سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس کریم خان آغا نے پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ، آئی جی سندھ اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ عدالت نے ملزمان کو 21 نومبر کو بری کرنے کا حکم دیا تھا، ملزمان کو رہا کیوں نہیں کیا گیا؟ کس کی رپورٹ پر ان کی نظر بندی کی گئی، ان کے خلاف کیا شواہد تھے؟
آئی جی سندھ نے عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ انٹیلی جنس رپورٹ اور مدعیہ عقیلہ اسماعیل کی درخواست بھی تھی، ہم مدعیہ کی درخواست پر کام کر رہے ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کو ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیتے ہیں، آپ کیا شواہد پیش کریں گے؟
عدالت نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ ان ملزمان کے خلاف کیا کرمنل ریکارڈ ہے، کوئی ریکارڈ نہیں ہے تو پھر کس طرح ان ملزمان کو بڑے مجرم کا نام دے دیا گیا؟
جسٹس کریم خان آغا نے آئی جی سندھ سے کہا کہ آپ کے محکمے کی انویسٹی گیشن سے مطمئن نہیں، خراب انویسٹی گیشن پر متعدد بار تنبیہ کر چکے۔
آئی جی سندھ نے استدعا کی کہ ہمیں ایک اور چانس دیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ آپ سب کے خلاف خراب انویسٹی گیشن پر کارروائی ہونی چاہیے، ریکارڈ ظاہر کریں کہ وہ ملزمان کرمنلز تھے، آپ نے عدالت کو کوئی ثبوت نہیں دیے، ایس ایس پی، ڈی آئی جی سب بتائیں کہ عدالت کو کون سے ثبوت دیے؟ ملزمان کو 90 روز کے لیے کیوں بند کرنا چاہتے ہیں؟ وضاحت دیں، آپ نے جس طرح انویسٹی گیشن کی، فیصلے میں سب لکھ دیا ہے۔
جسٹس کریم خان آغا نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی انویسٹی گیشن سے بالکل مطمئن نہیں، انف از انف، بس بہت ہو گیا، انتہائی معذرت کے ساتھ ہم پولیس افسران کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، ان سب پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہو گی، ایڈووکیٹ جنرل دیکھیں کہ ان پولیس افسران کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ آفس کو پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی۔
جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ یہاں ایم پی او کی وضاحت بھی دیں۔
سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس ایشو پر کوئی کمیشن بنا دیا جائے۔
عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ انف از انف، اب کوئی کمیشن نہیں بنے گا، ملزمان کی بریت اور ایم پی او میں 9 دن کا دورانیہ ہے، بتائیں، ان 9 دنوں میں ملزمان نے کوئی مشتبہ حرکت کی؟ ملزمان کے سی ڈی آر، انٹیلی جنس رپورٹس سے ثابت کریں۔
آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ 2 مختلف اداروں کی جانب سے رپورٹ دی گئی ہے، ایک رپورٹ انٹیلی جنس بیورو کی ہے جبکہ دوسری اسپیشل برانچ کی ہے۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ نظر بندی کا نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت آپ کے سامنے کیا مواد تھا؟
ایس ایس پی غربی نے استدعا کی کہ مجھے صرف 2 منٹ کا وقت دے دیں۔
عدالت نے کہا کہ جی بالکل آپ کو ٹائم دیا جائے گا۔
ایس ایس پی غربی نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں مقتولہ کی بہن کی جانب سے خط لکھا گیا تھا۔
عدالت نے سوال کیا کہ مقتولہ کی بہن کے خط پر ریسیونگ اسٹیمپ کہاں ہے؟
ایس ایس پی غربی نے بتایا کہ میں ان کے دفتر گیا تھا جہاں انہوں نے ذاتی طور پر یہ خط دیا ہے۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری ان ملزمان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، مقتولہ کی بہن نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا ہے۔
جسٹس کریم خان آغا نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کا مت بتائیں، نظر بندی کے نوٹیفکیشن سے پہلے آپ کے پاس کیا مواد تھا وہ بتائیں، ہمیں صرف یہ وضاحت کریں کہ ملزمان کو 3 ماہ کے لیے کیوں نظر بند کیا گیا۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پروین رحمٰن نے بھی 2013ء میں دھمکیوں کا بتایا تھا، اس میں ہماری کوئی بدنیتی شامل نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ بدنیتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ ہم اس کیس میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔
جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ کیا بات کر رہے ہیں کس بات کی مزید تحقیقات؟ ہم ملزمان کو بری کر چکے ہیں۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ہم مقتولہ کو دی گئی دھمکیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
عدالت نے آئی جی سندھ سے کہا کہ صرف ایک رپورٹ ہے اسپیشل برانچ کی، وہ آپ کے ماتحت ہے۔
آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ مجھے انٹیلی جنس بیورو کے ہیڈ کی کال آئی تھی، عدالت چاہے تو دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ ہمیں بس پتہ ہے کہ مسنگ پرسن کیسز میں جو ہو رہا ہے۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔
عدالت نے آئی جی سندھ سے کہا کہ ہم آپ کو وضاحت کا مکمل موقع دے رہے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ میڈیا پر آیا ہے کہ خطرناک ملزمان بری ہو گئے ہیں، آپ نے صرف اپنا کام کیا ہے۔
سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ میرے پاس جو مواد آیا اس کا جائزہ لینے کے لیے 6 دن لگائے، تمام مواد کا جائزہ لینے کے بعد نظر بندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
’’لگتا ہے آپ کو انگریزی سمجھ نہیں آتی‘‘
جسٹس کریم خان آغا نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ اس سے پہلے بھی دو دفعہ ہو چکا ہے، ہمیں سب پتہ ہے، کیا آپ نے کبھی کسی کی نظر بندی کی درخواست مسترد کی ہے؟ لگتا ہے کہ آپ کو انگریزی سمجھ نہیں آتی۔
سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ مجھے انگریزی آتی ہے۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ کئی ٹارگٹ کلرز بری ہوئے، ایم پی او کے تحت انہیں کیوں بند نہیں کیا گیا؟ مقتولہ کی بہن کو سیکورٹی دینے کے بجائے ملزمان کو ایم پی او کے تحت نظر بند کر دیا گیا۔
عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو سندھ حکومت سے مشاورت کی مہلت دیتے ہوئے مزید سماعت 12 بجے تک ملتوی کر دی اور ہدایت کی کہ آئی جی سندھ اور سیکریٹری داخلہ 12 بجے دوبارہ پیش ہوں۔
سندھ ہائی کورٹ میں وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی، اس موقع پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور سیکریٹری داخلہ عدالت میں دوبارہ پیش ہوئے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے بتایا کہ متاثرہ افراد کو وضاحت کا موقع دیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن میرٹ کے خلاف ہے، مفروضوں اور افواہوں کی بنیاد پر نظر بندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جو آئین کے خلاف اور غیر قانونی ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار نے ایم پی او کے قانون کو چیلنج نہیں کیا ہے، ملزمان کی نظر بندی میں نہ میڈیا کا دباؤ ہے، نہ ہی بدنیتی ہے، انٹیلی جنس رپورٹ ہمیشہ مکمل صورت میں نہیں ہوتی ہیں، نظر بندی کا نوٹیفکیشن درست جاری کیا گیا ہے۔
عدالت نے پروین رحمٰن قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
عدالتِ عالیہ میں ملزم رحیم سواتی کی جانب سے نظر بندی کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔
Comments are closed.