20ویں صدی میں ٹیڈی بیئرز اور کراس ورڈ پزل کو معاشرے کے لیے خطرہ کیوں سمجھا جاتا تھا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بچے ہوں یا بڑے، ٹیڈی بیئرکے نام سے کون واقف نہیں؟ ایسا گول گپا سا کھلونا بھالوجسے بچوں کو تحفہ دینے کے لیے سب سےزیادہ پسند کیا جاتا ہے اور بات صرف بچوں کی ہی نہیں بلکہ بالغ افراد بھی ٹیڈی بیئر دے کر ایک دوسرے سے محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں۔
تاہم ایک وقت وہ بھی تھا جب نیو یارک ٹائمزاور برٹش ٹائمز جیسے معتبر خبر رساں ادارے بھی ان ٹیڈی بیئرز کوغیر سماجی، لغو (فضول) یہاں تک کہ قومی خطرے کی علامت کے طور پر سامنے لاتے رہے۔
ٹیڈی بیئر کے ساتھ ساتھ کراس ورڈ پزل (پہیلیاں) بھی ایک زمانے میں وقت ضائع کرنے اور فارغ لوگوں کے مشغلے کے طور پر تنقید کی زد میں رہیں تاہم بہت بعد میں انھیں ایک دانشورانہ تفریح کے طور پر دیکھا گیا۔
ہماری تفریحات کا لازمی حصہ سمجھے جانے والے ٹیڈی بیئرز اور کراس ورڈ پزلز تاریخ کے کسی موڑ پرسخت تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ کراس ورلڈ پہلیوں کو اگر حقیر سمجھا گیا تو بے ضرر ٹیڈی بیئر کو تو نسلوں کے خاتمے کی وجہ تک بنا دیا گیا۔
آخر ماضی میں ان کو اتنا برا کیوں سمجھا جاتا رہا؟
تو پہلے بات کرتے ہیں کراس ورلڈ پزل کے سحر کی اور پھر بتائیں گے ٹیڈی بیئرز سے متعلق توہمات کیا تھے۔
یاداشت کو نقصان پہچانے اور ’کراس ورڈ انسومنیا‘ جیسی توہمات
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پہلی بار کراس ورڈ پزلز 19ویں صدی میں انگلینڈ میں بچوں کی تفریح کے لیے پیش کیے گئے۔ امریکی اخبار نیویارک ورلڈ نے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر 21 دسمبر 1913 کو اپنے اتوار کے ضمیمہ میں پہلا جدید کراس ورڈ پزل شائع کیا جس کے بعد یہ صرف بالغوں کے لیے تفریح بن گئے۔
الفاظ بنانے والی ان پہیلیوں کے شائقین کی تعداد میں جنگ کے بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ راتوں رات ان پزلز نے لوگوں کا مجمع اکھٹا کرنا شروع کر دیا یوں کراس ورڈ 1920 کی دہائی کے دوران افراتفری میں گھرے لوگوں کے لیے پناہ اور فرار ڈھونڈنے کا ذریعے بنتی چلی گئی اور دن بہ دن اس کی مقبولیت عروج تک پہنچ گئی یہاں تک کہ جنگ بندی کے بعد بھی اس کا چاہ کم نہ ہو سکی۔
تاہم نیویارک ٹائمز ان اخبارات میں شامل تھا جس نے ان کو ڈیزائن کرنے اور شائع کرنے سے انکار کیا۔
اخبار کے ایڈیٹرز نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اور ممکنہ اعلیٰ معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ان کے مضامین کو کسی’پہیلی‘ پر انحصار کیے بغیر آگے جانا چاہیے۔
اس کے ساتھ انھوں نے نومبر 1924 میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا، ’جنون کی ایک عام شکل‘۔
اس مضمون میں کہا گیا تھا کہ کراس ورڈ پاگل پن کی ایک ایسی شکل ہے جس میں لوگوں نے الفاظ کی تلاش میں اپنا وقت برباد کیا اور ایک طرح کے گناہ کے مرتکب ہوئے۔
مضمون کے مطابق ’اس سے سوائے ایک ہلکی پھلکی ذہنی ورزش کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور یہ لوگوں کے لیے خالی اور تھکا دینے والی بے کار سرگرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں جو وہ اپنے فارغ وقت میں کرتے ہیں۔
ابھی جس مضمون کی گرد نہ تھمی تھی کہ اس کے دو ماہ بعد کیلیفورنیا کے سیکرامینٹو سٹار نے ایک مضمون شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کراس ورڈ پہیلیاں انسان کی یادداشت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
