سورج کے مرکز میں ہائیڈروجن اور ہیلیم کے درمیان کیمیائی عمل جاری ہے، جس کی وجہ سے روشنی اور حرارت بھی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ لوہا بھی بنتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق معدنیات بننے کے باعث سورج کا حجم آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور یہ آج سے تقریباً 5 ارب سال بعد اتنا بڑا ہوجائے گا کہ نظام شمسی کے پہلے 2 سیاروں عطارد اور زہرہ، کو تو اپنے اندر نگل ہی لے گا۔
تاہم زمین بھی سورج میں ضم ہوجائے گی، اس حالت میں سورج انتہائی لال دیو کی طرح ہوگا اسی وجہ سے اسے فلکیاتی اصطلاح میں ’’ریڈ جائنٹ‘‘ کہتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق جب سورج ریڈ جائنٹ کی حالت میں پہنچ جائے گا تو یہ مزید بڑا نہیں ہوسگے گا بلکہ باقی ستاروں کی طرح پھٹ جائے گا اور صرف اس کا مرکز، جو اس وقت اس کے اپنے حجم سے قدرے چھوٹا ہے وہ رہ جائے گا۔
چونکہ سورج کا مرکز، چھوٹا اور سفید روشن ستارے کی مانند ہے، اس لیے اسے ’سفید بونا ستارہ‘ یا ’وائٹ ڈوارف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سورج کے پھٹنے کے بعد خلاء میں بکھرا مادّہ بالکل اسی طرح ہی لگے گا جیسے آج ہم آسمان میں نیبولا دیکھتے ہیں، جن میں سب سے مشہور ’’اورائین نیبولا‘‘ ہے۔
اس کے بعد یہ مادّہ ضیاع نہیں ہوگا، بلکہ اس سے اور بہت سے ستارے وجود میں آئیں گے۔
سائندانوں کے مطابق سورج کی موت کے وقت اور اس کے بعد زمین کا وجود نہیں ہوگا اور نہ ہی زمین پر بسنے والے لوگوں کا کوئی پتہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ تب تک انسان کائنات کے کسی اور ستارے کے گرد کسی اور کرہ ارض کی کھوج کر کے وہاں منتقل ہو چکے ہوں۔
Comments are closed.