غزہ کا شہر خان یونس: جہاں بھوک و افلاس کے باعث ایک نئے انسانی بحران کا خطرہ موجود ہے

خان یونس میں پانی کے لیے قطار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

خان یونس میں پانی کے لیے قطار

  • مصنف, رشدی ابو علوف
  • عہدہ, نمائندہ بی بی سی نیوز، خان یونس، غزہ

خان یونس میں بھو ک و افلاس کے شکار انسانوں کی ایک بڑی تعداد پہنچ رہی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ سے نکل جانے کی دھمکی کے بعد فلسطین ریاست کے شمالی علاقے سے لوگ جو کچھ اپنے ساتھ لے کر نکل سکتے تھے نکل پڑے اور اب وہ یہاں پہنچ رہے ہیں۔ جن کی گاڑیوں میں پٹرول تھا وہ گاڑیوں سے آئے، جن کو گھوڑا گاڑی میسر آئی وہ اس سے بھاگے اور جن کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا وہ پیدل ہی نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

اور یہاں آکر جو کچھ انھوں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ خان یونس کا شہر تو خود ہی اپنے گھٹنوں کے بل تھا جس کی آبادی راتوں رات دگنی ہو گئی تھی اور وہ بڑی تعداد میں انسانوں کے ہجوم کو سنبھالنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔

ہر کمرہ، ہر گلی، ہر محلہ مردوں، عورتوں اور نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور ان کے جانے کو کوئی اور جگہ تو ہے بھی نہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ 11 لاکھ افراد میں سے چار لاکھ لوگ جو شمالی غزہ کو اپنا گھر کہتے ہیں وہ اسرائیل کی طرف سے نکل جانے کے حکم کے بعد گذشتہ 48 گھنٹوں میں صلاح الدین روڈ سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔

میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ ان نقل مکانی کرنے والوں میں سے ایک ہوں اور میرے پاس صرف دو دنوں کا ہی کھانا ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری اور ممکنہ زمینی حملے کا خطرہ زیادہ ہے۔ یہ حملے غزہ کےمسلح جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں تقریبا 1,300 افراد کی ہلاکت کے بعد ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملے کے خطرات نے حماس کی جانب سے لوگوں کو غزہ میں ہی رہنے کے حکم کو رد کر دیا ہے۔

لیکن زمین کی اس تنگ پٹی میں جہاں ہر طرف سے ناکہ بندی ہے اور جو باقی دنیا سے کٹی ہوئی ہے وہاں رہنے کے لیے تقریباً کچھ نہیں بچا ہے اور نہ ہی کوئی محفوظ جگہ یا ٹھکانہ ہے۔

نقل مکانی پر مجبور فلسطینی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نقل مکانی پر مجبور فلسطینی

غزہ کے لوگوں کا بڑا عوامی سیلاب خان یونس پہنچ رہا ہے، یہاں پہنچنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے گھر تو پہلے ہی بمباری میں تباہ ہو چکے ہیں اور وہ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، ان کا سب کچھ ختم ہو گیا ہے، سب کے سب خوفزدہ ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہوگا لیکن پھر بھی وہ یہاں جمع ہو رہے ہیں۔

یہ شہر جو کہ عام طور پر چار لاکھ لوگوں کا گھر رہا ہے راتوں رات دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ شمال کے ساتھ ساتھ وہاں مشرق سے بھی آئے ہوئے لوگ ہیں جنھوں نے 2014 کی جنگ میں خوفناک نقصان اٹھایا تھا۔

وہاں آنے والوں میں سے ہر ایک کو پناہ اور خوراک کی ضرورت ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک وہ اس طرح کے حالات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

چیزیں بکھر رہی ہیں

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

خان یونس کے قلیل وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو پہلے ہی اپنے کم وسائل کے باعث مشکلات سے دو چار ہے۔ اور لوگوں کی حالیہ نقل مکانی بہت زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ ہے کہ شہر کا نظام کمزور پڑنے لگا ہے اور چیزیں بکھرنے لگی ہیں۔

یہاں کا مرکزی ہسپتال پہلے سے ہی ضروری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں نہ صرف شمال سے آنے والے بیمار و زخمی افراد داخل ہیں بلکہ اب تو یہ ایک پناہ گاہ بن گیا ہے۔

پناہ گزین راہداریوں پر قطار میں کھڑے ہیں جبکہ ڈاکٹر اسرائیلی بمباری کا شکار نئے آنے والے زخمیوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایسے میں نئے لائے جانے والے زخمیوں کی مدد کے لیے پکار فضا میں گونج جاتی ہے۔

آپ یہاں آنے کے لیے لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ کیونکہ جنگ کے دور میں ہسپتال ہی سب سے محفوظ مقامات میں سے ایک ہوتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ انھیں بین الاقوامی قانون کے تحت قدرے تحفظ فراہم ہے۔

کچھ حد تک یہ لوگ شاید خوش قسمت ہیں، کم از کم ابھی کے لیے تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نئے آنے والے مریضوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہر چیز پر راشننگ ہے۔ ہسپتال سے مریضوں کو محض روزانہ 300 ملی لیٹر پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ باقیوں کے لیے وہ بھی میسر نہیں۔

