بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان میں امریکہ کا قیام امن کا منصوبہ امید کی کرن یا مزید بربادی کا پیش خیمہ؟

افغان امن عمل: افغانستان میں امریکہ کا قیام امن کا منصوبہ امید کی کرن یا مزید بربادی کا پیش خیمہ؟

افغانستان

افغانستان میں قیام امن اور مستقل جنگ بندی کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایک نیا پلان اور ایک خط منظر عام پر آیا ہے جس میں افغانستان میں امن کے عمل کے لیے نئی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ اینٹونی جان بلینکن کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی اور امن کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو بھیجے گئے خط میں (جس کی کاپی بی بی سی کو بھی ملی ہے) اُنھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کی صورت میں سکیورٹی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور مزید علاقے طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں۔

کابل میں افغان صدارتی محل نے اس خط کی وصولی کی تصدیق کی ہے تاہم ابھی تک باضابطہ طور پر اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تاہم افغان نائب صدر امراللہ صالح نے نئے امریکی منصوبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے میں افغان عوام کے ووٹ کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے اور وہ کسی کو بھی افغان عوام کا یہ حق چھین لینے کا اختیار نہیں دے سکتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن کسی کی زبردستی نہیں مانیں گے۔

افغان امن کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیلزاد

امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیلزاد نے حال ہی میں کابل میں افغان حکام سے بات کی

خط میں کہا گیا ہے کہ تمام افغان فریق آپس میں جلد سے جلد جنگ بندی پر متفق ہوں تاکہ امن کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ اسی خط کے ساتھ بیک وقت افغان امن عمل کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک نیا پلان بھی منظرعام پر آیا ہے جس میں ایک ایسی نگران حکومت بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔

ساتھ ہی تمام فریقین پر مشتمل آئین میں ترامیم کے لیے ایک کمیشن کے قیام اور جنگ بندی کے لیے سیاسی روڈ میپ پر زور دیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ افغان امن عمل کے سلسلے میں بہت جلد اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پاکستان، روس، چین، ایران اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک اجلاس بھی بلایا جائے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے یہ خط اور نیا پلان ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئے ہیں جب افغانستان کے لیے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے پچھلے دنوں کابل میں افغان حکام اور دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد پیر کو اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔

دوحہ معاہدہ

امریکہ اور طالبان کے درمیان تقریباً دو برس تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد 29 فروری 2020 کو قطری دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے اہم نکات میں 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا انعقاد، تشدد میں کمی، مئی 2021 تک غیر ملکی افواج کا انخلا، اور افغان سر زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی وغیرہ شامل ہیں۔

دوحہ میں طالبان کا وفد

گزشتہ چھ ماہ سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے

اس معاہدے سے یہ اُمید پیدا ہو گئی تھی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 18 سالہ جنگ اور افغان سرزمین پر گذشتہ چار عشروں سے جاری بدامنی ختم ہو جائے گی۔

لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے افغان عوام میں ناامیدی بڑھتی گئی۔ پہلے اس معاہدے پر امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات سامنے آئے جس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اختلافات پیدا ہو گئے۔ تاہم بظاہر وہ اختلافات ختم ہو گئے مگر اس کی وجہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز تقریباً چھ ماہ کی تاخیر سے ستمبر میں ہوا۔

دوحہ میں ہونے والے امریکہ-طالبان معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی۔ تاہم گذشتہ دنوں نیٹو کے اجلاس میں یہ عندیہ دیا گیا کہ اگر افغانستان میں حالات ایسے ہی کشیدہ رہے تو اس کی افواج اس مقررہ مدت کے بعد بھی افغانستان میں رہ سکتی ہیں۔

طالبان پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔

امید کی کرن یا بربادی کا پیش خیمہ

لندن میں مقیم افغان صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسفزئی امن عمل کے اس نئے پلان کو اس ’عمل کا خاتمہ‘ سمجھتے ہیں۔ اُن کے مطابق اتنے کم وقت میں کوئی اہم پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

‘یہ آخری کوششیں ہیں کیونکہ امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس کم عرصے میں اگر یہ کوششیں ناکام رہیں تو افغانستان بہت بڑی تباہی کی جانب چلا جائے گا۔’

