غزہ کے خوفزدہ شہری، زمین بوس عمارتیں اور ویران بازار: ’آسمان سے موت برس رہی ہو تو آپ کہاں چھپ سکتے ہیں؟‘

غزہ

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینی غزہ سے بے گھر ہوئے ہیں

’ہر حملے کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے کسی زلزلے نے عمارت کو ہلا دیا ہو۔ مجھے اپنا دل خوف سے دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور میرا پورا جسم کانپ جاتا ہے۔‘

نادیہ، جو اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، سوموار کی صبح اپنے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹنے کی آوازوں سے بیدار ہوئیں۔ صبح آٹھ بجے شروع ہونے والی بمباری کسی وقفے کے بغیر رات دیر گئے تک جاری رہی۔

نادیہ کے مطابق ’ایک سیکنڈ کے لیے بھی بمباری بند نہیں ہوئی۔‘

نادیہ، جن کا ایک بیٹا تین ماہ اور دوسرا پانچ سال کا ہے، کے خاندان نے غزہ کی پٹی کے ساحل پر حال ہی میں فلیٹ خریدا تھا۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھیں کیوں کہ ان کے شوہر، جو ایک بین الاقوامی تنظیم میں ڈاکٹر ہیں، زخمیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔

ان کے بڑے بیٹے نے سوال کیا: ’کیا ہو رہا ہے؟ یہ کب ختم ہو گا؟‘ نادیہ کہتی ہیں کہ ’اسے پُرسکون کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اسے بتایا جائے کہ دھماکے کی آواز اصلی دھماکہ ہو جانے کے چند لمحے بعد آتی ہے۔‘

یہ ایسی معلومات ہیں جو شاید کوئی پانچ سال کا بچہ سمجھ نہیں پائے گا لیکن نادیہ کے لیے موجودہ لمحات میں بیٹے کو سمجھانے کا یہ سب سے بہترین طریقہ تھا۔

بمباری کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں کا تاہم گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ اُن کا تین ماہ کا بیٹا کھانا نہیں کھا پا رہا اور اسے دورے پڑ رہے ہیں۔

گذشتہ چند دنوں تک نادیہ نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کیا کیوں کہ ’اس کے ہر کونے سے کوئی یاد جڑی ہے۔‘ لیکن سوموار کی رات ان کو ہمسائیوں کی چلانے کی آواز آئی جو سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے کہہ رہے تھے ’(گھر) خالی کرو، باہر نکلو۔‘

نادیہ چند سیکنڈز تک ہچکچائیں۔ ان سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ گھر سے کیا لے کر جائیں۔ تب وہ مایوسی اور دہشت کے زیر اثر رو پڑیں۔

اپنے دونوں بچوں کے ساتھ عمارت سے باہر نکلنے پر انھوں نے دیکھا آس پاس کی تمام عمارات زمین بوس ہو چکی تھیں۔

اب وہ اپنے والدین کے گھر محفوظ طریقے سے پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’جب آسمان سے موت برس رہی ہو تو آپ کہاں چھپ سکتے ہیں؟‘

نادیہ اور غزہ کے دیگر رہائشیوں نے بی بی سی سے بات چیت میں بتایا کہ اس بار ہونے والی تباہی کی ماضی سے نظیر نہیں ملتی۔

’غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں‘

غزہ

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

غزہ کے رہائشیوں نے بی بی سی سے بات چیت میں بتایا کہ اس بار ہونے والی تباہی کی ’نظیر نہیں ملتی‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

غزہ کے نسبتاً متمول ساحلی علاقے ’رمل‘ میں 39 سالہ دینا اپنی والدہ، والد، بہن اور دو بھتیجوں کے ہمراہ گھر کے باغیچے میں اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھیں۔ شہر کے مرکز سے تین کلومیٹر دور یہ رہائشی علاقہ عام طور پر پُرسکون ہوا کرتا تھا۔

لیکن سوموار کی دوپہر کو بھاری بمباری ہونا شروع ہوئی۔ دینا کہتی ہیں کہ ’ہمارا خیال تھا کہ گھر میں ہم محفوظ ہیں لیکن اچانک کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور دروازے اڑ کر دور جا گرے۔ چھت کا ایک حصہ بھی ہمارے سروں پر آ گرا۔‘

دینا اور ان کے اہلخانہ چھ اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران تباہ حال گھر میں ہی رہے۔ تھوڑی خاموشی ہوئی تو سب کچھ چھوڑ کر وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے باہر نکلے۔ پہلے انھوں نے ہسپتال جا کر زخموں کی مرہم پٹی کروائی۔ دینا کہتی ہیں کہ وہ سب خوش قسمت تھے کہ ان کے زخم گہرے نہیں تھے۔

