’پھلوں کے ڈبوں میں کوکین‘، منفرد ہیروں کے لیے مشہور شہر جو یورپ میں کوکین سپلائی کا راستہ بن گیا
بیلجیئم کا شہر اینٹورپ دنیا بھر میں اپنے منفرد ہیروں کے لیے مشہور ہے۔ تاہم ایک اور بدنام زمانہ کام بھی وہاں خاصا منافع بخش ثابت ہونے لگا ہے۔ اس شہر کی بندرگاہ کو پورے یورپ میں کوکین سپلائی کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہاں یورپ کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں کنٹینر گزرتے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ یورپ میں کوکین کے لیے مرکزی داخلی راستہ بن چکا ہے اور اس نے شمال مغربی سپین میں گالیشیائی ساحلوں پر بھی سبقت حاصل کر لی ہے جہاں سے چند برس قبل تک منشیات کی اکثریتی ترسیل ممکن ہوتی تھی۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران منشیات ضبط ہونے کے ایک کے بعد ایک ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ سال 2022 کے دوران بیلجیئم کے حکام نے 110 ٹن منشیات برآمد کی جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے 23 فیصد زیادہ تھی۔ یہ اعداد و شمار ملک کی پبلک فنانس سروس نے جاری کیے جو کہ کسٹمز کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔
یہ کتنے بڑے اعداد و شمار ہیں، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ پورپ بھر میں کوکین ضبط ہونے کے مجموعی اعداد و شمار کا 40 فیصد حصہ ہے۔
دوسرے نمبر پر ڈچ پورٹ روٹرڈم ہے جہاں 2022 کے دوران 52.5 ٹن کوکین ضبط کی گئی۔
کوکین ضبط کرنے کی کارروائی سے قبل بیلجیئم کے حکام نے گذشتہ سال متنبہ کیا تھا کہ تمام ضبط شدہ منشیات کو جلانے کے لیے موجودہ سہولیات ناکافی ہیں۔
تاہم یہ اندازے لگائے جاتے ہیں کہ ضبط ہونے والا مال بندرگاہ پر آنے والی کل منشیات کا محض 10واں حصہ ہے۔
یہ سامان بحری جہازوں پر برازیل، ایکواڈور، کولمبیا اور حال ہی میں پانامہ اور کوسٹا ریکا سے پہنچتا ہے۔
مگر ایسی کون سی چیز ہے جو اینٹورپ کو غیر قانونی منشیات کے گروہوں کے لیے بہترین ٹھکانا بناتی ہے؟
بیلجیئم کی سرکاری فنانس سروس کی ترجمان فلورینس انگلیسی کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اینٹورپ کی بندرگاہ بہت بڑی ہے۔
یہ کوئی عام بندرگاہ نہیں بلکہ قریب 130 مربع کلومیٹر پر پھیلا خطہ ہے جو فرانس کے شہر پیرس سے بھی بڑا ہے۔
سامان کے وزن کے اعتبار سے یہ نیدرلینڈز میں روٹرڈم سے چھوٹا ہے۔ تاہم اینٹورپ کے پاس وسیع جگہ ہے۔ اس کے پاس 160 کلومیٹر پر پھیلے شپنگ ڈاکس (گودیاں) ہیں جبکہ ڈچ بندرگاہ میں یہ تعداد 70 ہے۔
انگلیسی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اس کے نیچے سے سڑکیں گزرتی ہیں حتیٰ کہ اندر علاقے بھی آباد ہیں کیونکہ بندرگاہ بہت پھیل چکی ہے اور اس کی نگرانی مشکل ہوتی ہے۔‘
اس شہر جیسی بندرگاہ کے داخلی اور خارجی راستوں کی نگرانی نہ ہونے پر یہ علاقہ منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے وابستہ افراد کے لیے جنت بن گیا ہے۔ وہ وہاں معلومات جمع کر کے اور تعلقات بنا کر کسی نہ کسی طریقے سے منشیات بندرگاہ سے باہر لے جاتے ہیں۔
پال میئر ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں اس کا بخوبی علم ہے۔ سال 2007 میں انھیں یورپ میں منشیات سمگل کرنے کے الزام میں 12 سال قید ہوئی تھی۔ تاہم اب وہ اپنی غلطی سدھارنے اور اینٹورپ کو منشیات سے پاک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماضی میں وہ اور ان کا گروہ جرمنی میں ہیمبرگ اور فرانس میں مارسئی کی بندرگاہوں سے منشیات چھپا کر لانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ مگر ان کا خیال ہے کہ اینٹورپ میں یہ کہیں زیادہ آسان ہے۔
