یوکرین روس جنگ: یوکرین کی ’غیر متزلزل مزاحمت کی علامت‘ شہر ماریوپل جو 80 دن میں کھنڈر بن گیا
- لندن سے پال ایڈمز اور نیِپرو سے ہوگو بچیگا
- بی بی سی نیوز
تھیٹر جو شہر کا دل کہلاتا تھا۔
تقریباً تین ماہ تک جاری تابڑ توڑ حملوں کے بعد ماریوپل روس کے قبضے میں جا چکا ہے۔ یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ محصور ساحلی شہر میں اس کا حربی مشن ختم ہو گیا ہے۔
یوکرین کے کسی دوسرے شہر کے مقابلے میں ماریوپل شدید روسی سفاکیت اور یوکرین کی غیر متزلزل مزاحمت کی علامت بن کر ابھرا ہے۔
روس نے ایک ماہ کی جنگ کے بعد اعلان کیا کہ انھوں نے ماریوپل شہر کو فتح کر لیا ہے۔ ماسکو حکام نے بتایا کہ شہر کے ازووسٹل سٹیل پلانٹ کا دفاع کرنے والے آخری جنگجو اب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔
کئی مہینوں تک یوکرینی فوجیوں نے اس بڑے کمپلیکس پر قبضہ قائم رکھا تاکہ روس شہر پر مکمل کنٹرول قائم نہ کر سکے۔ تاہم جمعے کو اس جنگ کے اب تک کے سب سے تباہ کن محاصرے کا خاتمہ ہو گیا، ماریوپل اب مکمل طور پر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔
بدھ 23 فروری کو ایوان سٹینِسلاسکئی اپنا کیمرا بیگ دفتر چھوڑ آئے تھے۔ وہ ماریوپل میں سوویت دور میورل (یادگاروں) کے بارے میں اپنی کتاب کا لے آؤٹ دیکھنے اپنے رفیق کار کے پاس گئے تھے۔
جمعرات کو جب وہ اپنے بند آفس پہنچے تو وہ مشرق سے آنے والی گھن گرج کی آوازیں صاف سن سکتے تھے۔ شہر گولہ باری کی زد میں تھا۔
جنگ میں شدت آئی اور گولیاں چلنے کی آوازیں مغرب کی جانب سے بھی سنائی دینے لگیں تو ایوان نے اپنا بستر ہال کے اندر لگا لیا۔
انھوں نے پریمورسکی کے علاقے میں واقع اپنے فلیٹ کی کھڑکی کے سامنے اپنی بہت ساری کتابوں کا ڈھیر لگا دیا جن میں انسائکلوپیڈیا آف یوکرین راک میوزک بھی شامل ہے۔
چھتیس سالہ فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ ’یوں سمجھ لیں کہ لائبریری بے کار نہیں گئی۔‘
ایوان سٹینِسلاسکئی کو اپنے شہر ماریوپول کی عکاسی کرنا بہت پسند تھا
ایک دوسرے علاقے کالمیوسکی کے 47 برس کے بزنس مین یوہین نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔
انھوں نے اپنی فیملی کو ضروری سامان باندھ کر رکھنے کو کہا تاکہ وقت پر شہر چھوڑ سکیں۔ مگر جب وہ دفتر سے واپس آئے تو سامان بندھا ہوا نہیں تھا۔ ان کے گھر والے شہر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔
اس اپارٹمنٹ بلاک میں 43 سالہ نٹالیہ اور 41 سالہ آندرے اس ڈبل روٹی کے آخری ٹکڑے کاٹ رہے تھے جس کی قیمت وہ مشکل سے ادا کر پائے تھے۔ انھوں نے اسے خشک کر لیا تھا تاکہ آنے والے ہفتوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے کھا سکیں۔
ماریوپول کا ایلِچ سٹیل پلانٹ
کالمیوسکی ہی میں 52 سالہ پیرامیڈِک ولادمیر بھی اپنے کچن میں اس خبر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب انھیں پتہ چلا کہ روسی فوجی کرائمیا سے ایک اہم فوجی راستے پر مارچ کر رہے ہیں تو ان کی سانس رک گئی۔ تب انھیں پتہ چلا کہ یہ ایک مربوط اٹیک تھا۔
