27 سال بعد ماں بیٹی کا ملاپ: ’اس کا برتھ ڈے آنے والا ہے اور میں نہیں جانتی کہ اسے کیا پسند ہے‘

لورینا اپنی بیٹی یوانا کی تصویر کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہMARCOS GONZALEZ / BBC

،تصویر کا کیپشن

لورینا اپنی بیٹی یوانا کی تصویر کے ساتھ، انھوں نے 27 سال تک اپنی بیٹی کو تلاش کیا

میکسیکو میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 110,000 سے زیادہ لاپتہ افراد ہیں۔ اس ملک میں کچھ ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں جن کا خاتمہ خوش کن رہا ہے اور یہی چيز گمشدگی کا عذاب جھیلنے والے خاندانوں کے لیے امید کی ایک چھوٹی سی کرن کی نمائندگی کرتی ہے کہ شاید ایک دن وہ اپنے پیاروں سے مل سکیں۔

ایسا ہی کچھ لورینا رامیریز کے ساتھ ہوا جنھوں نے تقریبا چھ ماہ قبل 27 سال سے لاپتہ اپنی بیٹی یوانا کو گلے لگایا۔

اتنا زیادہ وقت گزرنے کے باوجود انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی تین سالہ بیٹی سے کبھی بھی ملنے کی امید نہیں چھوڑی اور یہ کہ انھیں ہمیشہ یہ امید تھی کہ وہ جہاں بھی ہے اب بھی زندہ ہے۔

اور اب 50 سال کی عمر میں اس ملن پر ان کی آنکھوں سے آنسو کا چھلکنا فطری ہے تاہم وہ امید کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ یہ سوچ کر آنسو لامحالہ ان کے گالوں پر بہہ رہے ہیں کہ ان کی زندگی ان کی بیٹی کے بغیر کیسی تھی اور نہ جانے ان کے بغیر ان کی بیٹی کا حال تھا۔

مضبوط اور سنجیدہ رامیریز نے اعتراف کیا کہ اس گمشدگی نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے متاثر کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘بس جیے جا رہی تھیں’ اور یہ کہ اس بات نے انھیں ایک سرد اور سخت عورت میں تبدیل کر دیا۔

پچھلے سال میکسیکو میں ان کے دوبارہ ملاپ کے زبردست نتائج کے بعد، رامیریز نے بی بی سی منڈو کے ساتھ اپنی کہانی شیئر کی کہ دوبارہ ملنے کے مہینوں بعد ان کی بیٹی کے ساتھ ان کا رشتہ کیسا ہے اور اب وہ آگے ساتھ مل کر کس طرح چیزوں کو ٹھیک کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

یہاں ذیل میں ان کا اعتراف پیش کیا جا رہا ہے:

یوانا اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہCOURTESY

،تصویر کا کیپشن

یوانا اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ

یکم اکتوبر سنہ 1995 تک ہم ایک عام خاندان جیسے تھے۔

ہماری بیٹی یوانا تین سال پہلے پیدا ہوئی تھی اور وہ مکمل طور پر ہماری خوشی تھی۔ وہ کسی بھی عام بچے کی طرح پروان چڑھی۔ گھر میں وہ بہت باتونی تھی، لیکن باہر لوگوں سے بہت بیزار رہتی تھی۔ وہ کسی کے ساتھ نہیں گھلتی ملتی تھی۔

مجھے اس کی ہر چیز یاد ہے۔ اسے ‘آئی ایم فرام امریکہ’ گانا گانا بہت پسند تھا اور اسے اپنی تلی ہوئی چانپیں بہت پسند تھی۔ لیکن یہ ایک بہت ہی مختصرعرصہ تھا۔۔۔ آپ نہیں جانتے کہ کب کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم نے ان تین سال اپنی بیٹی کے ساتھ جتنا ہو سکتا تھا خوب مزے کیے۔

سنہ 1995 کے اس دن میں نے اپنے شوہر، یوانا اور دوسرے دو بڑے بچوں، اور شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ میکسیکو سٹی کے چپلٹیپیک جنگل سیر کے لیے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم چڑیا گھر میں داخل ہوئے، پھر ہم کھانے کے لیے بیٹھ گئے اور میرے بچے کھیلنے لگے۔۔۔۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔

