سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی 28 ستمبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی 28 ستمبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ 4 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام فریقین کو فیض آباد دھرنے سے متعلق حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، فریقین کیس سے متعلق حقائق بیانِ حلفی کے ذریعے جمع کرا سکتے ہیں، کیس میں تحریری جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائے جائیں، کیس کی سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارتِ دفاع اپنی نظرِ ثانی کی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتا، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرِ ثانی کی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی، درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر 4 پر اعتراض اٹھایا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ دورانِ سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے، یہ سوال اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرِ ثانی کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا تھا؟ دوسرا سوال اٹھایا گیا کہ نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں؟ تیسرا سوال تھا کہ کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرِ ثانی درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ آزادانہ ہے؟ چوتھا سوال یہ تھا کہ کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا؟
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ان کے نکتۂ نظر کو مدِ نظر نہیں رکھا، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیرا گراف 17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کے لیے تھا اور اس کے دائرہ اختیار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔
Comments are closed.