ایمبولینس سروس سے آپریٹر فون پر تھی۔ اس نے ولادمیر سے کہا کہ معمول کی کالز کو نظر انداز کر دو، ’زخمیوں کو تلاش کرو!‘
بائیس سالہ انجنیئر مارییا نے پہلے دھماکے کے بارے میں سوچا کہ شاید کوئی طوفان تھا۔ پھر انھوں نے دوسرا دھماکہ سنا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں پتہ نہیں تھا کہ کیا کریں۔ میرے پاس اپنے مستقبل اور منصوبوں کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ مجھے اپنے کھانے پینے کی اور بلیوں کی فکر تھی۔‘
انھیں ایک دم سے اندازہ ہوا کہ جس دکان میں وہ کام کرتی تھیں وہاں پچھلے چند روز کے دوران فوجی نیلے اور پیلے رنگ کی ٹیپ خریدنے کے لیے کیوں آ رہے تھے ۔۔۔ اپنی وردی لگانے کے لیے۔
ماریوپول کا ساحل بہت مقبول ہوا کرتا تھا
جنگ چھِڑنے کے چار روز کے اندر لڑائی قریب تر آ رہی تھی۔ ایسے میں ایوان اور ان کی بیوی نے ایک مقامی سپرمارکیٹ کے تہہ خانے میں پناہ لے لی۔
یہ ایک محفوظ جگہ تھی، اور ایوان کو احساس ہوا کہ گھن گرج کی آواز کے کم ہونے کے ساتھ ان کے بڑھتے ہوئے اضطراب میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے۔
روزمرہ زندگی بس ضروری معمولات تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
اپنی موجودہ جائے پناہ لویو سے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم غاروں میں رہنے والوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ آگ جلانے کے لیے ہمیں لکڑی کاٹنی پڑ رہی تھی، اسی آگ پر کھانا پکاتے تھے۔
’میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سنا جو بھوک مٹانے کے لیے کبوتر کھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔‘
ان کے اردگر نظم و نسق بتدریج خراب ہو رہا تھا۔ انھوں نے ان واقعات کو ایک ڈائری میں قلمبند کیا اور بعد میں آنلائن شائع کیا۔
چھ مارچ کی اینٹری ہے: ’پتھر کا دور واپس آ چکا ہے۔‘ انھوں نے یوکرینی شہریوں کے ہاتھوں ہونے والی لوٹ مار کے بارے میں لکھا جو دکانوں میں کمپیوٹر سے لے کر انڈرویئر تک لوٹ کر لے جا رہے تھے۔
ایوان نے لکھا، ’ہم اپنے ہی بدترین دشمن ہیں۔‘
پھر انھیں خیال آیا کہ شاید اپنی بقا کا یہ ہی راستہ ہے۔ چند ہفتوں ہی میں ماریوپول ٹوٹ کر بکھر گیا۔ روسی فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا، اور بجلی اور پانی کی سپلائی پر حملے شروع کر دیے۔ نو مارچ کو روسی فضائیہ نے میٹرنیٹی ہاسپٹل کو نشانہ بنایا۔
اس کے ایک ہفتے بعد تھیٹر کو نشانہ بنایا گیا حالانکہ اس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا کہ یہ سولین شیلٹر (شہری پناہ گاہ) ہے۔ ایوان دنگ تھے کہ یہ سب کتنی تیزی سے ہوا۔
بمباری کے بعد تھیٹر
وہ کہتے ہیں، ’پورا شہر، اس کا ڈھانچہ، سپلائی کا سارا نظام ہر چیز چند دنوں کے اندر برباد ہو چکی تھی۔‘
