بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

امریکی صدر کے دورۂ سعودی عرب میں کیا اہم رہے گا: اسرائیل سے تعلقات، تیل یا دو طرفہ دفاعی تعاون؟

امریکی صدر کے دورۂ سعودی عرب میں کیا اہم رہے گا: اسرائیل سے تعلقات، تیل یا دو طرفہ دفاعی تعاون؟

  • باربرا پلیٹ اوشر
  • بی بی سی نامہ نگار برائے امریکی دفتر خارجہ

مظاہرہ

،تصویر کا ذریعہMANDEL NGAN

امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی جانب سے صدر جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کا اعلان کیے جانے کے اگلے ہی دن واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے باہر سماجی کارکنوں کا ایک گروہ ‘خاشقجی کی طرح ‘ کے نام سے مظاہرہ کرنے کے لیے اکٹھا ہو گیا تھا۔

انھوں نے اعلان کیا کہ یہ ان سفارت کاروں ‘جو دروازے کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں’ روزانہ کی بنیاد پر ایک یاد دہانی ہو گی کہ سنہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ دار سعودی حکومت ہے۔

اور انھوں نے صدر بائیڈن کے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انٹیلیجنس نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے پر انھیں ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

اس مظاہرے میں شریک جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ نے اصولوں پر تیل اور اقدار پر مصلحت کو ہی ترجیح دینی ہے تو کم از کم کیا آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جمال کی لاش کہاں ہے، کیا وہ مناسب اور باقاعدہ تدفین کا حقدار نہیں ہے؟’

صدر بائیڈن کا دورۂ سعودی عرب اتنا متنازع کیوں؟

بائیڈن

،تصویر کا ذریعہJACK GUEZ

سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے کئی دہائیوں پر محیط تعلقات میں روایتی طور پر امریکی اقدار اور سٹریٹجک مفادات کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات شامل ہیں۔

مگر صدر بائیڈن نے واضح طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیا تھا لیکن اب وہ بھی بدلتے حالات کے پیش نظر سیاسی حقیقتوں کے سامنے جھک گئے ہیں۔ اور انھیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی اقدار پر مبنی ساکھ کھونے کا خطرہ لاحق ہے۔

خاشقجی کے بہیمانہ قتل نے واشنگٹن کی متعصبانہ تقسیم کے دونوں فریقوں کو متحد کر دیا تھا۔ صحافی اور سعودی ولی عہد کے نقاد، خاشقجی کو ترکی کے دارالحکومت استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے میں قتل کرنے کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔

بطور صدارتی امیدوار بائیڈن نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال کے باعث اس سے ‘تعلقات ختم’ کرنے کا عزم کرتے ہوئے ایک واضح لکیر کھینچی تھی۔ انھوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب کی غیر مشروط قبولیت کے برعکس سیاسی بیانیے کو اپنایا تھا۔

سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار کہا تھا کہ انھوں نے خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والے ’اشتعال سے (محمد بن سلمان کی)گردن بچائی ہے۔’

صدر بائیڈن کی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اقتدار میں آنے کے بعد صدر بائیڈن نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت معطل کرتے ہوئے شہزادہ سلمان سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس بارے میں صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں اس حوالے سے شکوک و شبہات تھے کہ کیا یہ اس شخص کے لیے ایک مناسب پالیسی ہے جو جلد ہی سعودی عرب کا حکمران بن جائے گا۔

مگر گذشتہ برس سے اس پالیسی میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور روس کے یوکرین پر حملے نے صدر بائیڈن کو عوامی سطح پر اسے تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ تیل کی بڑھتی قیمتیں تھی۔ امریکہ نے سعودی عرب سے درخواست کی تھی کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت کم کرنے کے لیے وہ مزید پیداوار بڑھائے۔ ریاض نے ابتدائی طور پر ان کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔

