روس صدر پوتن کو کورونا سے بچانے کے لیے اب بھی لاکھوں ڈالرز کیوں خرچ رہا ہے؟
کورونا کی وبا جب سے شروع ہوئی ہے، تب سے اب تک روسی حکام نے صدر ولادیمیر پوتن کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے عروج کے دنوں میں وہ دنیا کے سب سے زیادہ محفوظ ریاستی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
پوری دنیا میں کورونا وائرس کے اقدامات میں نرمی کے باوجود بھی روسی صدر کی غیرمعمولی دیکھ بھال اب بھی جاری ہے۔
صدر پوتن کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں رسائی رکھنے والے ہر فرد کو (جن میں بشمول ڈاکٹرز، خدمات فراہم کرنے والا عملہ، دفتری عملہ، پائلٹ اور درجنوں بہت سے لوگ) کو دو ہفتے قرنطینہ میں گزارنے پڑتے ہیں اور کم از کم چار قسم کے مختلف کووڈ ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، جس کی طبی افادیت سے متعلق ماہرین زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ تاہم اس سارے عمل میں روس اس وقت کروڑوں ڈالر خرچ ضرور کر رہا ہے۔
’غیرمعمولی اخراجات‘
صدر پوتن گذشتہ دو برسوں کے دوران پہلے کے مقابلے میں اب اپنی رہائش گاہوں کے ارد گرد بہت زیادہ گھومتے ہیں۔
خیال رہے کہ دو برس قبل بی بی سی رشیئن سروس نے حساب لگایا تھا کہ صدارتی معاملات کو چلانے کے ذمہ دار ادارے ’ڈائریکٹوریٹ آف دی پریزیڈینٹ آف دی رشیئن فیڈریشن‘ کو کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی بجٹ سے 6.4 ارب روبلز (تقریباً آٹھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر) دیے گئے ہیں۔
روسی ریاستی ذرائع سے دستیاب سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے صرف صدر پوتن کی صحت کے تحفظ پر لگ بھگ 3.2 بلین روبلز جو 54.6 ملین ڈالر بنتے ہیں خرچ کیے گئے ہیں۔
میخائل فریمڈرمین، ایک اسرائیلی ڈاکٹر جو 2014 تک روس میں مقیم تھے، ان اقدامات کو غیرمعمولی قرار دیتے ہیں۔
’ان اقدامات سے، یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ آیا روسی صدر کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان حفاظتی احتیاطی تدابیر کا مقصد انھیں کسی خطرے سے بچانے کا امکان زیادہ لگتا ہے۔‘
کونسٹنٹن بالونوف امریکہ میں مقیم ایک ڈاکٹر ہیں، جنھوں نے کووڈ وائرس سے شدید متاثرہ افراد کا علاج کیا ہے۔ وہ 90 کی دہائی کے وسط تک روس میں مقیم رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اقدامات کو کریملن کے طبی ماہرین کی ایک محفوظ طریقے سے کی جانے والی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ولادیمیر پوتن کی صحت کی حفاظت کرنے والا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
صدر ولادیمیرم پوتن کے لیے اٹھائے جانے والے ان غیر معمولی اقدامات کو کیسے ممکن بنایا جاتا ہے اور اس پر کتنا خرچہ آتا ہے، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
مگر یہ بات جاننا بھی دلچسپ ہے کہ کورونا وائرس کے آغاز سے اب تک روس میں سینکڑوں افراد کو صرف اس لیے قرنطینہ میں رہنا پڑا کیونکہ اُنھیں صدر ولادیمیر پوتن سے قریبی رابطے میں آنا تھا۔ مگر کئی لوگوں کو تو اس وقت بھی خود ساختہ تنہائی اختیار کرنی پڑی جب اُنھیں صدر کے براہِ راست سامنے نہیں آنا تھا مگر وہ اُن لوگوں سے مل چکے تھے جن کی صدر پوتن سے مستقبل قریب میں ملاقات ہونا طے تھی۔
یہ بھی پڑھیے
رواں برس مئی میں وکٹری ڈے پر صدر پوتن سے ملنے والے ایک 94 برس کے ایک سابق فوجی جنرل اخت یولاشیو نے ماسکو سے تاتارستان خطے میں اپنے گھر واپسی پر میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے اس تقریب میں صدر پوتن سے مصافحہ کیا۔
