’سائے کا شہزادہ اور نو زندگیوں والی بلی‘: حماس کے اہم رہنما جو متعدد اسرائیلی قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے

palestine

سات اکتوبر سنیچر کی صبح، سنہ 1973 میں اکتوبر جنگ کی پچاسویں اور القسام بریگیڈز کے قیام کی چھتیسویں سالگرہ کے موقع پر، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی علاقے کی طرف کئی راکٹ داغے گئے اور پھر ایک چونکا دینے والا حملہ کیا گیا۔

فلسطینی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بھی بنایا گیا ہے۔

حالیہ آپریشن کے دوران غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کا نام سامنے آیا تھا، خاص طور پر کیونکہ اس نے اسرائیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس آپریشن کو ’طوفان الأقصى‘ کا نام دیا تھا۔

اس دوران توپ خانے کی گولہ باری اور ’مخصوص‘ دراندازی کی کارروائیاں کی گئیں جس کا مقصد ’فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی پرتشدد کارروائیوں‘ کا جواب دینا تھا۔

سات اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی عسکری صلاحیتوں کے بارے میں سوالات کیے جا رہے ہیں جس نے کئی تجزیہ کاروں کے مطابق اس کارروائی سے اسرائیل کو چونکا دیا تھا۔

اکثر افراد حماس کے اہم رہنماؤں کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔ ہم نے حماس کے موجودہ اہم سیاسی اور عسکری رہنماؤں کی تفصیلات اکھٹی کی ہیں۔

محمد الضیف: ’نو زندگیوں والی بلی‘

حماس

،تصویر کا ذریعہAFP

محمد ضیف کے بارے میں اب تک جو کچھ ہمیں علم ہے اس کا ذریعہ اسرائیلی اور فلسطینی ذرائع ابلاغ ہیں۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ان کے مطابق محمد ضیف غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں سنہ 1965 میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب یہ علاقہ مصر کے زیر تسلط تھا۔

ان کی پیدائش کے وقت ان کے والدین نے ان کا نام محمد ضائب ابراہیم المصری رکھا تھا۔ لیکن اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں سے بچنے کے لیے خانہ بدوشی کی زندگی اپنانے کی وجہ سے ان کا نام ضیف پڑا گیا۔ عربی زبان کے لفظ ضیف کا مطلب مہمان ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کی خوفناک لڑائیوں میں گزرنے والے ان کے بچپن کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

حماس کی تنظیم جب سنہ 1980 میں قائم ہوئی اس وقت محمد ضیف نوجوان تھے۔ اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کا عزم رکھنے والے محمد ضیف نے جلد ہی حماس کے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ میں اہمیت اختیار کر لی۔

سنہ 1989 میں گرفتاری کے بعد انھوں نے 16 ماہ قید میں گزارے۔ قید کے دوران ہی انھوں نے حماس کا الگ عسکری ونگ القسام بریگیڈ قائم کرنے کے بارے میں سوچا اور رہائی کے بعد اسے عملی جامہ پہنایا۔ وہ القسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

ضیف کو حماس کے مقامی طور پر تیارہ کردہ قسام راکٹ اور غزہ کے نیچے بچھائی جانے والی زیر زمین سرنگوں کا خالق بھی تصور کیا جاتا ہے۔

وہ حماس کے انجینیئر اور بم ساز یحییٰ عیاش کے کافی قریب تھے جنھیں سنہ 1990 کی دہائی میں اسرائیل کی مسافر بسوں میں ہونے والے خودکش حملے کے سلسلے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 1996 میں یحییٰ کو قتل کروا دیا لیکن اس کے بعد بھی اسرائیل میں خود کش حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ضیف کو یحیی کی موت کا بدلہ لینے کی کئی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ان پر بہت سی دیگر کارروائیوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔

سنہ 2000 میں انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم وہ دوسرے انتفادہ کے آغاز پر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ سنہ 2002 میں حماس کے بانیوں میں شامل صلاح شہادۃ کی ہلاکت کے بعد انھوں نے حماس کے عسکری بازو کی قیادت سنھال لی۔