مگر صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے اعلان سے چند دن پہلے عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کی نگران تنظیم اوپیک پلس نے، جس کا سعودی عرب سربراہ ہے، تیل کی معمولی پیداوار بڑھانے کی منظوری دی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ستمبر میں تیل کی موجودہ پیداوار کے کوٹے کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد پیداوار میں مزید معمولی اضافے کے لیے سعودیوں کے ساتھ خاموش معاہدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن صدر کے دورے کے دوران اس کے تذکرے کا امکان نہیں ہے۔

سینٹر فار سٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹیڈیز کے ماہر توانائی، بین کاہل کہتے ہیں کہ اس دورے میں حالیہ مشکل دور میں انرجی مارکیٹ کے طویل المدتی انتظام پر توجہ مرکوز ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘میرے خیال میں وائٹ ہاؤس میں یہ احساس ہے کہ انھیں فون اٹھانے اور بہت سی تنظیموں سے، خصوصاً تیل کی دنیا میں جو سعودی عرب سے شروع ہوتی ہے، تعمیری بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔’

بائیڈن

،تصویر کا ذریعہReuters

صدر بائیڈن اپنے دورے سے کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟

لیکن اگر صدر بائیڈن کے اس دورے کے امریکی پیٹرول پپموں پر فوری اثرات سامنے نہیں آتے تو صدر کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟

صدر بائیڈن نے سعودی ولی عہد سے کسی بھی ملاقات یا سامنے کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ عرب کی علاقائی کانفرنس میں شرکت کے لیے جدہ جا رہے ہیں جہاں سعودی ولی عہد شہزاہ محمد بن سلمان بھی موجود ہوں گے۔

انھوں نے اپنے دورے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کی درخواست پر ایسا کر رہے ہیں اور اسرائیل کے خطے میں ‘مکمل طور پر مربوط’ ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا۔

اس دورے کا ایک بڑا مقصد سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد کرنا ہے، جس میں اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ قریبی سکیورٹی تعلقات پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ایران اور اس کے اتحادیوں کے میزائلوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فضائی دفاعی نظام کو مربوط کرنا ہے۔

ایران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں، ایران کے تیزی سے بڑھنے والے جوہری پروگرام، اور ایران کے حمایت یافتہ یمن کے حوثی اتحادیوں کی جانب سے علاقائی میزائل حملوں میں اضافے کے باعث اس منصوبے کو تقویت ملی ہے۔

بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپانسبل سٹیٹ کرافٹ کے پال پِلر اسے ‘ایران کے خلاف عسکری اتحاد’ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اسرائیلی نقطۂ نظر اور خلیجی عرب ممالک کے نقطۂ نظر سے یقیناً یہ تمام تر اقدامات ایران کے خلاف دشمنی اور جارحیت پر مبنی ہیں۔’

تاہم اس اجلاس میں کسی بڑے فیصلے یا پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کوئی خفیہ تعاون کر رہا ہے، لیکن وہ فلسطینی تنازع کو حل کیے بغیر آگے بڑھنے سے ہچکچا رہا ہے۔

تاہم اس سلسلے میں چند چھوٹے فیصلے متوقع ہیں جیسا کہ سعودی فضائی حدود میں اسرائیلی پروازوں کی اجازت، اسرائیل اور مقبوضہ غرب اردن سے مکہ کے لیے مسلمان زائرین کے لیے براہ راست پروازیں، اور بحیرۂ احمر میں مصر اور سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو سمندری راستہ فراہم کرنے کی ضمانت وغیرہ۔

صدر بائیڈن کے سیاسی نقصان کا کیا ہو گا؟

امریکہ میں تمام نظریں صدر بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔ صدر بائیڈن نے حقوق انسانی کے تحفظ کی برادری کو اپنے اس دورے سے کافی مایوس کیا ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ انھیں اپنی ہی ڈیموکریٹک جماعت میں بھاری سیاسی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

دونوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اس دورے کو ‘فتح’ میں بدلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اگر وہ اس دورے میں حقوق انسانی کے تحفظ سے متعلق خدشات پر واضح طور پر بات کریں۔