تہہ خانے میں بیٹھے ہوئے انھیں احساس ہوا کہ لوگوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’شیلٹر کے اندر آپ بس انتظار ہی کر سکتے ہیں۔ کچھ بہار کے شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، کچھ اگلی صبح کا، کچھ جنگ کے ختم ہونے کا۔ اور کوئی اس بم کا منتظر ہے جو آ کر گرے اور انھیں موت کی گھاٹ اتار دے۔‘
2014 میں ایک سرکاری عمارت پر روس نواز علیحدگی پسندوں کے قبضے کے بعد ایک ناکے پر گارڈ پہرا دے رہا ہے
جب سنہ 2014 میں پہلی بار روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو تھوڑے عرصے کے لیے ماریوپول کا کنٹرول حکومت کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔
سنہ 2015 میں باغیوں کے ایک راکٹ حملے میں شہر کے مشرقی کنارے پر کم سے کم 30 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
اگرچہ کچھ عرصے کے بعد جنگ کی شدت ختم ہو گئی تھی پھر بھی دور کہیں سے گولے پھٹنے کی گونج ماریوپل کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔
مگر شہر کی زندگی جامد نہیں ہوئی۔ یوکرینی حکومت نے دونیسک کے باغیوں کے قبضے میں جانے کے بعد میریوپل کو دونیسک اوبلاسٹ کے خطے کا انتظامی دارالحکومت قرار دے دیا۔
ایوان کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد تمام درکار وسائل اور توجہ حاصل ہونے لگی تھی۔‘
ماریوپول کی خوبصورت ساحلی پٹی
گذشتہ اکتوبر میں شہر کے میئر وادیم بوئیچینکو نے شہر کی بلدیاتی سہولتوں کو ملک میں سب سے بہتر قرار دیا تھا۔
سنہ 2021 میں ماریوپول کو یوکرین کا ’بگ کیپیٹل آف کلچر‘ یعنی بڑا ثقافتی مرکز قرار دیا گیا تھا۔ وہاں پر امریکہ کے ڈزنی لینڈ کی طرز پر یوکرین کا سب سے بڑا واٹر پارک بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
ایک جانب ماریوپول پھل پھول رہا تھا تو دوسری طرف باغیوں کے زیر قبضہ دونیسک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ پیرامیڈک ولادمیر کا خیال ہے کہ جب باغی ماریوپول واپس آئے تو وہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے انتقام سے بھرے ہوئے تھے۔
ولادمیر آخرکار جب شہر چھوڑ کر جانے لگے تو ایک چیک پوائنٹ پر باغیوں نے ان سے کہا ’اگر ہماری زندگی جہنم ہو گی تو تمھاری زندگی بھی جہنم ہو گی۔‘ ولادمیر کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیں حسد سے دیکھتے تھے۔‘
ولادمیر کا خیال ہے کہ روس نواز علیحدگی پسند انتقام کے جذبے سے بھرے ہوئے تھے
بزنسمین یوہین ماریوپول میں زندگی کو بہت ہی خوشحال قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شہر کو پھر سے بنایا گیا تھا، تمام سڑکیں ٹھیک اور پبلک ٹرانسپورٹ بہتر ہو گئی تھی۔‘
ان کی فرم نے جو عمارتوں کی بحالی اور مرمت کا کام کرتی تھی دوسرے منصوبوں کے علاوہ ماریوپول کی 240 سال پرانی پہچان واٹر ٹاور کی مرمت کی تھی۔
وہ کہتے ہیں، ’یہ محنت کشوں کا شہر ہے۔ اپنے کارکنوں کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ وہ شام کے 6 بجے کام بند کر دیں۔ وہ زیادہ دیر تک کام کرنا چاہتے تھے۔‘
ایوان سٹینِسلاسکئی کی کھینچی ہوئی ماریوپول کے واٹر ٹاور کی تصویر