اس صدی کی پہلی دہائی میں اسرائیل نے ان کو قتل کرنے کی چار مرتبہ کوشش کی جن سے وہ بچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس دوران انھیں کچھ شدید زخم آئے۔ اسرائیل کو حاصل معلومات کے مطابق ایک حملے میں ان کی ایک آنکھ اور جسم کا ایک اور عضو ضائع ہو گیا۔

محمد ضیف پر ایک اور قاتلانہ حملہ سنہ 2014 میں غزہ پر اسرائیل کی کارروائی کے دوران ہوا جب غزہ کے محلے شیخ رضوان میں محمد ضیف کے گھر کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کی بیوی اور ان کا شیر خوار بچہ علی ہلاک ہو گئے۔

اسرائیل کا خیال تھا کہ اس نے محمد ضیف کو بھی ہلاک کر دیا ہے لیکن وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔

ان ناکام قاتلانہ حملوں سے ان کی ساکھ اور بہتر ہو گئی اور اپنے دشمنوں میں ان کو ’نو زندگیوں والی بلی‘ کی شہرت حاصل ہو گئی۔ ان کو ضیف کا نام، جس کا مطلب مہمان ہے، بھی اس لیے دیا گیا کیوں کہ وہ اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے کے لیے کسی ایک مقام پر ایک رات سے زیادہ نہیں رکتے۔

مروان عیسیٰ جو ’پلاسٹک کو لوہے میں بدل سکتے ہیں‘

حماس

مروان عیسیٰ محمد ضیف کا دایاں بازو تصور کیے جاتے ہیں اور القسام بریگیڈ کے نائب کمانڈر ہیں جن کو ’سائے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مروان باسکٹ بال کے اچھے کھلاڑی ہیں جن کو فلسطینی کمانڈو کا لقب دیا گیا۔ تاہم 1987 میں حماس میں شمولیت کے بعد ان کو اسرائیلی فوج نے پہلے فلسطینی انتفادہ کے دوران گرفتار کر لیا تھا اور وہ پانچ سال تک قید رہے۔

اسرائیل کے مطابق مروان جب تک زندہ ہیں، حماس سے اعصاب کی جنگ جاری رہے گی کیوں کہ اسرائیلی ذرائع مروان کو ایک عمل پسند شخص سمجھتے ہیں جو ’اتنے ذہین ہیں کہ پلاسٹک کو لوہے میں بدل سکتے ہیں۔‘

1997 میں انھیں فلسطینی اتھارٹی نے گرفتار کر لیا اور وہ سنہ 2000 میں الاقصی انتفادہ کے بعد رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد انھوں نے القسام بریگیڈ میں مرکزی کردار ادا کیا اور اسرائیل نے ان کو 2006 میں قتل کرنے کی کوشش کی جس میں وہ زخمی ہوئے۔

2014 اور 2021 میں اسرائیل نے دو بار غزہ میں ان کا گھر تباہ کیا۔ 2011 سے پہلے ان کی شناخت بھی ممکن نہیں تھی۔ تاہم جب ایک اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے لیے ایک تقریب منعقد ہوئی تو اس میں مروان ایک گروپ فوٹو میں نظر آئے۔

یحییٰ ابراہیم السنوار: حماس کے خفیہ ادارے کے بانی

یحیی ابراہیم السنوار

یحیی ابراہیم 1962 میں پیدا ہوئے اور وہ غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ ہیں۔

وہ حماس کے خفیہ ادارے ’مجد‘ کے بانی ہیں جو سکیورٹی معاملات دیکھتی ہے جیسا کہ اسرائیلی ایجنٹوں سے تفتیش۔

یحییٰ ابراہیم کو تین بار گرفتار کیا گیا۔ سب سے پہلے 1982 میں جب اسرائیل نے انھیں چار ماہ تک قید میں رکھا۔

سنہ 1988 میں انھیں تیسری بار گرفتار کیا گیا اور عمر قید کی سزا دی گئی۔ تاہم جب اسرائیلی فوجی جلاد شولت کو یرغمال بنایا گیا تو سنہ 2011 میں قیدیوں کا تبادلہ ہوا جس میں یحییٰ بھی رہا ہو گئے۔

