کی ذہنی پیداوار تھا۔
خالد شیخ محمد کی معلومات پر پاکستان کی سرحد پر اسامہ بن لادن کی تلاش تیز کر دی گئی
سی آئی اے کے حراستی پروگرام کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد شیخ محمد جیسے ‘بڑی اہمیت کے حامل قیدیوں’ کو سنہ 2006 میں گوانتانامو بے جیل منتقل کر دیا گیا۔ بالآخر ایف بی آئی کو ان تک رسائی کی اجازت دی گئی۔
جنوری سنہ 2007 میں فرینک پیلیگرینو اس شخص کے ساتھ آمنے سامنے آئے جس کا انھوں نے اتنے عرصے تک تعاقب کیا تھا۔
دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے میز پر تھے۔
انھوں نے کہا: ‘میں اسے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ میں ہی سنہ 90 کی دہائی میں اس پر فرد جرم عائد کرانے میں شامل تھا تاکہ وہ اپنا منھ کھولے اور 9/11 کے بارے میں بتائے۔’
ایف بی آئی کے سابق اہلکار کو انھوں نے جو کچھ کہا اس کی تفصیلات تو وہ ظاہر نہیں کریں گے لیکن انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ ‘آپ مانیں یا نہ مانیں وہ بہت پر لطف اور پر مزاح شخص ہے۔’
کے ایس ایم کو اکثر گوانتانامو میں سماعتوں کے دوران ‘بلند انداز میں کھڑا’ دیکھا گیا ہے جبکہ پیلیگرینو نے دنیا کے سب سے بدنام دہشت گرد ملزم کو ‘کارڈیشیئن’ قرار دیا ہے جو کہ توجہ کا طالب ہے لیکن اسے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
کیا وہ اپنے جرائم کا اعتراف کرے گا یا پھر سماعت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہے گا؟ ‘میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس نے جو کیا وہ اس سے مطمئن ہے لیکن چاہتا ہے تماشا جاری رہے۔’
پیلیگرینو کہتے ہیں کہ چھ دن کی بات چیت کے بعد شیخ محمد نے آخر کار کہا کہ اب بہت ہو چکا۔ اور ‘بس اتنا ہی کہنے کے لیے ہے۔’
اس کے بعد 9/11 کے واقعات کے لیے انصاف کی فراہمی کی کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ عوامی اور سیاسی مخالفت کے بعد نیویارک میں مقدمے کی سماعت کے انعقاد کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ پیلیگرینو خود ہی نیویارک کے رہنے والے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر کوئی چیخ رہا تھا ‘میں اس آدمی کو اپنے گھر کے پچھواڑے میں نہیں چاہتا۔ اسے گوانتاناموبے میں ہی رکھو۔’
گوانتانامو کے پاس پہرا دیتا ایک جوان
اس کے بعد گوانتانامو میں ایک فوجی ٹربیونل قائم ہوا۔ لیکن طریقہ کار میں تاخیر، کووڈ وبا کی وجہ سے اڈے کو بند کرنے کے سب یہ عمل طویل تر ہوتا گیا۔ رواں ہفتے مزید سماعتیں ہو رہی ہیں لیکن اختتام بہت دور نظر آتا ہے۔
شیخ محمد کے وکیل کا خیال ہے کہ تازہ ترین سماعتیں میڈیا کو دکھانے کے لیے ہیں کہ نائن الیون کی 20 ویں برسی پر کچھ ہو رہا ہے۔ ڈیوڈ نیوین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خيال سے ‘اس عمل کے مکمل حل کے لیے تقریبا 20 سال لگيں گے۔’
ملزم کا دفاع کرنے والے وکیل سنہ 2008 سے اس کی پیروی کر رہے جب سے یہ مقدمہ شروع ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل منصوبہ تقریبا فوری طور پر مقدمہ شروع کرنا تھا۔ لیکن وہ ابھی تک شروع کرنے کے قریب بھی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ نئے جج اس معاملے میں ‘آٹھویں یا نویں جج ہیں’ جو مقرر ہوئے ہیں اور یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس طرح گنتے ہیں۔
