گوا:وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرپرہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ان خیالات کا اظہاروزیر خارجہ بلاول بھٹو نے جمعہ کوبھارت کے ساحلی اور سیاحتی شہر گووا میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،ایس سی او کے وزرائے خارجہ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس جے شنکر، ایس سی او کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور ایس سی او کے سیکرٹری جنرل نے اجلاس میں شرکت کی۔
بلاول نے کہا کہ ایس سی او کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی میرے لیے اعزاز کی بات ہے، مشترکہ اقتصادی وژن آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی رابطے میں سرمایہ کاری ضروری ہے، سی پیک وسط ایشیائی ریاستوں کو راہداری تجارت کے لیے بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاستوں کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات ایس سی اومقاصد کے خلاف ہیں، پاکستان باہمی اعتماد، مساوات، ثقافتی تنوع کے احترام اور شنگھائی تعاون تنظیم کی اصل روح میں موجود مشترکہ ترقی کے حصول کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتا ہے اور وہ ان پر پوری طرح عمل پیرا ہے، مشترکہ ترقی کے لیے علاقائی اور اقتصادی روابط ضروری ہیں، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو اہم علاقائی پلیٹ فارم سمجھتا ہے، مشترکہ ترقی کا اصول علاقائی، اقتصادی روابط اور تعاون پاکستان کے وژن سے ہم آہنگ ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ، پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہے، افغانستان کی صورتحال نئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ مواقع بھی پیش کرتی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے اس مطالبے کو دہرایا کہ بین الاقوامی برادری عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کرے تاکہ وہ واقعات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان بڑی طاقتوں کے لیے جنگ کا میدان بنتا رہا ہے، ہمیں افغانستان کے بارے میں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہئے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغان حکام پر سیاسی شمولیت کے عالمی طور پر قبول شدہ اصولوں کو اپنانے اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق سمیت تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرنے پر زور دینا جاری رکھنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی افغانستان، خطے اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ بین الاقوامی برادری کے برعکس افغانستان میں دہشت گرد گروپ آپس میں زیادہ تعاون کر رہے ہیں، پاکستان عبوری افغان حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دینے کے اپنے وعدوں کو برقرار رکھیں۔انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے کام کرے تاکہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی حقیقی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔
Comments are closed.