10 ہزار پاؤنڈز کے بدلے بچوں کو برطانوی شہریت دلانے والے ’جعلی باپ‘
- مصنف, پیٹرک کلیہان، دیویا تلوار اور خیو بی لو
- عہدہ, بی بی سی نیوز نائٹ
بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانوی مرد خود کو تارکینِ وطن خواتین کے بچوں کے باپ ظاہر کرنے کے لیے ہزاروں پاؤنڈز لے رہے ہیں۔
انھیں بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ پر اپنا نام لکھوانے کے لیے 10,000 ہزار پاؤنڈ تک کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ اس سے بچے کو برطانوی شہریت مل سکتی ہے اور ماؤں کو بھی بطور ’ریذیڈنٹ‘ ملک میں رہنے کے لیے ایک راستہ مل جاتا ہے۔
دھوکہ دینے والے گروہ فیس بک کو کاروبار کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اس طرح ہزاروں خواتین کی مدد کی ہے۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے قوانین کے تحت فیس بک پر اس طرح کے مواد پر پابندی ہے۔
بی بی سی نیوز نائٹ کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ یہ فراڈ برطانیہ کے مختلف علاقوں میں ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
بی بی سی کی تحقیقات میں پورے برطانیہ میں کام کرنے والے ان ایجنٹوں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو جعلی باپ بننے کے لیے برطانوی مرد ڈھونڈتے ہیں۔
ایک انڈر کوور رپورٹر نے ایک حاملہ خاتون کا روپ دھارا جو کہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہی تھی، اور ان لوگوں سے بات کی جو یہ خدمات پیش کرتے ہیں۔
تھائی نام کے ایک ایجنٹ نے انھیں بتایا کہ اس کے پاس متعدد برطانوی مرد ہیں جو جعلی باپ بن سکتے ہیں اور اس نے 11,000 پاؤنڈ میں ایک ’مکمل پیکج‘ پیش کیا۔
انھوں نے اس عمل کو ’بہت آسان‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ بچے کو برطانیہ کا پاسپورٹ دلانے کے لیے ’سب کچھ کریں گے۔‘
تھائی نے فیس بک پر اشتہار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حکام کو کامیابی سے دھوکہ دینے کے لیے ایک قائل کرنے والی کہانی گھڑیں گے۔
انھوں نے خفیہ محقق کا تعارف اینڈریو نامی ایک برطانوی شخص سے کرایا، جس کے بارے میں اس نے کہا تھا کہ وہ ایک باپ کا روپ دھارے گا۔ اینڈریو کو کُل فیس سے 8,000 پاؤنڈ ادا کیے جائیں گے۔
ملاقات کے دوران، اینڈریو نے اپنا پاسپورٹ دکھایا تاکہ یہ ثابت ہو کہ وہ برطانیہ کا شہری ہے۔ انھوں نے محقق کے ساتھ سیلفیاں بھی لیں۔
نیوز نائٹ کے ریسرچر اینڈریو کے ساتھ (ریسرچر کا چہرہ چھپا دیا گیا ہے)
بی بی سی نے جعلی باپ کی سروس کی پیشکش کرنے والے کسی بھی ایجنٹ کو پیسے نہیں دیے۔
جب تھائی کو بعد میں اس گروہ میں ملوث ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا اور کہا کہ وہ ’اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘
اینڈریو نے اس پر جواب کے لیے بی بی سی کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک اور ایجنٹ جو خود کو ’تھیکم‘ کہہ کر تعارف کروا رہی تھی اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ہزاروں حاملہ تارکین وطن خواتین کی مدد کی ہے۔
اس نے کہا کہ وہ ایک برطانوی مرد فراہم کر سکتی ہے، اس پر دس ہزار پاؤنڈز خرچ ہوں گے، اور اس کے علاوہ اس کی فیس 300 پاؤنڈ ہو گی۔
تھیکم نے محقق کو بتایا کہ ’جن مردوں کو میں استعمال کرتی ہوں وہ تمام یہاں پیدا ہوئے ہیں اور انھوں نے پہلے کبھی کسی بچے کے لیے اندراج نہیں کیا ہے۔‘