اس مضمون میں ہسپتال میں ایک ایسے مریض کے بارے میں بات کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر کی تشخیص کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کراس ورڈ گیمز کی ’ لت‘ کی وجہ سے اس شخص کو بھولنے کی بیماری کی ایک سنگین قسم کا سامنا تھا۔
اس دوران کئی ’کراس ورڈ انسومنیا‘ (بے خوابی کی بیماری) کے کیسز بھی رپورٹ ہوئے، جبکہ ماہرین امراض چشم نے خبردار کیا کہ یہ شوق سر درد اور بینائی کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔
کراس ورڈ پزلز کے سحر کا شکار امریکہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس واقعہ نے بحراوقیانوس کے دوسری طرف بھی توجہ مبذول کروائی، جہاں نیویارک ٹائمز جیسے معتبر اخبار نے 1924 میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ’ایک غلام امریکہ۔‘
دی ٹائمز آف لندن نے رپورٹ کیا کہ ’ پورا امریکہ کراس ورڈ پہیلی کے سحر کا شکار ہو گیا ہے۔‘
اس مضمون میں کہا گیا ’ کراس ورڈ نے چند ذہین کاہل لوگوں کو تفریح دینے کے بہانے قومی خطرہ کی صورت اختیار کر لی۔‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے اسے حل کرنے میں ہر دن آدھا گھنٹہ صرف کیا جبکہ اس دوران وہ موثر کام کر سکتے تھے۔
’مزدوروں کی ہڑتالوں سے ضائع ہونے والے وقت سے کہیں زیادہ پیداواری سرگرمی کا نقصان کراس ورڈ پزلز کھیلنے میں گزرتا ہے۔‘
اگلے سال تک برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کی اہلیہ کوئین میری کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کے دیگر ارکان بھی اس شوق کے عادی ہو چکے تھے۔
تاہم اس کھیل کو سست ترین اورغیر ملنسارعادت کے طور پر حقیر ہی جانا جاتا رہا ۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے جوڑے کو کراس ورلڈ کی پہلیاں عدالت تک لے گئیں جہاں بیوی نے اپنے شوہر کو رات گئے تک کراس ورڈ کھیلنے کے باعث دن کے 11 بجے تک سونے کی شکایت پر مقدمہ کر دیا۔
کراسورڈ پزل کے (خود غرض) شائقین کو لائبریری سے مستعار لیے گئے اخبارات کو جمع کرنے سے روکنے کے لیے، عوامی لائبریریز نے پزل میں دی گئی خالی جگہوں کو ہاتھ سے کراس کرنا شروع کر کے گویا کراس ورڈ پزل کے شائقین سے اعلان جنگ کر دیا۔
یکم فروری 1930 کوخاموشی کے ساتھ ٹائمز آف لندن نے اپنا پہلا کراس ورڈ پزل شائع کیا۔
دوسری جانب نیویارک ٹائمز ایک اور دہائی تک بغیر کسی کراس ورڈ پہیلی کے امریکہ کا واحد بڑا میٹروپولیٹن اخبار رہا تاہم 15 فروری 1942 کو پرل ہاربر پر فضائی حملے کے دو ماہ بعد نیویارک ٹائمز نے اپنے موقف میں نرمی کی۔
نیویارک ورلڈ کے ایڈیٹر کے 30 سال قبل کیے گئے فیصلے کی مانند آخر کار اگست میں فیصلہ کیا کہ اس قسم کی پہیلی کوئی فضول ذہنی خلفشار نہیں بلکہ ایسے تاریک وقت میں قارئین کے لیے (مثبت ذہنی مشق کے طور پر) ضروری ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty
ٹیڈی بیئرز کے خلاف پاگل پن
اور اب آتے ہیں ٹیڈی بیئرز کے خلاف پھیلائے جانے والی غلط فہمیوں کی جانب۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ 1902 میں مسیسیپی میں ریچھوں کا شکار کرنے گئے تاہم اس دوران ان کو ایک بھی ریچھ نہیں ملا تھا۔
صدر کے اس شکار کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے معاونین نے ایک کالے ریچھ کو درخت سے باندھ کر ان کو گولی چلانے کا کہا۔ تاہم روزویلٹ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اسے شکار کے اصول کے منافی قرار دیا۔
اس واقعے کی خبر دور دور تک پھیل گئی اور اسے پھیلانے والوں میں سرفہرست اخبار واشنگٹن پوسٹ تھا جس میں خبر کے ساتھ ایک کارٹون تھا اور اسی نے بروکلین کینڈی سٹور کے مالک مورس میکٹوم کو ٹیڈی بیئرز بنانے کی ترغیب دی۔