ان کا کہنا ہے، ’میرے لیے یہ ایک بنیادی سوال ہے، اگر آپ کسی شہر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اسے تباہ کیوں کرتے ہیں۔ (روسیوں کو) سوچنے سمجھنے والے لوگ نہیں چاہییں، انھیں تو زمین چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب روسی انھیں ٹیلی فون پر واپس آ کر ماریوپول کی تعمیرِ نو کرنے کا کہتے ہیں۔
’لیکن اگر ماریوپول روسی قبضے میں رہتا ہے تو وہاں پر کوئی مستقبل نہیں ہوگا ۔۔۔ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوگا جس کے لیے زندہ رہا جائے۔ ایک ایسے جگہ رہنے کا مطلب ہے اپنے بچوں کا مستقبل برباد کرنا۔‘
پانچ ملین کی آبادی میں سے اب وہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو وہاں رہ گئے وہ بھی جانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے نم آلود آنکھوں کے ساتھ کہا، ’میں ماریوپول سے آ گیا ہوں مگر میری روح وہیں رہ گئی ہے۔‘
روسیوں نے ماریوپول کی از سر نو تعمیر کے لیے بزنسمین یوہین سے رابطے شروع کر دیے ہیں
نتالیا اور ان کے شوہر آندرے اِیلِچ پلانٹ میں کام کرتے تھے۔ لوہے اور سٹیل کا یہ پلانٹ ایوان کی کھینچی ہوئی ایک تصویر میں نمایاں نظر آتا ہے۔
وہ دیر تک کام کرتے تھے اور تفریح کے لیے دستیاب وقت بہت نایاب تھا۔
آندرے کہتے ہیں ’شہری حکام نے سنگ مرمر کے ٹائیل لگوائے، گھاٹ بنوائے تاکہ ساحل سمندر پر لگی ہوئی بینچوں پر بیٹھ کر نظارہ کیا جا سکے۔‘
ان کی بیوی کا کہنا ہے ’یہ پارکوں، فواروں اور کنسرٹ کا جیتا جاگتا شہر تھا، ایک یورپی شہر۔‘
ماریوپول کا صنعتی علاقہ
ایوان نے اپنی تصاویر میں اس خوبصورت شہر کی عکاسی کی ہے۔ مگر اس کے ساتھ انھوں نے ماریوپول میں سوویت دور کی بنی ہوئی یادگاروں کی تصاویر بھی کھینچی ہیں۔
ایوان کا کہنا ہے کہ ان یادگاروں کی ثقافتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے، لیکن سوویت دور کی یاد اور یوکرین کی جدّت اور بڑھتی ہوئی یورپی پہچان ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’سیاست اس ثقافتی ورثے کو یوکرین کے فنی پس منظر میں گھل ملنے پہلے ہی رکاوٹ ثابت ہو رہی تھی۔‘
تین قوی جوانوں کا موزیئک
اسی لیے جب جنگ شروع ہوئی تو ثقافت خود بخود پس منظر میں چلی گئی۔
اپریل کی اٹھائس تاریخ کو ماریوپول کی سٹی کونسل نے روس کے ہاتھوں شہر کے عجائب گھر سے 2 ہزار سے زیادہ نوادرات کی مبینہ چوری پر شدید تنقید کی۔ ان نادر اشیا میں تورات کا ہاتھ سے لکھا ہوا ایک اور 200 سے زیادہ تمغے بھی شامل ہیں۔
ماریوپول کے لوکل ہسٹری میوزیم کی ڈائریکٹر نتالیا کپوسنیکووا نے روسی روزنامے اِزویسشیا کو بتایا کہ انھوں نے ایوان ایئوازؤسکی اور آرخپ کوینژی کی بنائی ہوئی تصاویر اپنے ہاتھ سے روسی کے حوالی کی ہیں، ان کا دعوٰی ہے کہ یوکرینی ’قوم پرستوں‘ نے عجائب گھر کی 95 فیصد نوادرات کو نظرِ آتش کیا۔
روس نواز جذبات کی حامل صرف وہ ہی واحد مقامی اہلکار نہیں ہیں۔ اپریل کی 9 تاریخ کو یوکرین کے پروسیکیوٹر جنرل نے میریوپول سٹی کونسل کے ایک رکن کوستیانتائن پر بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ روس نواز علیحدگی پسندوں نے انھیں دونسک کا میئر مقرر کیا تھا۔