’میں سب کچھ سنبھالنا جانتی ہوں۔ پاسپورٹ نہ ہونے کے بارے میں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ ضرور مل جائے گا۔‘
تھیکم نے تبصرے کے لیے بی بی سی کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
امیگریشن کی وکیل اینا گونزالیز نے جعلی باپ کے سکینڈل کو ’ناقابل یقین حد تک تفصیلی طور پر مکمل‘ قرار دیا ہے۔
’یہ بہت عیاری سے بنا ہوا ہے، پولیس کے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل ہے۔ ایک طرح سے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خواتین کتنی مایوس ہیں اور برطانیہ میں رہنے کے حق کو حاصل کرنے کے لیے وہ کتنی ناقابل یقین حد تک گزرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
اگر کوئی تارکین وطن خاتون برطانیہ میں غیر قانونی طور پر ہے اور وہ کسی برطانوی شہری یا کسی ایسے مرد کے بچے کو جنم دیتی ہے جسے برطانیہ میں غیر معینہ مدت تک رہنے کی اجازت ہے تو بچہ پیدائشی طور پر خود بخود برطانوی شہری بن جاتا ہے۔
اس کے بعد ماں فیملی ویزا کے لیے درخواست دے سکتی ہے، جو اسے برطانیہ میں رہنے کا حق دے گا اور پھر مقررہ مدت میں وہ شہریت کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔
گونزالیز کہتی ہیں کہ ’یہ اصول بچوں کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ ان خواتین کو ویزا دینے کے لیے جن کے پاس برطانیہ کے کاغذات نہیں ہیں۔ یہ کوئی لوپ ہول (خامی) نہیں ہے۔ اسے ایسے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‘
بی بی سی یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ یہ فراڈ کس پیمانے پر ہو رہا ہے، کیونکہ ہوم آفس ان کیسز کی تعداد کے اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر تھا جن کی اس نے تحقیقات کی تھیں۔
یہ برطانوی بچوں کے غیر برطانوی والدین کے لیے دیے گئے ویزوں کی تعداد کا ڈیٹا بھی شائع نہیں کرتا ہے۔
تھی کم نے کہا کہ وہ برطانوی مرد کا انتظام کر سکتی ہیں
کوئی اِکا دُکا کیس نہیں
تاہم، پچھلے سال 4,860 فیملی ویزے ’ادر ڈیپینڈنٹس‘ یعنی ’دیگر انحصار کرنے والوں‘ کو دیے گئے تھے۔ یہ ایک کیٹیگری ہے جس میں وہ لوگ شامل ہیں جو برطانوی بچوں کے والدین کے طور پر برطانیہ میں رہنے کے لیے درخواست دیتے ہیں۔
پیدائشی سرٹیفکیٹ پر جان بوجھ کر غلط تفصیلات دینا ایک مجرمانہ جرم ہے۔
ہوم آفس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس نے جعلی پیدائشی سرٹیفکیٹس کے ذریعے امیگریشن فراڈ کو روکنے کے اور اس کا پتہ لگانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’صرف پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہی ولدیت کا کافی ثبوت نہیں ہوسکتا ہے‘ اور ایسے معاملات میں جہاں اسے پیش کرنے کی ضرورت ہے، وہاں ’اضافی ثبوت کی درخواست کی جا سکتی ہے تاکہ ہم جانچ پڑتال کو تسلی بخش طریقے سے مکمل کر سکیں۔‘
تاہم، امیگریشن کے وکیل ہرجاپ بھنگل کو شک ہے کہ ضروری کارروائی نہیں کی جا رہی ہے: ’یہ کوئی اِکا دُکا کیس نہیں ہے، یہ ممکنہ طور پر ہزاروں کی تعداد میں ہے۔۔۔ ہوم آفس نے ابھی اس کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ عمل بہت سی مختلف تارکین وطن کمیونٹیوں میں پایا جاتا ہے جن میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نائجیریا اور سری لنکا شامل ہیں، اور یہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔
