کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی نے شارک اور ریز مچھلی پر تحقیق کی جس کے مطابق ایک سے دو دہائی میں ان مچھلیوں کی کچھ اقسام ممکنہ طور پر ناپید ہوسکتی ہیں۔
معظم خان نے کہا کہ پاکستان میں 1999 میں شارک 70 ہزار ٹن کے قریب شکار کی جاتی تھی جبکہ اب پاکستان میں سمندری شارک محض 14 سے 15 ہزار ٹن ہی مل پاتی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ شارک کا نسل بڑھانے کا عمل بہت سست ہوتا ہے، شارک کی کچھ نسلوں کا 30 سے 40 سالوں میں کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آسکا۔
معظم خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ریز 400 سے 500 ٹن سالانہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کو فروخت کرتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ سمندر کے بڑے شکاریوں کی آبادی میں کمی ایکو سسٹم متاثر کر رہی ہے۔
Comments are closed.