کوستیانتائن کی روس نواز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں زبردست حمایت حاصل ہوئی تھی جبکہ صدر زیلنسکی کی جماعت پانچویں نمبر پر آئی تھی۔
اس کے علاوہ محض 20 فیصد خود کو ‘یورپی‘ سمجھتے ہیں جبکہ 50 فیصد سے زیادہ لوگ خود کو ‘سوویت‘ کہتے ہیں۔
مارییا کہتی ہیں کہ حملے کے بعد انھیں ہر روسی چیز سے نفرت ہوگئی ہے
نتالیا کے والد روسی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو انھوں نے اپنے شوہر سے معافی مانگنا پڑی۔ ’میں اپنے روسی ہونے پر شرمندہ تھی۔‘
انجینیئر ماریا کہتی ہیں کہ جنگ سے قبل ان کی مادری زبان روسی تھی تاہم جب بمباری شروع ہوئی تو ’مجھے تمام روسی چیزوں سے نفرت ہونے لگی، ان کی زبان، فلمیں اور دیگر اشیا۔‘
ماریوپل کی پیچیدہ شناخت آج کے یوکرین میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ 1980 کی دہائی تک یہ ملک سوویت یونین کا اہم حصہ تھا اور پھر یہاں سے کمیونیزم کا خاتمہ ہونا شروع ہوا۔ جو لوگ خود کو ’روسی‘ یا ’سوویت‘ کہتے تھے وہ بھی اپنے شہر کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس پُرتشدد کوشش کے ذریعے ان کے شہر کو ماسکو کے مدار میں داخل کر دیا جائے۔
جب روسی مداخلت کے دوران شہر کے دفاع کا لمحہ قریب آیا تو ماریوپل میں سوویت دور کی وراثت نے ہی سب سے اہم کردار ادا کیا۔ یہ میراث ماریوپل کے زیر زمین بنکروں میں دبی ہوئی تھی جیسے سٹیل پلانٹ ازوستال جسے سرد جنگ کے دوران سوویت حکام نے بنایا تھا۔
چھتیس بم شیلٹروں میں 12 ہزار سے زیادہ افراد کی گنجائش تھی۔ 1991 میں آزادی کے بعد کسی کو ان بنکروں کا خیال بھی نہیں آیا۔ مگر پھر 2014 میں جنگ شروع ہوگئی۔
ازوستال کے ڈائریکٹر جنرل، انور سکیتیشیویلی، کہتے ہیں، ’ہم سوچنے لگے کہ اگر جنگ شہر کے اندر تک پہنچ گئی تو ہم کیا کریں گے۔‘
بنکروں اور انھیں ملانے والی سرنگوں کے استعمال کی تربیت روزانہ کئی سالوں سے دی جا رہی تھی۔
فروری کے شروع میں جب جنگ کے سائے منڈلانے لگے تو زور و شور سے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ روسی حملے سے پہلے کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کر لی گئیں۔
حکام کو اندازہ تھا کہ بم شیلٹر جلد ہی لوگوں سے بھر جائیں گے، مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ ازوستال میریوپل کا آخری مورچہ ثابت ہوگا۔
آزوسٹل کی سٹیل فیکٹری میں ایک زخمی ملازم
جنگ دھیرے دھیرے ایوان کے اپارٹمنٹ سے قریب تر ہوتی چلی گئی۔ خوراک کی تلاش خطرے سے خالی نہ رہی۔ کبھی کبھی یوکرینی مارٹر دستہ آتا، فائر کرتا اور روسی فوجی کی جوابی کارروائی سے پہلے وہاں سے نکل جاتا۔
فوجیوں اور شہریوں کے مابین کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ایوان کی ڈائری کے مطابق میورپل میں مزاحمت کرنے والے عام شہری تھے جن میں سے اکثر کو وہ جانتے تھے، اور انھوں نے کسی نظریے کی بنیاد پر ہتھیار نہیں اٹھائے تھے بلکہ اس شدید نفرت کی وجہ سے لڑنے پر مجبور ہوگئے تھے جو انھیں ان لوگوں سے پیدا ہوگئی تھی جو ان سے ان کا طرز زندگی چھینا چاہتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں، ’انھوں نے مل کر ایک ’نازی‘ بٹالین بنائی اور پوری روسی فوج کو ڈرا دیا۔‘