روزویلٹ سے ان کی عرفیت ( پیار کا نام) استعمال کرنے کی اجازت مانگنے کے بعد انھوں نے اپنے ٹوائے کا نام ٹیڈی بیئررکھا اور اسے ’ہاٹ کیک‘ کی طرح بیچنا شروع کر دیا جسے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اورجلد ہی ٹیڈی بیئرز امریکی بچوں کے کھلونوں کا لازمی حصہ بن گئے لیکن یہی بات مائیکل جی ایسپر نامی پادری کے غصے کا سبب بن گئی۔
مشی گن میں سینٹ جوزف چرچ کے منبر سے پادری نے اس کے خلاف تباہ کن محاذ کھول دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’آج اس قوم کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ’نسلی خودکشی‘ ہے اور اسی نے ہمارے بچپن کی روایتی گڑیا کو’ ٹیڈی بیئر‘ کے نام سے پروان چڑھایا ۔ اس طرح گھناؤنی شیطانیت کو فیشن کے طور پر تبدیل کر کے اب اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔‘
ان کو خدشہ تھا کہ ٹیڈی بیئر لڑکیوں کو اپنی جنس کے اصول سمجھے جانے والے عناصر سے دور کر رہے ہیں اور ان میں ماں بننے کی جبلت کو دبا رہے ہیں اور ان سب کی وجہ اور ذمہ دار ٹیڈی بیئرز ہیں۔
’لڑکی کو اس تماشے میں جانور سے لپٹتے اور چومتے بھی دکھایا جاتا ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پادری نے موقف پیش کیا کہ ٹیڈی بیئرز کے جنون ںے امریکیوں کی نسل کشی میں تیزی آئے گی۔ ’میں نے اس سے زیادہ نفرت انگیز کوئی چیز نہیں دیکھی جس میں ایک لڑکی کو اس تماشے میں جانور سے لپٹتے اور چومتے بھی دکھایا جاتا ہے۔‘
لیکن امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کے ایک پادری نے جو کچھ کہا وہ اتنی اہمیت کیوں اختیار کر گیا۔
دراصل پادری کی اس تقریر کی مقامی سطح پر خبریں وائرل ہوگئیں اور ان کی تنبیہ انتہائی معزز اخبارات تک بھی پہنچی جس نے اس ’خطرے کی گھنٹی ‘ کی وجہ پر گویا تصدیق کی مہر لگا دی۔
تہذیب اور روایت کے خلاف کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس ایسی بھی تھیں جنھوں نے اس بیہودہ پن کا مذاق اڑایا، جبکہ نیوز پیلیڈیم جیسے دیگر اداروں نے روزویلٹ کی خاموشی پر سوالات اٹھا دیئے۔
امریکی صدر شاید زیادہ اہم معاملات میں مصروف تھے لیکن جو سوال اٹھایا گیا وہ درست تھا کہ بہر حال، ٹیڈی بیرز پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ ایک ایسی چیز کو فروغ دیتا ہے جس سے روز ویلیٹ کو نفرت ہے یعنی امریکی ریس (نسل) کا خاتمہ۔
یہ تصور یوجینکس تحریک سے پیدا ہوا تھا۔ اس تحریک کے مطابق ایک پوری ریس(نسل) جب بچے پیدا نہیں کرتے تو ان میں خودکشی کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے اور ان میں شرح اموات اور شرح پیدائش برابر ہونے کے باعث وہ نسل خاتمے کے خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے ۔
اس کے بعد تقریباً تین دہائیوں تک روزویلٹ نے بار بار اس خطرے کے بارے میں خبردار کیا، انتہائی سخت انداز میں، تقریروں اور خطوط میں، جیسے کہ انھوں نے لکھا۔
’جو مرد یا عورت جان بوجھ کر شادی سے اجتناب کرتا ہے اور اس کا دل اتنا سرد ہے کہ کوئی جذبہ نہیں جاگتا اور دماغ اتنا سطحی اور خود غرض ہے کہ اولاد پیدا کرنا پسند نہیں کرتا ہے، وہ واقعی نسل انسانی کا مجرم ہے اور اس کی توہین ہونی چاہیے ۔ تمام صحت مند لوگوں کی طرف سے ان کے لیے نفرت کا پیغام ہے۔‘
لیکن جب نامہ نگاروں نے ان سے ریورنڈ ایسپر کے تبصروں پر ان کی رائے پوچھی تو وہ ہنس پڑے۔ صحافیوں نے نوٹ کیا کہ روزویلٹ نے وہ سب دلچسپی سے پڑھا ہے، لیکن ان کے پاس ٹیڈی بیئرز کے حق میں یا خلاف کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
Comments are closed.