والدین سے تحویل میں لی گئی بچی جس نے جرمنی اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع کو جنم دیا

چھوٹے بچے کے پاؤں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, گیتا پانڈے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی

اسے انڈین کھانے پسند ہیں اور والدین کی طرف سے دکھائی گئی ویڈیوز میں وہ ان کے ساتھ خوش نظر آ رہی ہے۔

اس کی والدہ بتاتی ہیں کہ ان کی ڈھائی سالہ بیٹی ابھی جرمن شہر برلن کے قریب بچوں کے حفاظتی مرکز میں موجود ہے۔

یہ بچی اس وقت انڈیا اور جرمنی کے درمیان سفارتی نتازع کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ستمبر 2021 میں جب یہ بچی صرف سات ماہ کی تھی تو حکام نے اسے اس کے والدین سے چھین لیا اور ان پر جنسی تشدد کا الزام لگایا۔

اس سال جون میں برلن کی ایک عدالت نے اس انڈین جوڑے کے ولدیت کے حقوق معطل کر دیے۔ بچی کی کسٹڈی ’یوگن امپت‘ کو دے دی گئی جو جرمنی میں بچوں کا فلاحی ادارہ ہے۔

والدین نے عدالت سے بچی کو واپس انڈیا بھیجنے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔ اب والدین نے عدالتی کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔

بچی کی والدہ دِیا (قانونی وجوہات کی وجہ سے ہم والدین کا اصلی نام استعمال نہیں کر رہے) اس وقت دلی میں ہیں اور بچی کی واپسی کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔

بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

دیا کے خاوند امت کو 2018 میں برلن میں نوکری ملی اور وہ دونوں وہاں چلے گئے۔ ان کی بچی وہاں دو فروری 2021 میں پیدا ہوئی۔

عدالتی دستاویز کے مطابق بچی کے جنسی اعضا پر زخم کی وجہ سے تنازع ہوا۔ اُس وقت بچی سات ماہ کی تھی۔ اس زخم کا معائنہ کر کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ انھوں نے اس سے پہلے چھوٹی بچی کے اِن اعضا پر اس قدر شدید زخم نہیں دیکھا۔ انھوں نے تجویز دی کہ بچی کو فوی طور پر سرجری کی ضرورت تھی۔

بچوں کے تحفظ کے ادارے نے اس بچی کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے کہا کہ انھیں شک ہے کہ اس پر جنسی تشدد ہوا۔ بچی کے والدین اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

جس ہسپتال میں بچی کا علاج ہو رہا تھا، اس نے بعد میں کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ڈاکٹرز نے کہا اس سے متعلق ’کوئی ثبوت نہیں‘ جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ جنسی تشدد ہوا۔ پولیس نے بھی اس کے بعد اپنی کارروائی ختم کر دی۔

والدین کا کہنا ہے کہ زخم ناگہانی تھا۔ انڈیا اور امریکہ کے دو غیر جانبدار ڈاکٹرز، جنھوں نے بچی کی میڈیکل تفصیلات پڑھیں، نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔

عدالت میں جمع ہونے والی ان کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’بہت زیادہ امکان ہیں کہ یہ زخم کسی حادثے کے نتیجے میں آیا ہو۔ یہ ناممکن ہے کہ والدین نے متعدد بار جان بوجھ کر اسے زخم دیے ہوں اور پھر اسے جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ہوں۔‘

لیکن چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹیز نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں بچی اپنے گھر میں محفوظ نہیں ہوگی اور عدالت نے ان کی اس دلیل سے اتفاق کیا۔

بچی کی والدہ کی تصویر۔ شانخت چپانے کے لیے ان کا چہرہ بلر کر دیا گیا ہے۔

،تصویر کا کیپشن

بچی کی والدہ اس وقت دلی میں ہیں تاکہ بچی کو انڈیا واپس لانے کے لیے حمایت حاصل کر سکیں

بچی تقریباً دو سال سے فوسٹر کیئر میں ہے اور والدین کا کہنا ہے انھیں محدود رابطے کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر سوشل ورکرز نے والدین کو ’پیار اور خیال رکھنے والے‘ والدین کہا۔

عدالت کی طرف سے تعینات کیے گئے ماہر نفسیات نے بھی یہ تجویز دی تھی کہ والدین میں سے ایک بچی کے ساتھ ایک پیرنٹ چائلڈ فیسیلیٹی میں رہیں۔

دیا کہتی ہیں کہ گذشتہ ہفتے یوگن امپت نے والدین کو آگاہ کیا کہ ’ان کے بچی سے ملنے کے تمام دن کینسل ہو گئے ہیں کیونکہ اسے چھوڑنے اور واپس لانے کے لیے کوئی نہیں۔‘

وہ الزام لگاتی ہیں کہ انھیں اپنی بیٹی کو ویڈیو کال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ ’ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں کہ جب سے وہ فوسٹر کیئر سے خصوصی بچوں کے سینٹر میں گئی ہے، اس کا خیال کون رکھ رہا ہے۔ ہماری بچی کے گرد رازداری انتہائی عجیب ہے۔‘

دیا جرمن حکام پر نسل پرستی کا الزام لگاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ غلط بیانی کر کے ان کی بچوں کو تحویل میں لے لیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ جرمن نہیں بول سکتیں اور انھیں ملنے والے مترجم ’ہندی بولتے تھے، گجراتی نہیں۔‘