لیکن جب ہم وہاں سے جانے لگے تو میرے شوہر نے میری چھوٹی بیٹی کو داہنے ہاتھ سے اور مجھے بائیں ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا۔ ہم نے دوسرے لوگوں کو الوداع کہنے کے لیے ایک حلقہ بنایا اور ایک لمحے کے لیے اپنی بیٹی کو چھوڑ دیا۔ میرے شوہر نے بھی ایسا کیا اور پھر پل بھرمیں ہمیں پتا چلا کہ وہ غائب ہے۔

یہ ایک ماں کو آنے والا وسوسہ تھا لیکن میں نے اسی لمحے محسوس کر لیا تھا میری بیٹی کو مجھ سے چرا لیا گیا ہے۔

میں اس جنگل کے ایک دروازے کی طرف بھاگی اور ان سے کہا کہ وہ تمام داخلی راستے بند کر دیں لیکن پولیس والے نے مجھ سے نہیں کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت سب چڑیا گھر سے نکل رہے تھے۔

میں چیخنے لگی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم جنگل کے آخری دروازے کے بند ہونے تک انتظار کرتے رہے، لیکن میری بیٹی کہیں نہیں دکھائی دی۔

ہم حکام کے پاس رپورٹ کرنے گئے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا لیکن انھوں نے مجھے بتایا کہ 72 گھنٹے انتظار کرنا پڑیگا کہ اس درمیان وہ مل جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ تین سال کی بچی تھی۔ وہ ایسے نہیں جا سکتی تھی۔

یہیں سے میری آزمائش شروع ہوئی۔ زندہ لیکن بحالت مردہ۔

گمشدگی کا اشتہار

،تصویر کا ذریعہAMNRDAC

،تصویر کا کیپشن

یوانا کی گمشدگی کا اشتہار

تلاش

میں میڈیا پر جتنا تلاش کر سکتی کیا کہ لوگ میری بات سنیں، بدقسمتی سے یہ ناممکن ہے جب آپ بہت غریب ہوں اور آپ کے پاس ذرائع یا وسائل نہ ہوں۔ سوائے میرے پڑوسیوں کے کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ وہی لوگ میری بیٹی کی تصویر کے ساتھ فلائر بنانے، چسپاں کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

ایک ہفتہ گزر گیا اور تب تک میں بے تاب اور مایوس ہو چکی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔ میں گڑگڑاتی، روتی اور منتیں کرتی لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی۔ میرا شوہر اینٹوں کا کام کرنے والا تھا اور میں کپڑے دھوتی تھی اور گھر کا کام کرتی تھی۔ تب سے، ہم نے یوانا کی تلاش کے لیے اپنا وقت وقف کر دیا۔

اسی دوران ایک بار میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جو اسی مرحلے سے گزر رہی تھی اور اس نے مجھے اغوا شدہ بچوں کی فاؤنڈیشن میں مدعو کیا۔ جب میں اندر گئی اور اغوا شدہ بچوں کی تصویروں سے ڈھکی تمام دیواروں کو دیکھا تو سوچا، یہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر وہ نہ ملی تو میری بیٹی کا کیا بنے گا؟

اور یوں وقت گزرتا گیا۔ میں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کے کیس کی تشہیر کی اور اس کی تصویر کا ری پروڈکشن پورٹریٹ بنانا شروع کیا کہ وہ اس وقت کس طرح کی نظر آئے گی۔ اگرچہ میں چاہتی تھی کہ زندگی سب کے لیے رک جائے لیکن زندگی چلتی رہی۔

میرے خاندان میں ہمارے دوسرے بچے بڑے ہو رہے تھے۔ تاہم، تب سے، کرسمس، کنگز، سالگرہ کی تقریبات، مدرز ڈے۔۔۔ ہر چیز کے معاملے میں میں نے ہمیشہ ان سے کہا کہ جشن منانے کی کوئی بات نہیں ہے۔