نیوز نائٹ کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ملازمت کے متلاشیوں کے لیے کچھ ویتنامی فیس بک گروپس پر اس غیر قانونی عمل کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے۔
خواتین کو ڈی ایم (براہ راست پیغام) کے لیے کہا جاتا ہے
ہمیں ایسے اکاؤنٹس سے درجنوں پوسٹیں ملی ہیں جن میں جعلی باپ کے طور پر اپنی خصوصیات کے بارے میں فخر کیا گیا ہے اور ایسی خواتین کے اکاؤنٹس بھی ملے جو برطانوی مردوں کو اپنے بچے کا باپ ظاہر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک اکاؤنٹ نے پوسٹ کیا ’میں چار ماہ کی حاملہ ہوں۔ مجھے 25 سے 45 سال کے درمیان کی عمر کے ’سٹیزنشپ ڈیڈی‘ کی اشد ضرورت ہے۔‘
ایک اور میں کہا گیا: ’میں ایک سُرخ کتاب والا والد ہوں (یہ برطانوی پاسپورٹ کے لیے ویتنامی سلینگ یا عوامی بولی ہے)۔ اگر آپ حاملہ ہیں اور آپ کو ابھی تک والد نہیں ملا تو مجھے ڈی ایم کریں۔‘
فیس بک کی مالک کمپنی میٹا کا کہنا ہے کہ وہ ’فیس بک پر گود لینے یا پیدائشی سرٹیفکیٹ کی دھوکہ دہی‘ کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس مواد کو ہٹانا جاری رکھے گی جو اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
ہم نے ایک خاتون سے بات کی جس نے ہمیں بتایا کہ اس نے ایک مرد کو اپنے بچے کا باپ ظاہر کرنے کے لیے 9,000 پاؤنڈ ادا کیے ہیں۔
اس نے کہا ’وہ مجھ سے 30 سال بڑا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے پہلے بھی کسی اور عورت کے ساتھ ایسا کیا تھا۔‘
خاتون نے کہا کہ وہ اس شخص کے ساتھ زیادہ رابطے میں نہیں ہے۔ یہ جوڑا صرف تین بار ملا ہے جس میں ملاقات بھی شامل ہے جب وہ بچے کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے لیے رجسٹر آفس گئے تھے۔
ایک اور خاتون نے ہمیں بتایا کہ اس نے ایک آدمی کو اپنے بچے کا باپ بننے کے لیے 10,000 پاؤنڈ ادا کیے تھے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس نے اپنے امیگریشن سٹیٹس کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔
’اپنے بچے کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ لینے کے صرف ایک دن بعد مجھے پتہ چلا کہ اس کے پاس اصل میں شہریت ہی نہیں ہے۔ میں پاگل ہو گئی، کیونکہ میں نے پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر اس کی تفصیلات پہلے ہی درج کر دی تھیں۔ میں اسے تبدیل نہیں کر سکتی تھی۔‘
اب عورت کے بچے کے والد کے خانے میں ایک اجنبی کا نام ہے اور اب اس کے اور اس کے بچے کے پاس برطانیہ میں رہنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
ہرجاپ بھنگل کہتے ہیں کہ ہوم آفس کو مزید ویزا درخواستوں کی چھان بین کرنے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ذرا بھی شک ہو۔
’اگر کوئی بچہ برطانوی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے والدین میں سے ایک برطانوی ہے اور دوسرے کے پاس ویزا نہیں ہے تو یہ ڈی این اے ٹیسٹ کی سادہ سی درخواست کے لیے ایک بہترین کیس ہونا چاہیے۔‘
برطانیہ میں پیدائش کے اندراج یا بچے کے برطانوی پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتے وقت ڈی این اے ٹیسٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مسٹر بھنگل نہیں سمجھتے کہ اس جرم کے لیے بہت سے لوگوں پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسا کر رہے ہیں، کیونکہ کسی بھی قسم کے نتائج کا خوف نہیں ہے۔‘
Comments are closed.