سعودی عرب، اسرائیل تعلقات میں صنافیر اور تیران کے غیر آباد جزائر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
- پاؤلا روسس
- بی بی سی نیوز
تیران اور صنافیر بحیرۂ احمر کے غیر آباد صحرائی جزیرے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا جزیرہ 60 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ دونوں جزیرے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تلخی کو مزید کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حکمت عملی کے لحاظ سے یہ دونوں جزیرے بہت اہم مقام پر واقع ہیں یعنی بالکل خلیج عقبہ کے دھانے پر۔ اُردن کی بندرگاہ عقبہ اور اسرائیل کی بندرگاہ الت اس کے قریب واقع ہیں۔ تاریخی طور پر دونوں جگہیں ہنگاموں کی وجہ سے مشہور ہیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز ان جزائر کے توسط سے کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے حال ہی میں مراکش، بحرین، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا شروع کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کی تمام فضائی کمپنیوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں اسرائیل ایئرلائنز بھی شامل ہیں، جس پر اب تک پابندی عائد تھی۔ یہ اعلان امریکی صدر جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران کیا گیا۔
اسرائیل، مصر سے سعودی عرب کو تیران اور صنافیر کی خود مختاری کی منتقلی کو تسلیم کر سکتا ہے۔ اگرچہ ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
سنہ 2017 میں مصر کی اعلیٰ عدالت نے مصر اور سعودی عرب کے درمیان سرحدی معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تیران اور صنافیر کے جزیروں پر مصر کی حاکمیت قائم ہے اور اسے کسی دوسری ریاست کے حق میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم فوجی صدر عبدالفتح السیسی نے یہ جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے۔
مبصرین کے مطابق اس کے بدلے عبدالفتح السیسی نے نہ صرف امداد حاصل کی بلکہ اپنے اقتدار کے لیے بھی سعودی حمایت کو یقینی بنایا۔
ان جزائر کی اہمیت کیا ہے؟
تیران آبنائے کا نام ہے جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر اور صنافیر کے باقی حصوں سے ملاتی ہے۔ مصر نے سنہ 2018 میں ان دونوں جزیروں کی خودمختاری سعودی عرب کے حوالے کر دی تھی۔ لیکن اس کے لیے اسرائیلی حکومت کو اپنی منظوری دینا ہو گی۔
اسرائیل اور مصر کے درمیان سنہ 1978 میں امن معاہدہ ہوا تھا اور اس سے دونوں کے درمیان 30 سال پرانا تنازع ختم ہوا۔ لیکن اس معاہدے کے لیے ضروری تھا کہ تیران اور صنافیر سے افواج کا مکمل انخلا کیا جائے۔
یہ عمل کثیر سطحی فوجی نگرانی میں ہونا چاہیے۔ یہ نگرانی اس معاہدے کے نفاذ کے لیے ضروری تھی تاہم سعودی عرب چاہتا ہے کہ یہ امن دستہ ان جزائر سے نکل جائے۔
تاہم امریکہ کئی مہینوں سے مصر، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خفیہ طور پر ثالثی کر رہا ہے۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس لیے وہ دو طرفہ معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کا کردار
اگر اسرائیل اپنے فوجیوں کو سینائی سے جنوب کی طرف منتقل کرنے اور جزائر پر نگرانی کے کیمرے نصب کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تو اس سے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں ایک بڑی رکاوٹ ختم ہو جائے گی۔
لیکن یہ جزیرے اتنے اہم کیوں ہیں؟ اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے آپ کو دہائیوں پیچھے جانا پڑے گا۔ خاص طور پر جنگ سینا اور ریاست اسرائیل کے قیام کے دوران۔ مصر اور سعودی عرب کے درمیان ان جزائر کی خود مختاری کی جنگ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
مصر کا کہنا ہے کہ مملکت سعودی عرب کے قیام سے قبل سنہ 1906 میں سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت مصر کا ان جزائر پر حق تسلیم کر لیا گیا۔
تقریباً نصف صدی بعد تک ان جزائر پر کوئی آبادی نہیں تھی۔ سنہ 1950 میں سعودی عرب نے مصر کو وہاں اپنی فوج تعینات کرنے کی اجازت دی تاکہ نئی بننے والی اسرائیلی ریاست کو توسیع کا موقع نہ مل سکے۔
سنہ 1967 میں، مصر کے قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر نے ان جزائر کو آبنائے تیران کو بند کرنے اور اسرائیلی بندرگاہ الات تک رسائی کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے اسرائیل اور بحیرہ احمر سے رابطہ منقطع کر دیا۔
اس کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے مصر کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے نہ صرف اس جزیرے پر قبضہ کر لیا بلکہ انھوں نے پورے جزیرہ نما سینائی پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسے سنہ 1982 میں واپس کیا گیا۔ یعنی تین سال بعد ایک معاہدے کے تحت یہ سب ممکن ہوا۔
مصر اور سعودی عرب کا تنازع
اگرچہ مصر کئی دہائیوں سے تیران اور صنافیر پر سعودی عرب کے دعوؤں کی تردید کرتا رہا ہے، لیکن سنہ 2016 میں مصری صدر عبدالفتح السیسی نے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان عبدالعزیز آل سعود سے وعدہ کیا تھا کہ یہ ان کے ملک کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
صدر عبدالفتح السیسی کے اس فیصلے کی ان کے ہی ملک میں مخالفت کی گئی۔ صدر سیسی نے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تھی لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مصر کو دی گئی 25 ہزار ملین ڈالر کی مدد نے اس معاہدے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
لیکن اس اعلان پر مصر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا اور مصر کی مقامی عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ مگر مصری پارلیمنٹ میں اکثریت کی وجہ سے یہ فیصلہ سنہ 2017 میں منظور کر لیا گیا۔ بالآخر سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں اس تنازع کو ختم کر دیا۔
اس وقت یہ طے پایا تھا کہ تیران اور صنافیر پر سعودی عرب کا حق ہو گا۔
اسرائیل کے حامی امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ماہر سیاسیات ڈیوڈ شینکر نے ایک تجزیے میں کہا کہ اسرائیل کی اصل تشویش یہ ہے کہ جزیروں کی منتقلی کے بعد اس کی کشتیاں ایلات میں راستہ تلاش کر سکیں گی یا نہیں۔
ان کا دوسرا مطالبہ سعودی فضائی حدود میں جگہ حاصل کرنا تھا۔ یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔
اسرائیلی ایئر لائن کی ای آئی (EI) پروازیں اب سعودی عرب کی فضاؤں سے انڈیا اور چین جانے کے لیے گزر سکیں گی۔ بین گوریون سے پروازیں اب براہ راست جدہ پہنچ سکتی ہیں۔ اس سے اسرائیل میں مقیم مسلمان عازمین براہ راست مکہ آ سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
محمد بن سلمان اسرائیل سے تعلقات میں بہتری کے خواہاں
سعودی عرب نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور اسے قائم نہیں کیا جاتا۔
محمد بن سلمان سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اپنے والد سے مختلف ہیں اور وہ ان تعلقات میں جلد بہتری کے خواہاں ہیں۔
سعودی عرب اور فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے درمیان تعلقات حالیہ برسوں میں سرد مہری کا شکار ہیں۔ سعودی شاہی خاندان کے بعض افراد نے بھی فلسطینی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے والے سنہ 2020 کے ابراہیمی معاہدے نے عرب ممالک کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔
اس سے دونوں کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔
Comments are closed.