یہاں تک کہ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ سکول کے پروگرام میں ڈانس کرنے جا رہے ہیں تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں نہیں جا رہی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس کے لیے وہ ذمہ دار نہیں ہیں، اور وہ سچ کہہ رہے تھے۔ خوش قسمتی سے، میرے بچوں نے مجھ سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی۔

سال گزرنے لگے اور میری دو اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ لیکن جب بھی یوانا کی سالگرہ آتی تھی تو میں نے خدا سے بہت دعا کرتی کہ وہ جہاں بھی ہو ٹھیک ہو اور مجھے اسے دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے۔

وقت گزرتا رہا لیکن میں نے کبھی اس کے زندہ ہونے کا یقین نہیں کھویا۔ یوں 20، 21، 22 سال گزر گئے۔

میں کئی بار شہر سے باہر ایسے لوگوں سے ملنے گئي جو اس کی طرح نظر آتے تھے، یا جنھوں نے اشتہار دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ شاید وہ یوانا ہیں۔ میں نے مختلف لڑکیوں کی بہت سی سہیلیوں سے ملاقات کی۔ لیکن نہیں، وہ وہ نہیں تھیں۔

ماں

،تصویر کا ذریعہMARCOS GONZALEZ / BBC

،تصویر کا کیپشن

بیٹی کی تلاش جاری رکھی

دوبارہ ملن

تین سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ ہم 31 سال ساتھ شادی شدہ رہے۔ یہ بہت بڑا نقصان تھا۔ جس دن ان کا انتقال ہوا، میں نے ان سے کہا: ‘چونکہ تم دوسری طرف چلے گئے ہو، وہاں اس کی تلاش کرنا۔ اور اگر خواب میں ہو تو آکر بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔’

پھر پچھلے سال جولائی میں بیمار ہوگئی۔ میں بہت بیمار تھی اور انھیں میرا ایک آپریشن کرنا پڑا۔ لیکن پہلے میں نے اپنی ایک بیٹی سے بات کی اور اس سے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو وہ اسے تلاش کرنا چھوڑ دیں گی۔

میں نے ان سے کہا: ‘اگر مجھے نہیں ملی تو شاید تم کو بھی نہ ملے۔ چیزوں کو جیسا ہے ویسا ہی رہنے دو۔ اپنی زندگی کے ساتھ آگے بڑھو اور اس کی وجہ سے اپنے آپ کو خوش رہنے سے نہ روکو۔ یہ درد و غم میرا ہے اور میں اسے اپنے اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔’

میں سخت بیمار تھی لیکن خدا کا شکر ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔ میری 11 جولائی کو سرجری ہوئی، اور یکم اگست تک مجھے کسی شخص کی طرف سے ایک پیغام ملا کہ کسی نے ایک پوسٹ چھوڑا اور اسے اپنے حقیقی خاندان سے ملنے کی چاہت ہے۔ اس نے لکھا ہے ‘میں یوانا برنل ہوں اور میں اپنے حقیقی والدین کی تلاش میں ہوں۔’

اس کا اثر بہت بڑا تھا، میں نہیں جانتی کے مجھے کیا کرنا ہے۔ میں رونے لگی۔ میری ایک بیٹی نے اس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ وہ یوانا ہے۔

اس نے جواب دیا: ‘کیونکہ جس شخص نے مجھے اغوا کیا تھا اس نے مجھے بتایا کہ اس نے مجھے چپلٹیپیک کے جنگل میں پایا تھا۔’

یہ بھی پڑھیے

اصل تصاویر کا تبادلہ ہوا اور میری بیٹی نے وہ مجھے دکھائیں۔ میں چونک گئی۔ میں جانتی تھا کہ وہ وہی ہے کیونکہ وہ میری دوسری بیٹیوں کی طرح نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

