جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا کہنا ہے کہ 2007 میں پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا، عدلیہ بحالی کے بعد بار اور بینچ میں تعلق مضبوط ہوا۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا مؤثر طریقہ کار ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں جونیئر کی تعیناتی سے بارز اور وکلاء میں تشویش ہے، بینچز کی تشکیل اور کیسز کی سماعت کا شفاف طریقہ ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حساس مقدمات کی سماعت کے لیے آزاد ججز ہونے چاہیے، ججز کو وکلاء اور سائلین سے نرمی سے پیش آنا چاہیے۔
خیال رہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے کیلئے مرتب کردہ فہرست میں سے جسٹس مقبول باقر کا نام خارج کردیا گیا ہے اور حکومت اس بات پر اتفاق رائے حاصل نہیں کر پا رہی کہ جن لوگوں کے ناموں پر پہلے غور کیا گیا تھا وہ اہلیت کی شرائط پر یا پھر اہم اسٹیک ہولڈرزکی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج تین ہفتے قبل تک اہل ترین امیدوار سمجھے جا رہے تھے،تاہم حکومت نے باضابطہ طور پر ان کا نام شامل نہیں کیا تھا ،صرف میڈیا میں خبر لیک ہوئی تھی۔
ان کا نام ایسے لیا جا رہا تھا جیسے مزید کسی غور و خوص کی ضرورت نہیں، بتایا جا رہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی متفق تھے جبکہ اتحادی شراکت داروں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا تاہم، باقر نے بھی اس نئی ذمہ داری کیلئے رضامندی ظاہر کی تھی لیکن مسئلہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا توقف تھا۔
سابق جج رواں سال اپریل میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے اور اسلئے وہ اپریل 2024ء میں اس عہدے کے اہل ہوں گے، اگرچہ اس بات پر عدم اتفاق تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا توقف کریں گے یا نہیں، لیکن اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ وقفہ ضروری ہے۔
Comments are closed.