ہلمند

پچھلے کچھ عرصے کے دوران افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے

اس سلسلے میں وہ افغان نائب صدر امراللہ صالح کے ردعمل کو حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اُن کے بقول ‘افغان یہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ بیس برسوں میں وہ جتنے آگے جا چکے ہیں، واپس نہیں جانا چاہتے ہیں۔’

سمیع یوسفزئی کے مطابق اگرچہ افغان آرمی اتنی طاقتور نہیں کہ وہ پورے ملک میں اپنی رٹ قائم کر سکے لیکن وہ کابل پر طالبان کا دوبارہ قبضہ نہیں ہونے دے گی۔

تاہم پاکستانی صحافی اور افغان اُمور پر گہری نظر رکھنے والے طاہر خان سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے یہ نیا فارمولہ بحالتِ مجبوری پیش کیا ہے، کیونکہ بین الافغان مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہی نہیں ہورہی تھی، ‘پانچ ماہ میں افغان حکومتی وفد اور طالبان ایجنڈے پر متفق نہیں ہوئے تو اب جب مرحلہ جنگ بندی اور مستقبل کے نظام کا آئے گا تو اُس میں تو سالوں سال لگ جائیں گے۔’

امریکہ جو کرے گا پاکستان کم سے کم ان کی مخالفت نہیں کرے گا

پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ کے اس نئے پلان پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن بعض ذرائع کے مطابق افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے دورۂ اسلام آباد کے دوران سیاسی اور فوجی قیادت سے دیگر موضوعات کے ساتھ اس نئے پلان پر بات چیت کی ہے۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ افغان امن عمل میں افغان خود جو بھی فیصلہ کریں گے پاکستان اس کی حمایت کرے گا۔ ان کے بقول پاکستان نے اسی لیے بین الافغان مذاکرات سے خود کو دور رکھا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو افغان عوام پاکستان سے ناراض ہو جائیں گے۔

طاہر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس نئے امریکی فارمولے کی حمایت کرے گا، ’میری نظر میں امریکہ جو کرے گا پاکستان کم سے کم ان کی مخالفت نہیں کرے گا اور پاکستان کافی حد تک اُس کو سپورٹ کرے گا۔‘

تو کیا آج بھی انتخابات کے ذریعے ہی اقتدار منتقل کرنے پر مصر صدر غنی کیا اقتدار کی منتقلی کے نئے منصوبے کی حمایت کریں گے؟ ایک افغان سیاست دان نے اس سب کو ایک افغان کہاوت کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ‘اگر آپ سکول نہیں جاتے تو آپ کو سکول لے جایا جائے گا۔’ دوسرے لفظوں میں شاید صدر غنی کے پاس کوئی چارہ نہ ہو۔

کہ ‘افغانستان میں قیامِ امن کی بنیادی ذمہ داری تو افغان متعلقین پر ہے تاہم بین الاقوامی برادری جس کی سربراہی امریکہ کر رہا ہے اس تنازع میں حصہ دار رہا ہے اور ان کی ذمہ داری صرف اپنی فوجوں کی بحفاظت واپسی ہی نہیں ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘ان کے پاس اب بھی افغانستان میں موجود فریقین پر اثرورسوخ ہے اور انھیں اسے استعمال کرتے ہوئے افغان عوام کی مشکلات کو بامعنی مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہیے۔’

تشدد میں تیزی

ایک طرف افغانستان میں طالبان کی مسلح کارروائیوں میں گذشتہ کئی ماہ سے شدید تیزی آئی ہے تو دوسری جانب بین الافغان مذاکرات میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔

افغانستان

اگرچہ دوحہ معاہدے کے بعد طالبان نے افغانستان میں بین الاقوامی افواج پر حملے نہ کرنے کا اعلان کیا تاہم افغان فورسز کے خلاف اُن کے حملوں اور ملک کے لگ بھگ تمام صوبوں میں پرتشدد واقعات میں تیزی آئی ہے۔

اس عرصے میں طالبان نے امریکہ اور بین الاقوامی افواج پر کئی بار الزام لگایا ہے کہ اُنھوں نے طالبان کے ٹھکانوں، حتٰی کہ عام شہریوں پر بھی حملے کیے ہیں۔

دوسری جانب گذشتہ کئی ماہ کے دوران دارالحکومت کابل سمیت مختلف شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے جن میں سرکاری اہلکار، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور ججوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ طالبان ان میں سے بعض واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.