اُن کے مطابق ’میں نے انھیں (پوتن کو) ہمارے ملک کے تمام ’ویٹرنز‘ (ایسے سابق فوجی جنھیں جنگیں لڑنے کا تجربہ ہو) کی طرف سے نیک خواہشات پیش کیں۔‘ ان کے مطابق ’وہ (صدر پوتن) مجھے دیکھ کر مسکرائے، انھوں نے خوشگوار تاثر دیا۔‘
واضح رہے کہ 94 برس کے یہ ریٹائرڈ فوجی جنرل نے 9 مئی کو روس کی یوم فتح کی پریڈ میں شرکت کرنے کے لیے ماسکو کا سفر کیا تھا۔ لیکن چونکہ ان کی صدر پوتن سے ملاقات ہونی تھی اس وجہ سے انھیں پہلے ماسکو کے ایک ہوٹل میں دو ہفتے قرنطینہ میں گزارنا پڑے، جسے انھوں نے ’عیش و آرام‘ سے تعبیر کیا۔
’بڑی تعداد میں کیے جانے والے ٹیسٹ‘
صدر پوتن کے قریب آنے والوں کو کورونا وائرس کے چار ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے
وبائی مرض کے آغام میں تو ٹیسٹ کرانے کی وجہ بنتی تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور کیسز کی تعداد کم ہوتی گئی تو اس حوالے سے عائد پابندیوں میں بھی نرمی لائی گئی، مگر روس میں ایسا نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود کے صدر پوتن کو کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہے مگر اب بھی ان کے قریب آنے والے ہر فرد کا ٹیسٹ لازمی ہے۔
کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے علاوہ کچھ نئے ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں جن میں کووِڈ اینٹی باڈیز، فلُو، کولڈ اور سٹیف انفیکشن جیسے ٹیسٹ شامل ہیں۔ کچھ کیسز میں تو پاخانے کے نمونوں کے ٹیسٹ بھی لیے جاتے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق سنہ 2021 کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً 1500 افراد کو ایسے مکمل ٹیسٹ سے ہو کر گزرنا پڑا ہے۔
فروری 2022 میں کچھ روسی میڈیا نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ صدر تک رسائی رکھنے والے کریملن کے عملے کے کچھ ارکان کو ہفتے میں ایک بار اپنے پاخانے کے نمونے جمع کروانے پڑتے ہیں۔
حکومتی ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ روسی صدر کی نقل و حمل میں شامل فضائی عملہ اور عملہ بھی باقاعدہ جانچ سے گزرتا ہے۔ گذشتہ دو برس میں فلائیٹ کے عملے کے ٹیسٹوں پر 2.1 ملین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔
صرف اس سال مئی میں، فلائیٹ کے عملے نے 1,376 سواب ٹیسٹ، 98 افراد کے پاخانے کے نمونے جمع کرائے گئے اور 447 خون کے ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے ماسکو کے مضافاتی علاقوں میں ہوٹلوں میں قرنطینہ میں دو ہفتے گزارے۔
روسی سرکاری خبر رساں اداروں تاس اور ریا نوووستی نے بھی ایسی ہی ملتی جلتی خبریں شائع کیں کہ کیسے ’ماسکو کے ہوٹلوں میں سے ایک‘ کو تقریباً 20 صحافیوں کے لیے قرنطینہ مرکز میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ہر شخص کو الگ کمرہ دیا گیا جسے وہ صرف کمرے کی صفائی کے وقت ہی چھوڑ سکتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے دوبدو بات نہیں کر سکتے تھے بلکہ صرف انٹرنیٹ یا فون کے ذریعے ہی رابطہ کر سکتے تھے۔
اُنھیں سگریٹ یا شراب پینے کی اجازت نہیں تھی اور اس ہوٹل کے باہر سے آنے والے پیکج یا پارسل اُنھیں صرف معائنے اور جراثیم سے پاک کرنے کے بعد ہی پہنچائے جاتے۔
تنہائی میں موجود ان رپورٹرز کو دن میں تین مرتبہ کھانا دیا جاتا اور ان کی خوراک اور مشروبات کمرے کے باہر رکھ دیے جاتے۔ اُنھیں کھانے کے لیے پلاسٹک کے چمچ اور کانٹے بھی دیے جاتے۔ اُن سے ملنے کے لیے جو بھی شخص آتا، وہ مکمل طور پر حفاظتی لباس (پی پی ای) میں ملبوس ہوتا۔
اس حوالے سے بھی خبریں عام تھیں کہ کیسے علاقائی حکومتی عہدیدار صدر پوتن کے دوروں سے قبل خود ساختہ تنہائی میں چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نژنی نوفغرود کے خطے میں مقامی حکام نے ’روس کے صدر کے دورے کے دوران کورونا کی وبا پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کے لیے‘ 10 لاکھ روبل (تقریباً 13 ہزار ڈالر) مختص کیے ہیں۔