میری ابھی سرجری ہوئی تھی اور میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھی، لیکن میرے بچوں نے اس کے اعلان کے بارے میں پتہ چلنے کے صرف تین دن بعد ہی اس سے ملاقات کر لی۔ اس نے بتایا کہ اسے اپنے والد اور اس کے دو بھائی، میرے بڑے بچے یاد ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ یوانا مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ میرے دماغ اور دل دونوں نے مجھے ہاں میں کہا، لیکن کسی چیز نے مجھے اندر سے پرسکون رہنے کے لیے کہا۔ میں نروس تھی اور مجھے یہ برا لگا۔۔۔ میرا مطلب ہے، میرے تمام جذبات اکٹھے ہو گئے تھے۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ ہاں گھر لے آؤ۔

جب اس نے دروازہ کھولا تو میں رک گئی اور وہ اندر چلی آئی۔ 27 سال بعد گلے لگانا۔۔۔ اس نے مجھے دیکھا اور کہا: ‘آپ میری ماں ہیں۔’ میں نے جواب دیا: ‘ہاں۔۔۔ تم بھی میری بیٹی ہو۔ آپ کو دوبارہ دیکھنے کا موقع فراہم کرنے کا شکریہ۔’

ماں بیٹی

،تصویر کا ذریعہCOURTESY

،تصویر کا کیپشن

یہ وہ لمحہ تھا جب ماں بیٹی 27 سال بعد ملے

سوالات

اور پھر اس کی طرف سے لامتناہی سوالات آئے۔ اس نے مجھ سے کہا: ‘آپ نے مجھے تلاش کیوں نہیں کیا؟’ میں نے کہا کہ ‘ایسا نہیں ہے، ہمارے پاس تمام ثبوت ہیں کہ میں نے کبھی تلاش کرنا بند ہی نہیں کیا۔’ میں نے بھی اس سے یہ پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور اس نے مجھے کیسے تلاش کیا۔

یوانا کہتی ہیں کہ اسے یاد ہے کہ کس طرح اس دن چپلٹیپیک میں وہ ہم سے چمٹی ہوئی تھی، اور جب ہم نے اس چھوڑ دیا تو وہ اسے کمر سے پکڑ لے گئے۔ وہ مانتی ہے کہ انھوں نے اسے سلا دیا اور یہ کہ مالک اسے اٹھا کر لے گیا۔ جب وہ بیدار ہوئی تو وہ تین بچوں کے ساتھ ایک گھر میں تھی۔

اس آدمی نے اس سے کہا: ‘اب وہ تمہارے چھوٹے بھائی بننے والے ہیں۔’ اس نے اسے بتایا کہ وہ اپنے والد سے پیار کرتی ہے تو اس آدمی نے جواب دیا کہ وہ بھی آنے والا ہے۔ پھر وہ روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ وہ نیند سے مغلوب ہو گئی۔

اگلے سال وہ اسے رجسٹر کرنے گئے۔ انھوں نے اسے روسیو، پیدائش یکم اکتوبر سنہ 1992 سے رجسٹر کرایا۔ انھوں نے وہ دن لکھ لیا جس دن انھوں نے مجھے اغوا کیا تھا اور پیدائش کا اصلی سال رکھا۔

یوانا ٹولوکا شہر میں پلی بڑھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ 7 سال کی ہوئیں اس وقت تک وہ کھانا پکانے لگی تھیں، گھر کی خاتون اسے مارتی پیٹتی، اسے جانوروں کو کھانا کھلانا پڑتا تھا اور سکول جانے سے پہلے صفائی کرنا پڑتی تھی۔ وہ دوستوں کے ساتھ نہیں کھیلتی تھی۔۔۔ اسی طرح کی اس کی زندگی تھی۔

17 سال کی عمر میں اس نے وہ گھر چھوڑ دیا اور شادی کر لی۔ لیکن اس وقت تک، وہ لوگ ہمیشہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے رہے۔ وہ دکھاوا کرتے کہ وہ اس کے خاندان کی ہے لیکن ایسا تھا نہیں۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے انھیں میں سڑک پر ملی تھی۔

ماں بیٹی

،تصویر کا ذریعہCOURTESY

یہاں تک کہ اس نے ایک دن اس خاتون سے پوچھ ہی لیا کہ کیا اگر وہ اس کی ماں نہیں تو اس کی ماں کون تھی۔ اس نے جواب دیا کہ انھوں نے اسے چپلٹیپیک میں چھوڑ دیا تھا اور وہ اسے اٹھا کر لے آئے تھے۔ اور اس وقت انھوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس کا اصل نام یوانا برنل ہے۔

