جدید ٹیکنالوجی اور طاقتور فوج بھی اسرائیل کو حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے محفوظ کیوں نہ رکھ سکی؟

hammas

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ثقلین امام
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملوں نے ملک کی سکیورٹی اور دفاعی نظام کی اہم کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی عوام میں ریاستی نظام پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔

سکیورٹی کے مختلف تجزیہ کاروں اور مختلف ذرائع کے مطابق حماس نے متعدد مقامات پر سرحدی دیوار میں شگاف کر کے اور سرحدی باڑ توڑ کر سینکڑوں مسلح عسکریت پسندوں کے ساتھ اسرائیلی حدود میں گھس کر اسرائیل پراچانک حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

حماس نے اسرائیلی گاڑیوں کو ناکارہ بنانے اور باڑ کو اسرائیلی بلڈوزروں کے ذریعے وسیع کرنے کے لیے ڈرون، ٹینک شکن میزائل اور بلڈوزر کا بھی استعمال کیا۔

حماس نے پہلی مرتبہ پیراگلائیڈنگ کے ذریعے اپنے گوریلا جنگجو اسرائیل کے اندر اتارے جنھوں نے اچانک حملے کر کے شدید نقصان پہنچایا۔

حماس نے اہم مقامات کو نشانہ بنایا جیسے ایریز کراسنگ، ایک نگرانی اور مواصلاتی مرکز اور کئی اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بھی بنا لیا۔

یہ حملے اپنے پیمانے اور عزائم میں بے مثال تھے اور اس نے اسرائیل کو چونکا دیا۔ اسرائیل کو غزہ سے اس طرح کے پیچیدہ اور مربوط آپریشن کی توقع نہیں تھی۔

اسرائیل اس دوران مغربی کنارے پر توجہ مرکوز کر رہا تھا جہاں فلسطینی مسلح گروپوں کے ساتھ زیادہ تشدد اور تصادم ہوا ہے۔

 اسرائیل غزہ تنازعہ

،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY

یروشلم کی سڑکوں پر سناٹا

یروشلم (القدس) میں مقیم صحافی ہریندر مشرا نے بتایا ہے کہ حملے کے چار روز گزر جانے کے باوجود، سڑکیں اور گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے

’لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ دفاتر، سکول اور بازار وغیرہ سب بند پڑے ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر اتنا بڑا حملہ کیسے ممکن ہوا۔

’اسرائیل کو اپنی دو باتوں پر بہت ہی فخر ہے، ایک تو اپنی فوج اور دوسری اپنی انٹیلیجینس پر۔ ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی ہے جس پر اسرائیل کو بہت فخر ہے اور وہ ہے اعلیٰ ٹیکنالوجی، جسے وہ ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔‘

مشرا کے مطابق ’مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں کی وجہ سے اسرائیلیوں کے اپنی فوج، انٹیلیجینس اور اپنی ٹیکنالوجی پر اعتماد کو دھچکا لگا ہے۔ اسرائیلی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔‘

پریندر مشرا کہتے ہیں کہ لوگ جب اسرائیلی دفاعی ذرائع سے اس بارے میں رابطہ کرتے ہیں تو وہ کھل کر کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

یروشلم کی خالی سڑکیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جدید ٹیکنالوجی والی چوکیاں

اسرائیلی بارڈر کے وہ حصے جہاں سے حماس کے جنگجو غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوئے، وہاں پر ایسی چوکیاں یا سکیورٹی رکاوٹیں موجوں ہیں جہاں کوئی انسانی عملہ نہیں تھا۔

یہ چوکیاں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے بارڈر پر نظر رکھتی ہیں اور وہاں پر کسی بھی قسم کی حرکت کو دیکھنے کے لیے کئی قسم کے سینسرز بھی نصب ہیں۔

ٹیکنالوجی کا یہ نظام حال ہی میں ایک ارب ڈالر کی مالیت سے نصب کیا گیا تھا۔

اسرائیلی حکام کو یقین تھا کہ سینسرز کی مدد سے تیار کردہ یہ جدید سکیورٹی نظام غزہ سے کسی بھی قسم کی مداخلت کو روکنے میں کامیاب رہے گا لیکن یہ نظام بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔

حماس کی بیرئیرز پر خفیہ ٹریننگ

ہریندر مشرہ کا کہنا ہے کہ اب اسرائیل کے سکیورٹی نظام پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ’اب جو خبریں باہر نکل رہی ہیں کہ ان کے مطابق، حماس کے جنگجو سکیورٹی بیرئیرز پر گذشتہ چند ماہ سے حملوں کے لیے اپنی ٹریننگ کر رہے تھے۔

’اُن کے ٹریننگ کے لیے بیرئیرز پر جمع ہونے کے اس انداز کو اسرائیلی سکیورٹی حکام سمجھتے رہے کہ حماس کے اہلکار غزہ سے اسرائیل آنے والے فلسطینیوں کے لیے زیادہ سہولتیں اور زیادہ تعداد میں اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘

غزہ سے تقریباً 17 ہزار فلسطینی کام اور روزگار کے لیے اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں جاتے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے سکیورٹی چوکیوں پر ہونے والے اجتماع کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

اس طرح اسرائیل کا دفاعی، انٹیلیجنس اور جدید ٹیکنالوجی کا نظام مکمل طور پر ناکام رہا۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یرغمالیوں کی رہائی

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس سروسز حماس کی تیاریوں اور منصوبوں کا پتہ لگانے میں ناکام رہی جس نے سرحد کے ساتھ اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے میں مہینوں نہیں تو سال گزارے تھے۔

اسرائیل کا ہائی ٹیکنالوجی چوکیوں کا نظام حماس نے چند ہی گھنٹوں میں ناکارہ بنا دیا تھا۔ اس نظام کی تعمیر پر اربوں ڈالر لاگت آئی تھی اور اسے سرنگوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

اس حملے نے اسرائیلیوں کا اپنی سلامتی اور فوجی برتری پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور بظاہر کمزور نظر آنے والے مخالفین کے خلاف ان کی ڈیٹرنس (رعب اور دبدبے) کی حکمت عملی کی افادیت اور موثرہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس حملے نے غزہ میں زمینی کارروائی کے امکانات کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے کیونکہ اسرائیل کو وہاں اپنے یرغمالیوں کے تحفظ پر بھی غور کرنا ہے۔

اس حملے نے ظاہر کیا ہے کہ حماس اپنی حکمت عملی کو اپنانے اور اسرائیل کے دفاع کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