میئر نے بی بی سی کے یورپی نامہ نگار نِک بیک کو بتایا کہ ’بندرگاہ کھلی ہوتی ہے۔ آپ اندر جا سکتے ہیں اور کام شروع کرنے کے لیے تمام تر معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ ٹرک ڈرائیورز سے بھی مل سکتے ہیں اور وہاں کام کرنے والے لوگوں سے بھی۔ آپ جہاز کا نام بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘
اب تک صرف 350 کسٹم ایجنٹ آنے والے سامان کی نگرانی کرتے ہیں۔ سرکاری فنانس سروس کی ترجمان کے مطابق یہ نمبر ناکافی ہے اور منشیات کی روک تھام کے لیے مزید 108 افراد تعینات کیے جائیں گے۔
پھلوں کے نام پر کوکین کی سمگلنگ
انگلیسی کے مطابق ان راستوں کی نگرانی مشکل ہے۔ ’یہ لاطینی امریکہ سے یورپ پھلوں کی ٹرانسپورٹ کا تاریخی راستہ ہے۔
’بندرگاہ میں ریفریجریٹڈ ٹرمینلز ہیں اور ان پھلوں کو وصول کرنے کے لیے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں۔‘
یہ بحر اوقیانوس کے ان طے شدہ راستوں میں سے ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں کنٹینرز گزرتے ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کنٹینروں میں کوکین بھر کر یورپ میں اس کی ترسیل کرتے ہیں۔
منشیات کے ڈیلروں نے ایک تخلیقی انداز اپناتے ہوئے یہ حکمت عملی بنائی ہے۔ بیلجیئم کے کسٹمز حکام نے منشیات چھپانے کے نت نئے طریقے بھی بے نقاب کیے ہیں۔
انگلیسی نے بتایا کہ ’مثلاً وہ کیلے اور دیگر پھل استعمال کرتے ہیں اور ڈبوں کے بیچ کوکین بھر دیتے ہیں۔ وہ اناناس بھی استعمال کرتے ہیں اور اس میں سوراخ کر کے پھل کے اندر کوکین ڈال دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایسے کنٹینروں میں فریج نصب ہوتا ہے اور منشیات چھپانے کے لیے کولنگ سسٹم میں موجود جگہوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ترجمان نے بتایا کہ منشیات کے تھیلے لکڑی کے ٹرنک میں بھی چھپائے گئے اور حتی کہ مائع کوکین کو کپڑوں پر بھی لگا دیا گیا۔
’جب کسٹمز ایجنٹس نے ڈبے کھولے تو انھیں محض کپڑے نظر آئے لیکن جب انھوں نے مزید چھان بین کی تو اندازہ ہوا کہ کوکین ان کپڑوں کے دھاگوں میں رچ بس چکی ہے۔‘
تاہم بندرگاہ کی نگرانی میں کوتاہیوں کے باعث اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بغیر کسی بڑے انتظام کے، کوکین براہ راست کنٹینروں میں بھر دی جاتی ہے۔
ایسے میں جرائم پیشہ گروہ کوکین چھپائے بغیر انھیں پیکٹوں کی شکل میں کنٹینر کے اندر رکھ دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے سپورٹس بیگ استعمال ہوتے ہیں جنھیں ٹرانسپورٹ کرنا آسان ہے۔
کئی واقعات میں کمپنیوں کو اس کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے کارگو کو منشیات کی سمگلنگ کرنے والے گروہ راستے میں ہی روک چکے ہیں۔
انگلیسی نے بتایا کہ ’جب یہ کنٹینر بندرگاہ پر پہنچتے ہیں تو ٹرمینل پر موجود کچھ لوگ پہلے سے اس کے انتظار میں وہاں موجود ہوتے ہیں اور شاید 100 سے 200 کلوگرام کوکین اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘
بعض اوقات یہ لوگ کوکین کو بندرگاہ سے باہر نہیں نکالتے بلکہ اسے دوسرے کنٹینر میں منتقل کر دیتے ہیں تاکہ وہ پکڑے نہ جائیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کن کنٹینروں کی جانچ نہیں ہوگی یا کون سے کنٹینروں کی جانچ پہلے سے ہوچکی ہے۔
