بہن نے باپ کے قاتل بھائی کو کیوں معاف کر دیا؟
روب میرٹ (بائیں) اپنے بیٹے ایڈم کا خیال رکھ رہے تھے
- مصنف, فل شیپکا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، کیمبرج شائر
ایڈم میرٹ کا اپنے والد روب کے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا اور نوعمری میں شیزوفرینیا کی تشخیص کے بعد وہی ان کی نگہداشت کرنے والے بھی تھے۔
لیکن گذشتہ سال جون میں ایڈم نے 999 پر کال کرکے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنے والد کا قتل کر دیا ہے۔ ایڈم کی بہن کا کہنا ہے کہ وہ اس سانحے سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ہمیشہ سوچتی رہیں گی کہ کیا ان کی مدد کے لیے مزید کچھ کیا جا سکتا تھا۔
سارہ میرٹ ہر روز اپنے والد سے بات کیا کرتی تھیں اور انھیں یاد ہے کہ آخری بار انھوں نے ایک تالاب کے کنارے لی گئی خاندانی تصویر انھیں بھیجی تھی جس پر انھوں نے محض ‘کول’ لکھ کر جواب دیا تھا۔
یہ آخری پیغام تھا جو انھوں اپنی بیٹی کو بھیجا تھا۔
اگلی صبح سارا نے دروازے پر دستک سنی۔ اور دستک دینے والے نے جو خبر دی وہ ‘ظاہر ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں سب سے بری چیز سنی۔’
اس کے بھائی ایڈم نے ان کے والد کو پیٹربورو میں ان کے مشترکہ گھر پر 16 بار چاقو سے وار کیا تھا۔
ایڈم کے ساتھ اپنے والد کے تعلقات کے بارے میں سارہ کہتی ہیں: ‘انھوں (والد) نے اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اس کی دیکھ بھال کی تھی اور اس کا کبھی خیال رکھنا نہیں چھوڑا۔’
ایڈم نوعمری کے آخری دور میں تھا جب اس میں دماغی صحت کے مسائل کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں اور اسے 2008 میں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی۔
اس وقت اسے ہاسپیٹل میں محصور کیا گیا تھا لیکن وہ ایک سے زیادہ بار ہسپتال سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور اس وجہ خاندان کو اس کے مستقبل کی فکر ہونے لگی تھی۔
سارہ اور ایڈم کی بچپن کی تصویر
سارہ نے بتایا: ‘اس وقت میرے والد نے سوچا کہ ‘ٹھیک ہے، میں یہ کام خود کروں گا اور اسے اپنے ساتھ رکھوں گا اور خود اس کی دیکھ بھال کروں گا’، اور پھر کم از کم وہ اس کے ساتھ وہاں رہ کر اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔’
سارہ کہتی ہیں کہ ان دونوں کے درمیان رشتہ مضبوط ہو رہا تھا لیکن ان کے والد کو اس طرح کے حالات سے نمٹنے کی کوئی ٹریننگ نہیں تھی اور نہ ہی پہلے انھوں نے ایسی کسی صورت حال کا سامنا کیا تھا۔
‘انھیں ایسا لگتا تھا جیسے وہ سمجھتے ہیں اور وہ اسے ہینڈل کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال سے ایڈم کے ساتھ ان سالوں میں اتار چڑھاؤ آتے رہے یہاں تک کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔
‘اس نے میرے والد کو بھی بیمار کر دیا، اور افسردگی اور اضطراب سے نمٹنے کے لیے انھیں ڈاکٹروں سے بھی رجوع کرنا پڑا۔’
سارہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے ‘کبھی نہیں تھکے۔’
ایڈم کے معاملے سے مقامی این ایچ ایس کے دماغی صحت کے ٹرسٹ، کیمبرج شائر اور پیٹربورو کے این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ (سی پی ایف ٹی) والے واقف تھے لیکن بالغوں کی سماجی خدمات ان سے واقف نہیں تھی۔
تاہم سماجی خدمات والے جانتے تھے کہ روب ایک بلا معاوضہ دیکھ بھال کرنے والا ہے جسے سالانہ پیسے ملتے ہیں۔
سارہ اس بارے میں فکر مند رہتی تھی کہ کمیونٹی میں ایڈم کی کتنی اچھی طرح نگرانی کی جا رہی ہے۔
وہ اپنے بھائی کے لیے محسوس کرتی تھی اس کے بھائی کو ‘چھوڑ دیا گیا’ ہے کیونکہ ‘کسی بھی پیشہ ور کی طرف سے اسے نہیں دیکھا جا رہا تھا، اس سے باقاعدگی سے ملاقات نہیں کی جاتی تھی یا اس کی جانچ نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔’
سارہ کا خیال ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو اس کے والد کی موت کو روکا جا سکتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘اگر ایڈم کو پیشہ ور افراد کی مدد حاصل ہوتی، تو شاید وہ ان سے بات کر سکتا تھا، اگر وہ اس کے ذہن میں جھانک سکتے کہ وہ ممکنہ طور پر کیا کر سکتا ہے، تو شاید وہ اس کی مدد کر سکتے تھے۔’
سارہ کہتی ہیں کہ ایڈم اور روب کے درمیان خوشگوار تعلق تھا
ایڈم پر در اصل قتل کا الزام لگایا گیا ہے لیکن اسے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے نااہل سمجھا گیا ہے۔