دوسری جگہوں پر رہائشی نئے آنے والوں کو جگہ دے رہے ہیں، حالانکہ خان یونس میں بہت سے لوگ پہلے سے ہی تنگی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کھانا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ساول اے صحن میں کھانا بنانے پر مجبور لوگ

میں نے چھوٹے اپارٹمنٹس دیکھے ہیں، جن میں پہلے سے ہی گنجائش سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں اور اب تو وہ 50 یا 60 لوگوں کا ’گھر‘ بن گئے ہیں۔ کوئی بھی اس طرح زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا۔

میرا خاندان اب چار دیگر افراد کے ساتھ دو چھوٹے بیڈروم والے فلیٹ میں رہنے پر مجبور ہے لیکن باقیوں سے بہتر حالات میں رہنے پر میں اور میرا خاندان اپنے آپ کو خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہے۔

شہر بھر کے سکول جو جنگ کے دوران ’محفوظ‘ تصور کیے جاتے ہیں وہ سب بھی بہت سے خاندانوں کی آمد سے بھرے پڑے ہیں۔ شاید وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں۔ لیکن کسی کو بھی پورا علم نہیں؟ اگر آپ گننا شروع کریں تو آپ کی گنتی کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔

اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے زیر انتظام ایک سکول کا ہر کلاس روم بھرا ہوا ہے۔ تمام بالکونیوں میں تاروں پر کپڑے لٹکے ہوئے ہیں۔ مائیں اور دادیاں صحن میں اور پارک کی بنچوں پر کھانا پکاتی ہیں جبکہ ان کے بھوکے بچے بے صبری سے کھانا پکنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

لیکن جب مزید جگہ نہیں ہوگی اور یہاں مزید جگہ نہیں ہے تو پھر ایسے میں انسانیت لامحالہ سڑکوں پر پھیل جائے گی اور یہاں آنے والے گلیوں اور انڈر پاسز میں مٹی، دھول، اور ملبے کے درمیان سونے اور زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اسرائیلی حملے میں فلسطینیوں کے گھروں کی تباہی کا منظر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی حملے میں فلسطینیوں کے گھروں کی تباہی کا منظر

نہ تو یہاں خوراک ہے اور نہ ہی ایندھن ہے۔ دکانوں میں بھی پانی نہیں ہے۔ واٹر سٹیشن ہی بہترین امید ہیں۔ یہ ایک تباہ کن قیامت خیز صورتحال ہے۔

اور ایسا نہیں ہے کہ یہ شہر بھی محفوظ ہے۔ یہاں بھی باقاعدگی سے بمباری کی جا رہی ہے۔ یہ اب بھی جنگی علاقے میں سے ایک ہے۔ منہدم عمارتیں اور ملبے کے ڈھیر سڑکوں پر پڑے ہیں۔

میں نے ہسپتال کے قریب سے راکٹ داغنے کی آوازیں سنی ہین، کیونکہ حماس اسرائیل کے اندر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ انتقامی کارروائی کی کھلی دعوت ہے۔

اپنے اگلے ہدف کی تلاش میں اسرائیلی ڈرونز کا شور ہمہ وقت موجود ہے۔ اور پھر بم گرتے ہیں جس کے نتیجے میں عمارتیں گرتی ہیں اور پھر مردہ خانے اور ہسپتال بہت سے لوگوں سے بھر جاتے ہیں۔

آج صبح اس فلیٹ کے قریب ایک بم گرا جہاں ہم اپنے بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ چونکہ تمام ٹیلی فون سروسز بند ہیں یا خراب ہیں، مجھے اپنے بیٹے سے رابطہ کرنے میں 20 منٹ لگے۔

خان یونس کے ہسپتال میں ایک زخمی لڑکی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

خان یونس کے ہسپتال میں ایک زخمی لڑکی

لوگ اس طرح اس کسمپرسی کی حالت میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتے۔ جبکہ حملہ تو ابھی شروع ہونا باقی ہے۔

میں نے اپنے گھر غزہ میں چار جنگوں کی رپورٹنگ کی ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا۔

پچھلی جنگیں کتنی ہی بری تھیں، میں نے کبھی اس جگہ لوگوں کو بھوکے یا پیاس سے مرتے نہیں دیکھا۔ لیکن اب بھوک اور پیاس سے مرنا ممکنہ حقیقت ہے۔

غزہ سے نکلنے کا واحد آپشن مصر میں رفح کراسنگ (راہداری) ہے جو کہ بند ہے۔ اور قاہرہ جانتا ہے کہ اسے کھولنا ایک نئے انسانی بحران تباہی کا آغاز کر دے گا۔ رفح سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ کے دس لاکھ مہاجرین انتظار کر رہے ہیں۔ کراسنگ کھلتے ہی وہاں افراتفری مچ جائے گی۔

میں نے سنہ 2014 میں بھی ایسا ہی منظر دیکھا، جب ہزاروں لوگوں نے جنگ سے بچنے کی کوشش کی تھی۔ اس بار یہ اس سے کہیں زیادہ، بہت برا ہوگا۔ اور مصر کو یہی ڈر ہے۔

انسانوں کا سمندر سرحد کو بہا لے جائے گا جو کہ ایک بار پھر تباہی اور افراتفری کا باعث بنے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