9/11 حملوں کا سعودی تعلق: ایف بی آئی نے دستاویزات ڈی کلاسیفائی کرنا شروع کر دیں
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے حال ہی میں سعودی عرب کے شہریوں اور 9/11 کے دو حملہ آوروں کے درمیان روابط سے متعلق ایک دستاویز کو عام کیا ہے جو پہلے کلاسیفائیڈ تھیں۔
امریکہ پر 11 ستمبر سنہ 2001 کو ہونے والے حملوں کے متاثرین کے رشتہ دار طویل عرصے سے فائلوں کو منظر عام پر لانے کے لیے زور دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کو پیشگی معلومات تھی لیکن انھوں نے حملوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن ڈی کلاسیفائی ہونے والی دستاویز سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ 9/11 کی سازش سے سعودی حکومت کا بھی رابطہ تھا۔
اس دستاویز کے مطابق طیاروں کو ہائی جیک کرنے والے 19 افراد میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
دستاویز کو منظر عام پر لانے سے قبل ہی واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اس کا خیرمقدم کیا اور ایک بار پھر سعودی حکومت اور ہائی جیکرز کے درمیان کسی بھی قسم کے رابطے کی تردید کی اور اس طرح کے دعوؤں کو ’جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی‘ قرار دیا۔
اس دستاویز کو امریکی سرزمین پر ہونے والے مہلک ترین دہشت گردانہ حملوں کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر منظر عام پر لایا گیا۔
اس حملے میں چار طیاروں کو ہائی جیک کرنے کے بعد انھیں مختلف عمارتوں سے ٹکرا دیا گیا تھا اور اس میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور یہ دستاویز مزید بہت سے ڈی کلاسیفائی کیے جانے والے دستاویزات میں سے ایک ہے۔
متاثرین کے کچھ خاندانوں نے صدر جو بائیڈن پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ دستاویزات کو سامنے لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ان دستاویزات کو جاری کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر انھیں نیویارک میں ہفتہ کو منعقد ہونے والی یادگاری تقریبات میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
16 صفحات پر مشتمل ایف بی آئی کی اس دستاویز کو اب بھی بہت زیادہ نظر ثانی کے بعد سامنے لایا گیا ہے۔
یہ ایک ایسے ذریعے کے انٹرویو پر مبنی ہے جس کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہے اور اس میں متعدد سعودی شہریوں اور دو ہائی جیکرز نواف الحازمی اور خالد المحضار کے درمیان رابطوں کا خاکہ پیش ہے۔
ہائی جیکرز طالب علموں کے طور پر سنہ 2000 میں امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔ ایف بی آئی کے میمو میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد انھیں عمر البایومی کی طرف سے اہم لاجسٹک سپورٹ ملی، جس کے بارے میں عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ اس وقت بغیر کسی سرکاری حیثیت کے لاس اینجلس میں سعودی قونصل خانے میں اکثر ایک طالب علم کے طور پر آتے جاتے تھے۔
ذریعے نے ایف بی آئی کو بتایا کہ بایومی قونصل خانے میں ’بہت اعلیٰ مرتبہ‘ رکھتے تھے۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ ’بایومی نے حازمی اور محضار کی ترجمہ، سفر، رہائش اور فنانسنگ میں مدد کی۔‘
نامہ نگار سکیورٹی امور گورڈن کوریرا کا تجزیہ
9/11 حملوں میں ملوث 19 ہائی جیکر سعودی باشندے تھے۔ القائدہ کے رہنما اسامہ بن لادن ایک بااثر سعودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی تنظیم نے سنہ 1990 کی دہائی میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے امیر سعودی خاندانوں سے امداد لی تھی۔
ان تمام معلومات کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان حملوں میں سعودی حکموت بھی ملوث تھی اور کیا بعد میں آنے والی امریکی حکومتوں نے اپنے اتحادی کو بچانے کے لیے ان معلومات کو پوشیدہ رکھا۔
اس تازہ ترین دستاویز سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم اس سے ان تمام سوالات کے جواب بھی نہیں ملتے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ایف بی آئی سنہ 2016 میں بھی ایک بااثر سعودی باشندے کے حوالے سے تحقیقات کر رہی تھی جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے دو ہائی جیکرز کی معاونت کی تھی۔
یہ دستاویزات کی پہلی ریلیز ہے اور اگر سعودی عرب کا ذکر رہے بھی تو ان حملوں کے پیچھے اس کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں مل سکیں گے۔ مگر ابھی بھی امریکہ اور سعودی عرب سے متعلق ان دستاویزات کی وجہ سے کئی سوالات جنم لے سکتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخر ایف بی آئی نے حقائق کو سامنے لانے میں اتنی دیر کیوں کی۔
یہ ایف بی آئی اے کہ ایک ان دستاویزات میں سے ہے جو ابھی ریلیز نہیں ہوئی
ایف بی آئی کی دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی جیکرز اور لاس اینجلس کی کنگ فہد مسجد کے سخت گیر امام فہد ال تھمیری کے درمیان روابط موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق وہ انتہائی سخت گیر مؤقف کے قائل تھے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بایومی اور فہد ال تھمیری 9/11 سے چند ہفتے قبل امریکہ سے جا چکے تھے۔
اے پی نے 9/11 متاثرین کے رشتہ داروں کے ایک ایک وکیل جم کرنڈلر سے متعلق بتایا کہ ان کا کہنا کہ یہ دستاویزات ہمارے ان دلائل کو سچ ثابت کرتی ہیں جو ہم نے مقدمے میں عدالت کے روبرو دیے تھے جس میں ہم نے 9/11 حملوں کے پیچھے سعودی عرب کے ذمہ دار ہونے سے متعلق بات کی تھی۔
گذشتہ ماہ ان حملوں میں مارے جانے والوں کے متعدد لواحقین نے مقدمہ دائر کیا جس میں متعدد اعلیٰ سعودی حکام کو حلفاً جوابات دینے پڑے۔
قومی سلامتی کو وجہ بنا کر سابق امریکی صدور جارج ڈبلیو بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے سے انکار کر دیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کو 9/11 حملوں میں مارے جانے والوں کے رشتہ داروں نے ان دستاویزات کو ریلیز کرنے کے بارے میں کہا تھا
مگر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے ان تفتیشی دستاویزات پر نظرثانی کے احکامات جاری کرتے ہوئے حکام کو بتایا کہ وہ جتنی بھی دستاویزات منظر عام پر لا سکتے ہیں ضرور لے کر آئیں۔
ان حملوں کے پیچھے سعودی شہریوں اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے سعودی پس منظر کو سامنے رکھ کر ایک طویل عرصے تک سعودی عرب کی ان حملوں کے پیچھے ملوث ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم 9/11 کمیشن رپورٹ میں سعودی عرب کی حکومت یا سینیئر حکام کے ان حملوں میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔
امریکہ اور سعودی عرب طویل عرصے سے اتحادی رہے ہیں اگرچہ ایسے مواقع بھی آئے کہ ان تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نے ان تعلقات کو مضبوط کیا مگر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی میں بہیمانہ قتل میں سعودی عرب کے کردار پر سخت سوالات اٹھائے۔
بی بی سی کے فرینک گارڈنر کا کہنا ہے سعوی اتحاد کی اہمیت کے پیش نظر صدر جو بائیڈن نے اس کے بعد سعودی عرب کے سب سے طاقتور شخص محمد بن سلمان سے متعلق اپنے مؤقف میں نرمی برتی ہے۔
Comments are closed.