اس کی وجہ سے حقائق کا ٹرائل ہوا، جس کا استعمال اس بات کا تعین کرنے کے لیے کیا جاتا تھا کہ آیا کسی نے کوئی فعل کیا ہے یا نہیں نہ کہ اس بات کے لیے کہ کوئی مجرم ہے یا نہیں۔ بہر حال اس ٹرائل کے بعد اپریل میں اسے ہسپتال میں داخل کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
جیوری نے پایا کہ ایڈم نے دو ہفتے قبل اپنی اینٹی سائیکوٹک دوا لینا بند کر دیا تھا لیکن اس نے قتل سے ایک دن پہلے دوا کی خوراک لی تھی۔
ایڈم اور روب اس وقت کمبریا منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ سارہ کے پارٹنر جیمز نائٹ کا خیال ہے کہ یہ منتقلی ایڈم کے لیے دباؤ کا باعث تھی۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا: ‘مجھے لگتا ہے کہ شاید اس سے ایڈم قدرے پریشان ہو گیا ہوگا اور چونکہ اس لمحے میں این ایچ ایس کی طرف سےاسے کوئی مدد حاصل نہیں تھی، اور اسے سالوں پہلے بھی زیادہ مدد نہیں ملی تھی، مجھے یقین ہے کہ یہ سب ایڈم کے لیے دباؤ کا سبب ہوا ہوگا۔
‘مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہ نظروں سے اوجھل اور دماغ سے باہر والا معاملہ ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب اسے جو مدد مل رہی ہے اسے برسوں پہلے سے ملنی چاہیے تھی۔’
سارہ اپنے بھائی کے قریب ہیں اور جو کچھ ہوا وہ اس کے لیے اسے مورد الزام نہیں ٹھہراتیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘کچھ بھی ہو، میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔ میں اس سے ناراض بھی نہیں ہوں۔ مجھے صرف اس کے لیے بہت افسوس ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انھوں نے ایڈم کو معاف کر دیا ہے تو سارہ فوراً جواب دیتی ہیں: ‘ہاں، میں نے کر دیا۔’
انھیں یقین ہے کہ ان کا بھائی اگر صحیح الدماغ ہوتا تو اس نے کبھی اپنے والد کو نقصان نہیں پہنچایا ہوتا۔
‘انھوں نے مزید کہا کہ ‘اس کا یہ مطلب نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ وہ بھی یہی کہے گا، کہ اسے بہت پچھتاوا ہے۔’
سارہ اور ان ک ساتھی دماغی بیماری کے بارے میں بیداری پھیلانا چاہتے ہیں
مینٹل ہیلتھ ہومیسائیڈ چیریٹی ‘ہنڈریڈ فیملیز’ سے تعلق رکھنے والے جولین ہینڈی کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال سنگین ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کے ذریعہ 100 سے 120 قتل ہوتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر شکار خاندان والے ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ‘میں نے اس صورتحال میں بہت سے خاندانوں کو دیکھا ہے اور اکثر اس شخص کی معاف کر دیا جاتا ہے جس نے یہ کیا ہے۔’
‘میرے خیال میں اکثر خاندانوں سے جو ہمیں سننے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ‘لوگوں کو نگہداشت اور علاج حاصل کرنے میں ایک المیہ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟’۔
انھوں نے مزید کہا کہ لوگوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جنھیں دماغی صحت کے سنگین مسائل ہیں اور وہ بیماری کی حالت میں دوسروں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں اور ‘اکثر ان کی حفاظت میں ناکامی ہو جاتی ہے۔’
سی پی ایف ٹی اور مقامی نگہداشت کے نظام کا کہنا ہے کہ وہ انفرادی معاملات پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کی شراکت دار ہیں اور ان کا مقصد صحت اور دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنا ہے۔
دی سیفر پیٹربرو پارٹنرشپ نے کہا کہ یہ کیس گھریلو قتل سے مشروط ہوگا اور اس سے یہ دیکھنے کو ملے گا کہ آیا اس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اس طرح کے معاملے میں اہل خانہ اور دوستون کو شامل کرنا قابل قدر ہوگا۔
سارہ کو امید ہے کہ اس پر بات کرنے سے حکام تک یہ پیغام جائے گا کہ ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا لوگوں کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔
وہ اپنے بھائی سے باقاعدگی سے بات کرتی ہیں لیکن جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بات کرنے کے بجائے ان کی گفتگو کا محور روز مرہ کی چیزیں ہوتی ہیں، اکثر ان کے مشاغل کے بارے میں جن میں پینٹنگ اور جم جانا شامل ہے۔
سارہ کہتی ہیں: ‘میں اس کی صحت اور اس کی خاطر بات چیت کو زیادہ سے زیادہ معمول کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ہم صرف آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
Comments are closed.