یحییٰ نے حماس کے ایک اہم سربراہ کا کردار دوبارہ حاصل کیا اور ستمبر سنہ 2015 میں امریکہ نے ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا۔

تاہم 2017 میں انھیں غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی سربراہ کے طور پر چن لیا گیا۔

عبدالله البرغوثي: ’سائے کا شہزادہ‘

حماس
،تصویر کا کیپشن

عبدالله البرغوثي

عبداللہ البرغوثي 1972 میں کویت میں پیدا ہوئے اور 1990 میں اردن منتقل ہو گئے جہاں انھیں شہریت ملی۔ اس کے بعد وہ جنوبی کوریا کی ایک یونیورسٹی میں الیکٹرانک انجینیئرنگ پڑھنے گئے۔ تاہم تین سال بعد ڈگری مکمل کیے بغیر ہی انھوں نے پڑھائی چھوڑ دی۔

اس اثنا میں انھیں فلسطین میں داخلے کا پرمٹ مل گیا۔ انجینیئرنگ کی تعلیم کے دوران وہ دھماکہ خیز مواد میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔

فلسطین میں ان کی ملاقات اپنے کزن بلال سے ہوئی تو انھوں نے ایک ویران علاقے میں اپنی یہ مہارت ایک بم خود بنا کر دکھائی۔ بلال نے نابلس میں اپنے ایک کمانڈر کو یہ بات بتائی جس کے بعد عبداللہ القسام بریگیڈ میں شامل ہو گئے۔

عبداللہ نے دھماکہ خیز مواد تیار کرنا شروع کیا۔ وہ ڈیٹونیٹر بھی تیار کرتے تھے اور انھوں نے اسی مقصد سے ایک خصوصی عسکری فیکٹری قائم کی۔ عبد اللہ کی سربراہی میں ہونے والی کارروائیوں میں اندازوں کے مطابق اب تک 66 اسرائیلی ہلاک اور 500 زخمی ہو چکے ہیں۔

سنہ 2003 میں اسرائیلی فوج نے اتفاق سے انھیں گرفتار کر لیا اور پھر تین ماہ تک ان سے تفتیش ہوتی رہی۔ ان کے خلاف مقدمے میں انھیں تاریخ کی طویل ترین سزا سنائی گئی۔ انھیں 67 بار عمر قید کی سزا دی گئی جبکہ 5200 سال کی قید کی سزا اس کے علاوہ تھی۔

قید تنہائی میں رکھے جانے پر انھوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ انھیں قید کے دوران تحریر کردہ اپنی کتاب کے عنوان کی وجہ سے ’سائے کا شہزادہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی مزاحمتی تحریک پر روشنی ڈالی ہے اور عسکری کارروائیوں کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔

اسماعیل ہنیہ

حماس

اسماعیل عبدالسلام ہنیہ، جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ حماس کے سیاسی سربراہ ہیں جو 2006 میں وزیر اعظم بھی رہے۔

سنہ 1989 میں انھیں اسرائیل نے تین سال کے لیے قید کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھیں دیگر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان سرحد پر بے دخل کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ تقریبا ایک سال تک جلا وطن رہے۔

تاہم وہ ایک سال بعد غزہ لوٹے اور 1997 میں انھیں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ متعین کر دیا گیا۔

16 فروری سنہ 2006 میں حماس نے انھیں فلسطین کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور اسی ماہ کی 20 تاریخ کو انھوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔

سنہ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔

ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انھیں برطرف کر دیا جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ بعد میں اسماعیل ہنیہ نے فتح کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا۔

چھ مئی 2017 کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی بیورو کا سربراہ منتخب کیا۔

خالد مشعل

خالد مشعل

خالد مشعل ابو الولید سنہ 1956 میں سلواد نامی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی تھی جس کے بعد ان کا خاندان کویت منتقل ہو گیا تھا جہاں انھوں نے سیکنڈری تعلیم مکمل کی تھی۔