جب وہ اپنا سامان لینے واپس گھر پہنچے تو وہ زمین بوس ہو چکا تھا۔ اب وہ ایک اور خاندان کے ساتھ عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔ دینا ’اپنا گھر، اپنی یادیں اور اس جگہ کو کھو دینے کے صدمے‘ سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔‘

یہ بھی پڑھیے

انسانی جانیں بچانے کی کوششوں میں مشکلات کے شکار ہسپتال

غزہ کی پٹی کے سب سے بڑے ہسپتال ’الشفا‘ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ابو سلمی کہتے ہیں کہ ’صورتحال نازک ہے۔ اب تک 850 افراد ہلاک اور چار ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔‘

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کی بجلی بند کر دیے جانے کے بعد ہسپتال کو بجلی کے جنریٹر چلانا پڑ رہے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر محمد ابو سلمی کا کہنا ہے کہ اب کے پاس اب صرف چند گھنٹوں کی بجلی کا انتظام رہ گیا ہے۔

غزہ کی پٹی کے مکمل محاصرے کے بعد صاف پانی کی بھی کمی ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمی کے مطابق صاف پانی اب صرف ایسے کیسز میں استعمال کیا جا رہا ہے جن میں کسی کی زندگی کو خطرہ ہو جبکہ چند ڈیپارٹمنٹ بند کر دیے گئے ہیں۔

انھیں اپنے مریضوں کے ساتھ ساتھ عملے کی حفاظت کی بھی فکر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیلی بمباری میں ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور ایسے ہی ایک حملے میں ایک ڈاکٹر ہلاک ہو چکا ہے۔‘

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور اب تک غزہ کے ایک لاکھ 87 ہزار رہائشی پناہ کی تلاش میں گھروں کو چھوڑ چکے ہیں۔

بھاری بمباری کے درمیان ایجنسی ایک لاکھ 37 ہزار 500 افراد کو پناہ دے چکی ہے تاہم خدشہ ہے کہ جلد ہی اس کے پاس موجود جگہ کم ہو جائے گی۔

غزہ کی پٹی

،تصویر کا ذریعہEPA

خالی دکانیں

27 سالہ اسحاق اپنی بوڑھی والدہ، والد، بھابھی اور ان کے پانچ بچوں کے ساتھ شجاعیہ میں رہتے تھے۔ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے سنیچر کو حماس کے حملے کے بعد ایک طویل اور مشکل جنگ کے آغاز کا اعلان کیا تو اسحاق اور ان کے اہلخانہ کو آنے والی مشکل کا اندازہ ہو گیا تھا۔

انھوں نے اپنا ضروری اور قیمتی سامان اٹھایا اور شہر کے وسط میں ایک پناہ گاہ میں پہنچے۔ راستے میں 20 افراد پر مشتمل اس خاندان نے ضرورت کی اشیا خریدنے کی کوشش کی لیکن تمام دکانیں خالی ہو چکی تھیں۔ سنیچر کے حملوں کی خبر ملتے ہی غزہ کے تمام رہائشی اشیائے ضروریہ خریدنے دوڑ پڑے تھے۔

اسحاق اور ان کا خاندان فضائی بمباری سے حفاظت دینے والے ایک شیلٹر میں پہنچا جو ایک رہائشی عمارت کے نیچے بنا ہوا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم 48 گھنٹے تک بجلی اور پانی کے بغیر وہاں رہے۔‘ پھر سوموار کو آدھی رات کے وقت اسرائیلی فوج کا پیغام وصول ہوا کہ عمارت خالی کر دیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے وہاں سے نکلتے وقت آسمان فضائی حملوں کی وجہ سے روشن تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ باہر نکل کر اُن کو صرف عمارتوں کے کھنڈرات نظر آئے۔ شہر کے شمال میں ایک رہائشی علاقے کی جانب جاتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ اس علاقے میں بھی سب عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔

اسحاق اور ان کا خاندان 12 گھنٹے تک 10 اور خاندانوں کے ساتھ ایک ایسی عمارت کے نچلے فلور میں چھپے رہا جسے جزوی نقصان پہنچ چکا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس خوف میں جی رہے ہیں کہ آنے والے گھنٹوں میں ہمارے ساتھ کیا ہو گا اور ہم مل کر محفوظ رہنے کی دعا کر رہے ہیں۔‘

وہ نہیں جانتے کہ اب کیا کرنا چاہیے اور کہاں جانا چاہیے۔

(جن افراد سے بی بی سی نے بات کی، وہ اپنی تصاویر شائع کروانے کے حق میں نہیں تھے۔)

BBCUrdu.com بشکریہ