فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ملک کی پندرہویں قومی اسمبلی سے متعلق کارکردگی رپورٹ جاری کردی۔
رپورٹ کے مطابق 9 اگست کو تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی میں گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ 322 بل منظور کیے گئے، گزشتہ اسمبلی میں 205 بل پاس کیے گئے تھے، معاشی، سیاسی، عدالتی اور آئینی بحران کے باجود اسمبلی نے اپنی مدت مکمل کرنے میں دباؤ کا مقابلہ کیا،
فافن رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ قومی اسمبلی نے قانون سازی میں سابق تین اسمبلیوں کو پیچھے چھوڑ دیا، صرف زیادہ قانون سازی ہی نہیں ملک کی پندرہویں اسمبلی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ایک وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کرسی سے ہٹایا گیا، قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
فافن کے اعداد و شمار کے مطابق شہباز شریف کی قیادت میں 16 ماہ رہنے والی حکومت کا قانون سازی میں حصہ 54 فیصد جبکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سربراہی میں قائم ساڑھے تین سال رہنے والی حکومت کا حصہ محض 46 فیصد رہا۔
رپورٹ کے مطابق 54 فیصد قانون سازی مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے 16 ماہ میں کی گئی، قومی اسمبلی نے 52 اجلاسوں میں 442 ورکنگ دنوں میں 1310 گھنٹے 47 منٹ کام کیا۔
فافن رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ اسد قیصر نے 40 اور قاسم سوری نے 37 فیصد اجلاسوں کی صدارت کی، راجہ پرویز اشرف نے 53 اور زاہد اکرم درانی نے 29 فیصد اجلاسوں کی صدارت کی۔
بحیثیت وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری 9 فیصد جبکہ شہباز شریف کی 17 فیصد رہی، شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف 27، راجہ ریاض نے 40 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی اجلاسوں میں حاضری کی شرح پہلے سال 73 فیصد تھی، قومی اسمبلی اجلاسوں میں آخری سال حاضری کی شرح کم ہو کر 34 فیصد رہ گئی، قومی اسمبلی اجلاس میں 131 بار کورم کی نشاندہی کی گئی، اجلاس کے دوران 74 بار مظاہرے کیے گئے، سب سے زیادہ ترمیمی بلز اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ سے متعلق تھے۔
فافن رپورٹ میں بتایا گیا کہ معیشت،تجارت، ایف اے ٹی ایف اور ٹیکس امور پر تیسرے نمبر پر قانون سازی ہوئی، انصاف سے متعلق بھی قومی اسمبلی میں ترجیحی قانون سازی ہوئی، قومی اسمبلی نے چند جرائم کے لیے سزائے موت بھی ختم کی، 58 بلز پیش ہونے کے دن یا 3 روز کے اندر منظور کروائے گئے۔
قومی اسمبلی نے 152 قرار دادیں منظور کیں، قومی اسمبلی میں 9765 سوالات، 423 توجہ دلاؤ نوٹس اٹھائے گئے،7 ممبران اسمبلی نے نہ کوئی ایجنڈا پیش کیا نہ بحث میں شریک ہوئے، ان میں 4 پی ٹی آئی، 2 پیپلز پارٹی اور ایک مسلم لیگ ن کے رکن تھے۔
Comments are closed.