مشعل حماس تحریک کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور وہ اس تحریک کے آغاز سے ہی اس کے سیاسی بیورہ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ سنہ 1996 سے 2017 تک تحریک کے سیاسی بیورو کے صدر بھی رہے ہیں۔

سنہ 1997 میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو کی جانب سے براہِ راست احکامات پر مشعل کو نشانہ بنایا تھا۔

موساد کے دس ایجنٹس جعلی کینیڈین پاسپورٹس کے ساتھ اردن میں داخل ہوئے تھے۔ خالد مشعل ان دنوں اردن کے شہری تھے اور وہ دارالحکومت عمان میں پیدا چل رہے تھے جب کوئی زہریلا مواد ان میں انجیکٹ کیا گیا تھا۔

اردن میں حکام کو اس منصوبے کا علم ہو گیا تھا اور انھوں نے موساد کے ان اراکین کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت کے اردن کے بادشاہ حسین بن طلال نے اسرائیلی وزیرِ اعظم سے اس زہریلے مواد کا تریاک دینے کا کہا۔ نتن یاہو نے آغاز میں تو ان کی یہ درخواست نہی مانی لیکن پھر اس معاملے میں صدر بل کلنٹن کی مداخلت اور امریکی دباؤ کے باعث نتن یاہو یہ تریاک فراہم کرنے پر مجبور ہو گئے۔

خالد مشعل نے غزہ کا پہلا دورہ دسمبر سنہ 2012 میں کیا تھا۔ مشعل کا یہ دورہ ان کے فلسطینی علاقوں سے منتقل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ تھا۔

مشعل کا فلسطینی رہنماؤں نے رفح کراسنگ پر ان کا استقبال کیا تھا اور جب غزہ شہر میں داخل ہوئے تو سڑکوں کے کناروں پر فلسطینی کھڑے ان کا استقبال کر رہے تھے۔

سنہ 2017 میں تحریک کی شوریٰ کونسل نے اسماعیل ہنیہ کو سیاسی بیورو کا سربراہ منتخب کیا تھا اور آج تحریک نے انھیں بین الاقوامی شعبے کا سربراہ بنایا ہے۔

القسام بریگیڈز کے علاوہ غزہ میں نمایاں مسلح تحریکیں کون سی ہیں؟

القسام

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

القسام بریگیڈز نے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا

القسام بریگیڈز کی بنیاد 1987 میں رکھی گئی تھی، اور اس کا نام فلسطینی عالم عزالدین القسام کے نام پر اپنایا، جنھیں ’فلسطینی مزاحمت کی علامت‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ، بریگیڈ نے حماس کی ایک شاخ کے طور پر عسکری کارروائیاں سنبھال لیں۔

سنہ 2006 میں حماس کے انتخابات جیتنے کے بعد القسام بریگیڈ نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے حریف فتح کو 2007 میں علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔

غزہ کی پٹی میں اس اختیار نے القسام بریگیڈ کو سب سے بڑی فورس بنا دیا ہے اور اسے اسرائیل کے خلاف بار بار فوجی کارروائیاں کرنے کی آزادی دی گئی ہے، جس کی وجہ سے اسے اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور مصر کی طرف سے اسے دہشت گرد گروپ قرار دیا گیا ہے۔

تاہم ، غزہ کی پٹی میں القسام بریگیڈ کے اختیار ، اثر و رسوخ اور طاقت کے باوجود ، یہ پٹی میں موجود واحد فوجی قوت نہیں ہے، کیونکہ یہ اپنی پوری تاریخ میں بہت سی تحریکوں اور دھڑوں کے لیے ایک انکیوبیٹر رہا ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہReuters

القدس بریگیڈ

القدس بریگیڈ غزہ کی پٹی کی دوسری سب سے بڑی فوجی فورس ہے جو 1987 میں اسلامی جہاد تحریک کے ایک فوجی ونگ کے طور پر قائم ہوئی تھی، جو 1982 میں ’سیف الاسلام‘ بریگیڈ کے نام سے قائم ہوئی تھی۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں، محمود عرفات الخواجہ کی سربراہی میں اس وقت کی اسلامی جہاد کی قیادت نے فوجی ونگ کا نام تبدیل کرکے ’القوى الاسلامية المجاهدہ‘ کردیا ، جسے مختصر طور پر قسم کے نام سے جانا جاتا تھا۔