ہم نے یوگن امپت سے رابطہ کیا ہے اور ان کے جواب کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اس بچی کے کیس کو انڈیا اور جرمنی میں کافی توجہ ملی ہے۔ انڈیا اور جرمنی کے شہروں میں والدین کے حق میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

دلی میں دیا نے انڈین وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ درجنوں ارکان نے جرمن سفیر فلپ ایکرمین کو خط رکھے ہیں کہ جن میں بچی کی انڈیا واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔

ایک رکن پارلیمنٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ بچی کو واپس لانے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ایک اور سیاست دان نے وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا کہ وہ اس معاملے کو جرمن چانسلر اولف شولز کے سامنے اٹھائیں۔ جرمن چانسلر اگلے ماہ جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے دلی کا دورہ کریں گے۔

دیا بھی اب وزیر اعظم سے مداخلت کی اپیل کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اب میری واحد امید مودی صاحب ہیں۔ اگر وہ مداخلت کرتے ہیں تو میری بیٹی واپس آسکتی ہے۔‘

اس بچی کے تنازع نے 2011 کے اسی طرح کے ایک کیس کی یاد تازہ کر دی کہ جب ناروے میں دو انڈین بچوں کو ان کے والدین سے لے لیا گیا تھا۔ آخرکار وہ ایک سال بعد انڈیا واپس آ گئے تھے۔

ناروے میں انڈین خاندان کی مدد کرنے والی سابق وکیل اور کارکن سورنیا آئر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات غیر معمولی نہیں۔ ’یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک شاندار حل ہے اور اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔‘

سرحد پار خاندانی تنازعات میں یوگن امپت کے کردار کو یورپی پارلیمنٹ نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سنہ 2018 میں ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں یورپی پارلیمنٹ نے اس تنظیم پر امتیازی سلوک، تارکین وطن کے بچوں کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اور والدین و بچوں دونوں کے حقوق کو نقصان پہنچاتے ہوئے انھیں ضبط کرنے کا الزام لگایا۔

مئی میں جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں یورپی پارلیمنٹ نے کہا کہ ان کی کمیٹی برائے پٹیشنز کو اب بھی یوگن امپت کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ ’یوتھ ویلفیئر دفاتر کے کردار اور اقدامات کو اکثر بہت دور رس دیکھا جاتا ہے۔۔۔ وہ غیر ملکی والدین کو جرمن والدین کے مقابلے میں پسماندہ محسوس کرتے ہیں۔‘

بچی کے لیے احتجاج

،تصویر کا کیپشن

والدین کے حق میں انڈیا اور جرمنی کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے

سورنیا آئر کہتی ہیں کہ اس طرح کے معاملات میں ایک بہتر حل یہ ہوگا کہ ریاست سماجی کارکنوں کو کہے کہ خاندانوں کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کریں۔

وہ کہتی ہیں اس بچی کے معاملے میں حکومت کی مداخلت ہی واحد حل ہے۔ ’بچی کی کوئی غلطی نہیں۔ اسے انڈیا واپس آنے دیں۔ وہ انڈین شہری ہے اور اسے یہاں رہنے کا پورا حق ہے۔‘

انڈین حکومت نے کہا ہے کہ اس کیس کو ’اعلیٰ ترجیح‘ دی جا رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ انھوں نے انڈیا کے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے ’جرمن سفیر کو طلب‘ کیا ہے۔

ارندم باغچی نے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا ’کم از کم ہم سمجھتے ہیں کہ اس بچی کے ثقافتی حقوق اور ایک انڈین شہری کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے بچی کی جلد از جلد انڈیا واپسی کا مطالبہ کیا ہے اور ہم اس معاملے پر جرمنی پر دباؤ ڈالتے رہیں گے۔‘

دلی میں جرمن سفارتخانے کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن جرمنی میں حکومتی ذرائع نے کہا کہ یہ مقدمہ عدالت میں ہے اور ان کے ہاتھ سے باہر ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس کیس کا حل تلاش کرنے کے لیے انڈیا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

انڈین حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے گجرات میں ایک خاندان کی نشاندہی کی ہے جن کو اس بچی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔

ریٹائرڈ سرکاری پیڈیاٹریشن اور دلی حکومت کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے سابق رکن ڈاکٹر کرن اگروال کا کہنا ہے کہ بچی کو اپنے والدین کے ساتھ ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں بچوں کے تحفظ کے بہت مضبوط قوانین ہیں اور اگر جرمن عدالت اسے وطن واپس بھیج دیتی ہے، تو انڈیا میں اس کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔‘

دیا کہتی ہیں کہ ہر گزرتا دن ان کی پریشانی میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بچی کو ’تھوڑا تھوڑا کر کے کھو رہی ہیں۔‘

وہ پوچھتی ہیں ’وہ اپنی مادری زبان گجراتی نہیں سیکھ پا رہی۔ وہ صرف جرمن بولتی ہے، میں اس سے کیسے بات کروں گی؟‘

خاندان 90 لاکھ روپے ادا کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے کیونکہ انھیں بچی کی دیکھ بھال اور عدالتی اخراجات کی مد میں رقم ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ’ہم نے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے پیسے جمع کیے اور پہلے ہی 50 لاکھ روپے ادا کر چکے ہیں۔

’ہم ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اخلاقی اور جذباتی طور پر توڑا، اب وہ ہمیں مالی طور پر بھی توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