تقریباً آٹھ سال پہلے، میری بیٹی نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا اور اس نے اپنے نام کے ساتھ جڑا معاملہ پایا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اب آگے کیا کرنا ہے، کہاں فون کرنا ہے۔ یوانا نے دیکھا کہ وہاں اسی طرح کی بچی تو جس طرح بچپن میں وہ نظر آتی تھی۔

چنانچہ وہ اس خاتون کو بتانے گئی کہ اس نے کیا دیکھا ہے لیکن اس نے جواب دیا کہ وہ اپنے والدین کو کبھی نہیں ڈھونڈ پائے گی کیونکہ وہ اسے نہیں چاہتے تھے۔ اور پھر اس نے اپنے پیغام کو فیملی سرچ پیج پر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

تو مجھے یقین تھا وہ میری بیٹی ہی تھی، لیکن جینیات کا مطالعہ نہیں ہوا تھا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ بہت مشکل ہے، لیکن زندگی ہمارے ساتھ گڑبڑ ہو سکتی ہے اور نتیجہ یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔

اس دن ہم دونوں پراسیکیوٹر آفس پہنچے اور انھوں نے ٹیسٹ کے نتائج پڑھنا شروع کر دیے۔ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی کہ انھوں نے کہا کہ ‘یہ 99.9 فیصد مثبت ہے، وہ ماں اور بیٹی ہیں۔’

میں نے اپنی بیٹی کو گلے لگایا، اسے مبارکباد دی اور کہا: ‘آپ کا شکریہ کیونکہ اتنے سالوں کے بعد آپ کی کسی خیر خبر سنے بغیر، خدا نے ہمیں دوبارہ ایک ساتھ رہنے کا موقع دیا ہے۔’

جینیٹک ٹیسٹ کے نتائج کے بعد ماں بیٹی کا ملن

،تصویر کا ذریعہCDMX JUSTICE PROSECUTOR

،تصویر کا کیپشن

جینیٹک ٹیسٹ کے نتائج کے بعد ماں بیٹی کا ملن

اس کے بعد کی زندگی

چھ مہینے گزر چکے ہیں جب ہمیں نتیجہ معلوم ہوا اور اس وقت سے روکیو کے ساتھ، جیسا کہ وہ خود کہتی ہے، ہم اچھی طرح سے گھل مل کر رہتے ہیں۔ جب ہم گھر میں اس کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم اسے یوانا کے نام سے پکارتے ہیں۔ لیکن جب میرے بچے اس سے بات کرتے ہیں تو وہ اسے چیؤ کہتے ہیں۔

یقیناً یہ رشتہ آسان نہیں ہے۔ جس طرح میں نے اسے ایک دن کھو دیا اور جس طرح کی میں نے تکلیف اٹھائی پھر اسی طرح میں نے اسے دوبارہ پایا۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ میں تکلیف میں ہوں، لیکن یہ مشکل ہے کیونکہ میں اسے پوری طرح سے نہیں جانتی۔ میں نے ایک 3 سالہ لڑکی کو کھو دیا تھا اور اب مجھے ایک 30 سالہ عورت ملی ہے۔ میں نے اس کی زندگی کے مراحل نہیں جیئے، اس کا ایک بڑا حصہ ہے جو مجھ سے چرا لیا گیا۔

آج میں نہیں جانتی کہ اسے کیا پسند ہے، وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کی سالگرہ آنے والی ہے اور میں نہیں جانتی کہ اسے کیا دینا ہے کیونکہ میں اسے نہیں جانتی۔ میں اسے دیکھتی ہوں، اسے گلے لگاتی ہوں اور اسے چومتی ہوں۔ ہم ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے ہیں، میں کہتی ہوں: ‘ہیلو، میری بیٹی۔’ وہ بھی مجھے جواب دیتی ہے: ‘ہیلو ماں، آپ کیسی ہیں؟’ مجھے لگتا ہے کہ یہ آہستہ آہستہ ہوگا۔