القدس بریگیڈ کا نام 2002 میں اس وقت سامنے آیا جب اس نے محمود توالبہ کی سربراہی میں جنین کیمپ کی نام نہاد لڑائی میں حصہ لیا۔

اس کا نام گذشتہ سال اسرائیلی فوج کی جانب سے بریگیڈ کے ارکان کے خلاف گرفتاریوں کی مہم کے جواب میں اسرائیل کے خلاف کیے گئے ایک آپریشن کے دوران دوبارہ سامنے آیا۔

الناصر صلاح الدین بریگیڈز

اس تحریک کی بنیاد 2000 میں عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے ایک عسکری ونگ کے طور پر رکھی گئی تھی اور اس کا کردار 2008 میں غزہ پر حملے میں نمایاں ہوا، اس سے پہلے کہ اس نے پاپولر ریزسٹنس کمیٹیوں سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اسی نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا۔

انصار بریگیڈ

یہ 2007 میں فلسطینی لبرل موومنٹ کے ایک فوجی ونگ کے طور پر قائم کیا گیا تھا ، جب الفتح کے متعدد رہنماؤں نے تحریک سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

الاقصیٰ شہدا بریگیڈ

ماہرین کے مطابق، اس کے عسکری گروپ، ایمن جودہ گروپ، نبیل مسعود گروپ اور نضال العمودی بریگیڈ، اسے بنانے والے عسکری گروہوں میں سب سے مضبوط ہیں۔

القدس بریگیڈ

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

القدس بریگیڈ کا اثر مغربی کنارے تک پھیلا ہوا ہے

احمد ابو الریش بریگیڈ

الفتح کا ایک عسکری ونگ، جس کی بنیاد عمرو ابو سیتا نے 2000 میں تحریک کے رکن کے طور پر رکھی تھی۔

جہاد جبریل بریگیڈ

پاپولر فرنٹ جنرل کمانڈ کا فوجی ونگ۔

عبد القادر الحسینی بریگیڈ

اس کی بنیاد مسلح عناصر کے ایک گروپ نے رکھی تھی جن کا تعلق فتح کی الاقصیٰ شہدا بریگیڈ سے تھا۔

مجاہدین بریگیڈ

یہ ایک فلسطینی تحریک ہے جو فتح کی کوکھ سے ابھری اور اس کا آغاز الاقصیٰ بریگیڈ کے مجاہدین بریگیڈ سے ہوا، جو اسلامی جہاد تحریک اور کچھ سلفی دھاروں کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے، اور اس کی بنیاد عمر ابو شریعہ نے 2006 میں رکھی تھی۔

hamas

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسلامی جہاد موومنٹ نے آپریشن "الاقصیٰ فلڈ” کے آغاز سے پہلے اپنی تاسیس کی چھتیسویں سالگرہ منائی

ابو علی مصطفی بریگیڈ

یہ 2000 میں عوامی مزاحمتی کمیٹیوں یعنی پاپولر ریزسٹنس فورسز (پی آر ایف) کے نام سے قائم کیا گیا تھا اور 2001 میں اسرائیل کی جانب سے رملہ میں فرنٹ کے سیکرٹری جنرل کے قتل کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے ابو علی مصطفی شہید بریگیڈ رکھ دیا گیا تھا۔

قومی مزاحمتی بریگیڈ

سنہ 2000 میں قائم ہونے والے اور غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور یروشلم میں پھیلے ہوئے فلسطینی فوجی گروپ ڈیموکریٹک فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (ڈی ایف ایل پی) کا عسکری ونگ جس نے مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیلی کیمپوں پر بار بار چھاپے مارے ہیں۔

اس کے علاوہ، غزہ کی پٹی میں مسلح سلفی پس منظر رکھنے والے بہت سے گروہ اور تنظیمیں اس شامل ہیں:

جیش اسلام

ان کا پہلا فوجی آپریشن 2006 میں اسرائیلی فوجی گلاد شالیت کے اغوا میں حصہ لینا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