دونوں فریقین صدر بائیڈن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے دورے کے دوران سعودی عرب پر سیاسی قیدیوں کی رہائی اور کارکنوں پر سفری پابندیوں سمیت دیگر پابندیوں کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ صدر بائیڈن عوامی طور پر اس مطالبے کو دہرائیں کہ خاشقجی کے قاتلوں کا احتساب کیا جائے۔

امریکی کانگریس کی چھ کمیٹیوں کے سربراہوں نے ایک مشترکہ خط میں صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی سرکردگی میں قائم اتحاد کے یمن پر حملوں کو بند کرنے کی حمایت جاری رکھیں۔

سعودی عرب نے رواں برس اس جنگ میں اپنے موقف میں نرمی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے اور یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا ہے۔ صدر بائیڈن نے ان اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امن کے لیے مزید کوششوں کے خواہاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

محمد بن سلمان

،تصویر کا ذریعہEPA

سعودی عرب امریکہ سے کیا چاہتا ہے؟

درحقیقت محمد بن سلمان نے، جو خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری اپنی سکیورٹی فورسز کے بدمعاش عناصر پر ڈالتے ہیں، متعدد امریکی مطالبوں کو پورا کیا ہے اور وہ اس کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ از سر نو تعلقات کے خواہاں ہے جس کا آغاز وہ ایک مضبوط دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔

سابق امریکی انٹیلیجنس اہلکار جوناتھن پانیکوف کا، جو اب اٹلانٹک کونسل کے ساتھ ہیں، کہنا ہے کہ سعودی عرب بھی صدر بائیڈن کے ارادوں کے متعلق وضاحت چاہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ایسا نہیں تھا کہ صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالا اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو تبدیل کر دیا۔ یہ پچھلے 18 مہینوں سے سرد مہری کا شکار ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ کس طرف جا رہے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘تعلقات کے بارے میں ابہام بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ اب تک جو چیز واضح ہے وہ یہ پیغام ہے کہ ہاں ہم آپ کے اتحادی بننے والے ہیں، یا نہیں، ہم آپ کے اتحادی نہیں بن رہے۔’

واشنگٹن میں محمد بن سلمان کے ملک میں اصلاحات کا دفاع کرنے والے ایک مصنف اور مبصر، علی شہابی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس دورے کو ‘تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظر سے بھی دیکھتا ہے کہ سلطنت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ اس بات کی توثیق ہے۔’

ٹرمپ اور محمد بن سلمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا صدر بائیڈن بھی وہ ہی کر رہے ہیں جو ٹرمپ نے کیا؟

صدر بائیڈن نے اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے چیمپیئن ہونے کے دعوؤں کے باوجود، ان کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیاں اپنے پیشرو سے کچھ مختلف نظر آتی ہیں۔

حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں انھوں نے لکھا کہ ‘ہم نے ورثے میں ملنے والی بلینک چیک کی پالیسی کو بدل دیا ہے۔’

مگر انھوں نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ یورپ میں جاری جنگ نے ان کے خطے، خصوصاً سعودی عرب کی سٹریٹیجک اہمیت، کے بارے میں نقطۂ نظر کو تبدیل کرنے میں مدد دی ہے۔

سعودی عرب نے امریکی تعلقات میں سرد مہری کے دوران روس اور چین سے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے لیے امریکی دباؤ کی مزاحمت کی ہے۔ واضح رہے کہ محمد بن سلمان کے روسی صدر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

صدر بائیڈن نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ‘ہمیں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی خود کو بہترین ممکنہ حالت میں رکھنا ہے اور دنیا کے اہم خطے میں زیادہ استحکام کے لیے کام کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہمیں براہ راست ان ممالک سے بات کرنا ہو گی جو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔سعودی عرب ان میں سے ایک ہے۔’

جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک طویل المدتی لین دین پر مبنی ہیں وہیں بائیڈن کی سیاست کو یہ خطرہ ہے کہ ان کے دورہ کے بعد جمال خاشقجی کی موت پر کوئی بامعنی جوابدہی نہ ہونے کا خدشہ ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.