یورپی یورنین میں سامان کے بعض کنٹینروں کی جانچ نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک ملک سے دوسرے ملک آ رہے ہوتے ہیں۔ یوں یورپ کے دل میں واقع اینٹورپ سے کوکین فرانس یا جرمنی جیسے ملکوں میں پہنچانا مزید آسان ہوجاتا ہے۔
یوروپول کے مطابق کوکین کی اکثر ترسیل نیدرلینڈز سے ممکن ہوتی ہے جہاں سے جرائم پیشہ گروہ اسے یورپ بھر میں پھیلا دیتے ہیں۔
کھپت میں اضافہ
بڑے پیمانے پر منشیات ضبط ہونے کے باوجود ترسیل پوری طرح رُکتی نہیں۔ یورپی ادارے اس سے باخبر ہیں کیونکہ سڑکوں پر کوکین کی قیمت بڑھی نہیں ہے بلکہ کچھ جگہوں پر کم ہوئی ہے۔
انگلیسی کہتی ہیں کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ لاطینی امریکہ میں کاشت کا طریقہ بدلا ہے۔ اب وہاں جینیٹکلی ماڈیفائیڈ پودے ہیں۔ ایک کی بجائے اب سال میں آپ تین بار کاشت کر سکتے ہیں۔‘
یوں پیداوار بڑھے تو سمندری راستوں سے اس کی ترسیل بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ’ہم جتنا زیادہ مال ضبط کرتے ہیں، ان کی اتنی شکست ہوتی ہے۔ تو انھیں نقصان کم کرنے کے لیے زیادہ منافع کمانا پڑتا ہے۔ مگر ایک اور وجہ بھی ہے کہ زیادہ کوکین یہاں کیوں آ رہی ہے۔‘
یہ یورپ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی منشیات میں سے ہے۔ گذشتہ برسوں میں قیمت گرنے سے اس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ بات یوروپول کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں سامنے آئی جو منشیات کی لت پر نظر رکھنے والے یورپی اداروں نے کوکین کی مارکیٹ پر تیار کی۔
کوکین فروخت کرنے والے ڈیلر صارفین کو ایسی پیشکش کرتے ہیں جو ان کے لیے ٹھکرانا ناممکن ہوتا ہے: جیسے دو کے ساتھ ایک پیکٹ مفت۔
کئی بار تو کوکین خریدنے کے لیے کسی کو رات کے اندھیرے میں بند گلیوں میں بھی نہیں جانا پڑتا۔ بلکہ قائم کردہ نیٹ ورک پر ایک واٹس ایپ پیغام کافی ہوتا ہے اور کوکین آپ کے گھر پہنچ جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2020 میں کوکین کی یورپی مارکیٹ کی مالیت 11.3 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اس کا تیسرا حصہ منشیات کی سمگلنگ سے کمایا جاتا ہے۔ گانجے کے بعد یہ غیر قانونی منشیات کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔
جہاں جہاں اس کاروبار کا پیسہ پہنچتا ہے، وہاں وہاں جرائم پیشہ افراد کی منظم کارروائیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
اینٹورپ ماضی میں خاموش شہر ہوا کرتا تھا تاہم حالیہ برسوں میں جرائم پیشہ ڈرگ گینگز سے جڑے پُرتشدد واقعات بڑھے ہیں۔ اس دوران شہری فائرنگ اور دھماکوں کے واقعات سے خوفزدہ ہوئے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایک 11 سال کی لڑکی فائرنگ میں ہلاک ہوئی تھی۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 200 پُرتشدد واقعات ہوچکے ہیں جو کہ ہمسایہ ملک نیدرلینڈز میں تو معمول تھا مگر اینٹورپ میں نہیں۔
منشیات سے جڑے دہشتگرد گروہوں کو ’میکرو مافیا‘ کا لقب دیا گیا ہے جو کہ تحقیقاتی صحافی پیٹر آر ڈی ویریز کے مطابق نیدرلینڈز سے ابھرے اور متعدد قتل کے واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ وکیل ڈیرک ویرسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے ایمسٹرڈیم میں اس گروہ کے خلاف گواہی دی۔
بلیجیئم کے وزیر انصاف ونسنٹ وان کوئیکر بورن نے ان کی سکیورٹی بڑھا دی تھی جب چار ڈچ مشتبہ افراد کو مبینہ طور پر ان کے اغوا کے منصوبے پر گرفتار کیا گیا۔
Comments are closed.