ہم نے یہ کرسمس ایک ساتھ گزارا۔ میں نے اسے اپنے تمام بچوں اور اپنے تمام پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کے ساتھ گزارا، کیونکہ یوانا کے دو بچے ہیں۔ یہ میرا ایک خوشگوار کرسمس تھا۔

اس خاندان کا اہم حصہ غائب تھا، جو میرا شوہر ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ تھا اور وہ خوش ہے کیونکہ اس کا خاندان دوبارہ ملا ہے۔ اگر وہ یہ لمحہ جیتا تو۔۔۔ اوہ، ہم نے اس کے بارے میں سوچا۔ وہ سب سے زیادہ خوش شخص ہوتا۔

میری بیٹی کو اغوا کرنے والے افراد کو مارچ میں گمشدگی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ جیل میں ہیں۔

چوری کرنے والے جیل میں

،تصویر کا ذریعہCDMX JUSTICE PROSECUTOR

،تصویر کا کیپشن

چوری کرنے والے جیل میں

27 سال پہلے میں نے کہا تھا کہ اگر مجھے مل جائے تو میں انھیں مار ڈالوں گی۔ وہ اندر ہی اندر ٹوٹ چکی تھی۔ اب میں ان کے آمنے سامنے ہو سکتی تھی۔ لیکن میں نے دل ہی دل میں کہا، ‘میرے خدا، میں نے ان کے کیے کے لیے انھیں معاف کر دیا۔’

انھوں نے مجھے نقصان پہنچایا، انھوں نے میری زندگی اور میرے خاندان کو تباہ کر دیا۔ لیکن میرے لیے خدا محبت ہے۔ اب انصاف ان کا فیصلہ کرے گا۔ انھوں نے جو نقصان کیا ہے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور پھر خدا انہیں معاف کرے۔

ایک ماں اور ایک عورت کے طور پر یہ میری زندگی ہے۔ جینے کے لیے جی رہی تھی۔ میں ایک سرد، جارحانہ عورت بن گئی۔ میں اپنے دوسرے بچوں کے ساتھ بہت سخت تھی کیونکہ میں کسی بھی چیز کے بارے میں دفاعی رہتی تھی۔

میں نے ہمیشہ ان سے کہا کہ وہیں رہیں جہاں میں نے ان سے رہنے کو کہا تھا، وہاں سے ہلنا نہیں۔ اگر انھوں نے ایسا کیا، چاہے وہ میرے پیچھے ہی ہوں، اس لمحے جب میں انھیں نہیں دیکھ پاتی۔۔۔ تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ میں نے ان سیکنڈوں میں کیا محسوس کرتی تھی؟ یہ آپ کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔

یہ بات میرے ذہن میں کبھی نہیں آئی کہ میں اپنی بیٹی کو تلاش نہیں کر پاؤں گی۔ میں نے سوچا کہ جس طرح میں نے اسے کھو دیا اور اب جب میں سب سے کم جدائی محسوس کر رہی ہوں، میں اس کے روبرو ہونے والی ہوں۔ اور ایسا ہی ہونے والا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے سب ایک جیسی قسمت نہیں ہوتی۔ ایسے بے شمار بچے ہیں جن کا سراغ نہیں ملا ہے۔

میں دعا کرتی ہوں کہ خدا ان تمام ماؤں کو جنھوں نے میری طرح دکھ جھیلیں اپنے بچوں کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے، کیونکہ یہ زندگی میں موت ہے جب آپ اس اپنے پیارے کے بارے میں نہیں جانتے۔

اب میں خوش ہوں اور خدا کی طرف سے بخشش محسوس کرتی ہوں۔ میری بیٹی کے ساتھ کھویا ہوا وقت کبھی نہیں ملے گا، لیکن ابھی آپ کو اس لمحے کو جینا اور انجوائے کرنا ہے۔ اگر چہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا تو بھی ہمیں خوشی سے جینا چاہیے۔

BBCUrdu.com بشکریہ