ایک روسی ڈاکٹر، جو متعدی امراض کے ماہر ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ’ضرورت سے بڑھ کر کیے جانے والے مختلف طرح کے ٹیسٹ‘ کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’یہ ٹیسٹ عام پی سی آر ٹیسٹ کو دہرانے جیسا ہی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ کورونا وائرس کے پاخانہ کے ذریعے انفیکشن سے متعلق لاعلم ہیں۔
ڈاکٹرز کے ہجوم میں
مارچ 2021 میں کریملن نے اعلان کیا کہ صدر پوتن کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ بعد میں یہ اعلان کیا گیا کہ استعمال شدہ ویکسین روس میں تیار کی جانے والی پہلی ویکسین تھی، جسے سپوتنک فائیو کا نام دیا گیا۔ اس ویکسین کے تجربے کے عمل پر روس سے باہر بہت سے ماہرین نے سوالات اٹھائے ہیں۔
ویکسینیشن کے بعد صدر ولادیمیر پوتن نے ملک بھر کے دورے شروع کر دیے۔ ان دوروں کے دوران ڈاکٹرز کی بڑی تعداد ان کے ہمراہ رہتی تھی۔
بی بی سی نے ذرائع سے یہ پتا چلایا تھا کہ ماسکو سے تقریباً 400 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع خوبصورت جھیل ازہن پر واقع ان کے اس گھر جہاں وہ چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں صدر پوتن کے ہمراہ چار ڈاکٹرز بھی تھے۔ اور طبی عملے کی رہائش پر دسیوں ہزار ڈالر خرچ کیے گئے۔
صدر پوتن کے ساتھ ان کی سوچی شہر میں رہائش گاہ پر بھی ڈاکٹرز کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ واضح رہے کہ سوچی وہ شہر ہے جہاں سنہ 2014 میں سرمائی اولمپکس منعقد ہوئے تھے اور یہ صدر پوتن کی پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ہے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی روسی صدر پوتن کے ساتھ تھی جب وہ سینٹ پیٹرزبرگ اور ولادی ووستوک میں بزنس فورمز میں شریک تھے۔ آزاد روسی میڈیا کی خبروں کے مطابق کریملن کے کچھ عملے نے ایک ہی سال میں 150 دن قرنطینہ میں گزارے ہیں۔ انھیں پرتعیش ہوٹلوں میں علیحدہ کمرہ دیا جاتا تھا۔
بی بی سی رشیئن کو معلوم ہوا ہے کہ روس میں اس قسم کے قرنطینہ کے لیے کم از کم 12 ہوٹل استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ ہوٹل ماسکو اور مضافاتی خطے، قبضے میں لیے گئے کریمیا خطے اور جنوبی شہر سوچی کے قریب ایک جگہ میں واقع ہیں۔
اس فہرست میں کوئی بھی نجی ہوٹل نہیں ہیں بلکہ صدر کے مہمانوں اور عملے کے ارکان نے جن بھی ہوٹلز میں قرنطینہ اختیار کیا وہ سب ہی صدارتی ڈائریکٹوریٹ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی بکنگز 2020 میں مارچ 2022 تک کے لیے کروا لی گئی تھی۔
روسیا نامی فضائی عملہ ان ہوٹلز میں بظاہر سب سے زیادہ رہا ہے۔ یہ عملہ صدر ولادیمیر پوتن، وزیرِ اعظم میخائل مسہوستن اور کابینہ کے آٹھ دیگر وزرا کو خدمات فراہم کرتا ہے۔
بی بی سی رشیئن کو معلوم ہوا ہے کہ صدر پوتن کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں کا زیادہ تر حصہ سوچی میں اپنی رہائش گاہ سے کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔ قرنطینہ کے حالات سے واقف ایک ذریعے نے بتایا کہ درجنوں کی تعداد میں پائلٹس اور فضائی عملے کے دیگر ارکان کو سوچی کے قریب قرنطینہ میں رکھا گیا تاکہ صدر، وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور کئی دیگر اہم شخصیات کو ٹرانسپورٹ خدمات فراہم کی جا سکیں۔
خیال رہے کہ قرنطینہ میں رکھے گئے افراد میں طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے پائلٹس شامل تھے۔
Comments are closed.