ملک فیصل اکرم: امریکہ میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے کی اپنے بھائی سے آخری گفتگو، ’میں یہاں مرنے کے لیے آیا ہوں‘
44 سالہ ملک فیصل اکرم کا تعلق برطانیہ کے شہر لنکاشائر کے علاقے بلیک برن سے تھا
’ہتھیار پھینک دو’۔۔۔’میں مرنے کے لیے آیا ہوں’۔۔۔’یہ لوگ معصوم ہیں تم اپنے بچوں کا سوچو’۔۔۔’اب میری لاش ہی گھر واپس آئے گی۔’
یہ جملے امریکی ریاست ٹیکساس کے کولیول نامی علاقے میں یہودی عبادت گاہ میں موجود ملک فیصل اکرم اور اُن کے بھائی کے درمیان اّخری فون کال میں سُنے جا سکتے ہیں جب فیصل کا خاندان انھیں ہتھیار ڈالنے پر آّمادہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے کولیول نامی علاقے میں یہودی عبادت گاہ میں موجود چار افراد کو یرغمال بنانے والے برطانوی شہری ملک فیصل اکرم اوران کے بھائی کے درمیان آخری فون کال کی ریکارڈنگ ’جیوش کرونیکل‘ نے حاصل کی ہے۔
یہ گفتگو اس وقت ہوئی تھی جب کنگریگیشن بیتھ اسرائیل نامی کنیسا میں ملک فیصل اکرم چار افراد کو یرغمال بنا چکے تھے۔ اس کال کے دوران ملک فیصل اکرم کو یہ کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے کہ ’میں مرنے کے لیے آیا ہوں۔’
44 سالہ ملک فیصل اکرم کو دس گھنٹے کے محاصرے کے بعد ایف بی آئی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کہ تمام یرغمالی باحفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ملک فیصل عبادت کے دوران کنیسا میں یہ جھوٹ بول کر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے کہ وہ بے گھر ہیں، مگر داخل ہوتے ہی انھوں نے گن نکال لی تھی۔
کنگریگیشن بیتھ اسرائیل نامی کنیسا
جیوش کرونیکل کے مطابق یہ فون ریکارڈنگ سکیورٹی ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔ بی بی سی اس ریکارڈنگ کی تصدیق نہیں کر سکتا لیکن چند ماہرین کے کے مطابق یہ اصلی معلوم ہوتی ہے۔
حملہ آور ملک فیصل اور ان کے بھائی گلبر کے درمیان ہونے والی اس فون کال سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح فیصل کے خاندان نے انھیں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ساتھ فیصل کی خراب ہوتی ہوئی ذہنی حالت اور کنیسا میں بگڑتی صورتحال بھی دکھائی دیتی ہے۔
فون ریکارڈنگ مین سُنا جا سکتا ہے کہ فیصل کے بھائی انھیں بار بار کہتے ہیں کہ ہتھیار پھینک دو اور یہ کہ جن لوگوں کو تم نے یرغمال بنایا گیا ہے وہ معصوم ہیں۔ فون کال میں فیصل کے بھائی انھیں ان کے بچوں کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی کہتے ہیں۔
لیکن حملہ آور فیصل اپنے بھائی کو بتاتے ہیں کہ وہ مرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ ’شہید ہونا چاہتے ہیں۔’
اسی کال کے دوران فیصل اپنے بھائی کو بتاتے ہیں کہ انھیں یہاں پہنچے صرف دو ہی ہفتے ہوئے ہیں اور اب انھوں نے سب کو ہتھیار کے زور پر یرغمال بنا لیا ہے۔ ملک فیصل کہتے ہیں کہ ’اب میری لاش ہی گھر واپس آئے گی۔‘
مشکل سے سمجھ میں آنے والی گفتگو میں فیصل مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر یہودیوں اور امریکی فوجی کاروائیوں پر غصے کا اظہار کرتے سنائی دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
فیصل کی جانب سے اس یہودی عبادت گاہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع جیل فورٹورتھ میں قید پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
یہودی عبادت گاہ کے ربی چارلی سائٹرون واکر
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے اور قتل کی کوشش کرنے کے سات الزامات میں مجرم قرار دیا تھا اور انھیں 86 سال قید کی سزا سُنائی تھی۔
فیصل اپنے بھائی کو بتاتے ہیں کہ وہ دو سال سے اس موقعے کا انتظار کر رہے تھے جس کے لیے انھوں سے خدا سے بہت دعا مانگی تھی۔
واضح رہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی MI5 نے 18 ماہ قبل ملک فیصل اکرم کے خلاف تحقیقات کی تھیں جس کے بعد کہا گیا تھا کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔
برطانوی خفیہ ایجنسی نے فیصل کو 2020 تک ایک لسٹ میں شامل رکھا تھا اور اسی سال کے آخر میں تحقیقات کی گئی تھیں۔
لیکن برطانیہ میں کریمینل ریکارڈ یافتہ فیصل کا نام 2021 تک برطانوی خفیہ ایجنسی کی اس لسٹ سے ہٹایا جا چکا تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ کسی قسم کا خطرہ نہیں ہیں۔
اب تک سامنے آنے والی تحقیقات کے مطابق فیصل امریکہ میں نیو یارک کے جے ایف کے ائیرپورٹ سے واقعے سے دو ہفتے قبل پہنچے اور پولیس ذرائع کے مطابق انھوں نے امریکہ میں ہی وہ ہتھیار حاصل کیا جو بعد میں کنیسا میں استعمال کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ فیصل کے بھائی گلبر اس واقعے میں یرغمال بنائے جانے والے افراد سے معافی مانگ چکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے بھائی ذہنی مریض تھے۔
برطانیہ کے شہر بلیک برن جہاں سے فیصل کا تعلق تھا ان کے دوستوں کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں کہ ملک فیصل اکرم کی ذہنی حالت دن بدن بد تر ہو رہی تھی۔ انھوں نے اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ فیصل امریکہ تک پہنچ کیسے گئے۔
واقعے کے بعد تحقیقات کے دوران برطانیہ میں دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن انھیں رہا کیا جا چکا ہے۔
Comments are closed.