جج کو اپنے آپ کو پچھلی سماعتوں کے تقریبا 35،000 صفحات اور ہزاروں درخواستوں سے آشنا کرنا ہوگا۔ جبکہ نیوین نے اسے ‘امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مجرمانہ مقدمہ’ قرار دیا ہے۔
اور یہ سب سے زیادہ متنازع ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پانچوں ملزمان کو سی آئی اے نے خفیہ حراست میں رکھا تھا اور انھیں ‘تفتیش کی سخت تکنیک’ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
گوانتانامو کا کیمپ جسٹس
اس کی وجہ سے نام نہاد بلیک سائٹ (انجان مقام) پر جو کچھ ہوا اس سے چیزوں کے خلط ملط ہونے کے شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
نیوین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ‘ان لوگوں کو اذیت دینے کے لیے ایک واضح اور طے شدہ پروگرام پر عمل کیا۔’ یہ طریقے برسوں سے جاری کسی بھی سزا کے خلاف ممکنہ اپیلوں کے لیے کافی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
نیوین دنیا کے بدنام ترین مدعا علیہان کی نمائندگی کرنے کے اپنے تجربے کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں ان کے موکل کو ایک امریکی وکیل کی طرف سے نمائندگی کرنے پر ‘گہری تشویش’ تھی لہذا ایک دوسرے کو جاننے کا ایک طویل عمل تھا۔
جب شیخ محمد کو بحری اڈے کے ایک انتہائی خفیہ حصے میں رکھا گیا تو وکلاء کو ایک وین میں بند کر دیا گیا جن کی کھڑکیا تاریک تھیں اور 45 منٹ تک ان کو بھٹکانے کے لیے گھمایا گیا۔ لیکن اب ان کے مؤکل کو کم خفیہ کیمپ-5 میں رکھا گیا ہے۔
قانونی ٹیم نائن الیون کے متاثرین کے خاندانوں کی حساسیت سے ہم آہنگ ہیں جنھیں ٹربیونل کی سماعتوں میں شرکت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ملاقاتوں میں خاندان کے کچھ افراد نیوین جیسے وکیلوں کو مدعا علیہان کی نمائندگی کے بارے میں چیلنج کرتے ہیں لیکن بعض دوسرے اس بارے میں سوال کریں گے کہ یہاں نظام کیسے کام کرتا ہے۔
حملے کا شکار ہونے والے کے اہل خانہ نے سماعت سے قبل پریس سے خطاب کیا
نیوین کہتے ہیں کہ ‘ہم لوگ بہت کوشش کرتے ہیں کہ ایسی کوئی چیز نہ ہو جس سے ان کی تکلیف میں اضافہ ہو جو انھوں نے اتنے دنوں تک سہا ہے۔’
ان کے خیال میں تاخیر کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ سزائے موت کا معاملہ ہے اور اس سے بہت کچھ داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ ‘یہ بہت پہلے ختم ہو چکا ہوتا اگر حکومت ان افراد کو پھانسی دینے کی کوشش نہ کرتی۔’
پیلیگرینو نے ایف بی آئی سے اپنی ریٹائرمنٹ میں تین سال کی تاخیر اس امید پر کی کہ گوانتانامو میں شیخ محمد کا ملٹری ٹریبونل مکمل ہو جائے گا جس کی وہ گواہی دینے کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ دیکھ کر اچھا لگتا کہ بیج ہوتے ہوئے یہ معاملہ انجام پزیر ہوا۔’
لیکن تجربہ کار خصوصی ایجنٹ کی ریٹائرمنٹ کی عمر آ گئی اور انھوں نے بیورو کو خیرباد کہہ دیا۔
شیخ محمد کے پیچھے دنیا بھر میں جانے والے ایجنٹ کے ذہن میں ایک احساس ناکامی ہے اور ان کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ اگر سنہ 1990 کی دہائی میں انھیں پکڑ لیا گیا ہوتا تو کیا نائن الیون کو روکا جا سکتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کا نام ہر روز میرے ذہن میں آتا ہے اور یہ کوئی خوشگوار خیال نہیں ہے۔
‘وقت چیزوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتا ہے۔ لیکن یہ جوں کا توں ہے۔’
Comments are closed.