جب شہر کے محافظ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے، تو ایوان نے تہہ خانے سے آنے والی آوازیں سنیں جو صدر زیلنسکی کو کوس رہی تھیں جنھوں نے میریوپل کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
صدر ولادمیر زیلنسکی (بائیں) 2019 میں ماریوپول کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول
شہر کے دفاع میں لڑنے والوں کی تمام تعریف کے باوجود یہ بات شروع سے عیاں تھی کہ میریوپل حکومت کی بڑی ترحیج نہیں ہے۔ کئی محاذوں پر روسی خطرات کے پیش نظر زیلنسکی حکومت نے دارالحکومت کو بچانے اور صدر پوتن کے منصوبے کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ روس جنگ سے پہلے کا اپنا ایک ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، یعنی روس کا کرائمیا اور باغیوس کے زیر قبضہ دونباس سے زمینی رابطہ قائم ہوگا۔ روس نے 2014 میں کرائمیا کا الحاق کیا تھا۔
مگر جو لوگ شہر میں پھنس گئے تھے ان کے لیے لڑنا یا زندہ رہنے کی کوشش کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
مارچ کی 13 تاریخ کو ایوان نے لکھا، ’بعض لوگ کہتے ہیں کہ میریوپل کو ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔‘
’ایسا لگتا ہے کہ ایوارڈ بعد از مرگ دیا جائے گا۔‘
ایوان کی کھینچی ہوئی واٹر ٹاور کے اندر کی تصویر
ایوان سے مزید برداشت نہ ہو سکا۔ ایک مقامی سپرمارکیٹ کے سامنے لاشوں کو قطار میں رکھا گیا تھا۔ جو لوگ خوراک کے لیے قطار میں کھڑے تھے اب ’مُردوں کی قطار‘ بن چکے تھے جو تدفین کے منتظر تھے۔
آخر 15 مارچ کو ایوان نے بھی اپنی فیملی کے چار ارکان اور اپنی بلی کو کار میں بٹھایا اور حکومت کے کنٹرول میں زیپوریژا کی جانب روانہ ہوگئے۔
اس تکلیف دہ سفر کے دروان ایک جگہ وہ کچھ دیر کے لیے رکے تو اپنی ڈائری میں لکھا، ’میں اس جگہ کو خیرباد کہہ رہا ہوں۔ میں محسوس کر رہا ہوں ہم یہاں کبھی واپس نہیں آئیں گے۔‘
ایک روز بعد ماریا بھی اپنے پانچ رشتہ داروں، ایک کتے کے ساتھ اور کچھ ذاتی اشیا کے ساتھ شہر سے چلی گئیں۔ راستے میں ان کی کار ایک حملے کی زد میں بھی آئی مگر یہ قافلہ پہلے زیپوریژا اور پھر نِپرو پہنچ گیا۔
اس کے اگلے روز نتالیا اور آندرے کو بھی پڑوسیوں نے اپنی کار میں لِفٹ کی پیشکش کی تو وہ بھی شہر سے نکل گئے۔ انھوں نے کملنائسکی کا رخ کیا جہاں وہ خاندان کے پرانے سکّے بیچ کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
اسی کاروان میں یوہن اور ان کی بیوی بھی دو دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ شہر چھوڑ گئیں۔ اب وہ میریوپل سے نِپرو پہنچنے والے دوسرے افراد کی مدد کرنے اور اب تک پھنسے ہوئے لوگوں کو نکلنے میں مدد دینے میں مصروف ہیں۔
ایوان جس عمارت میں رہتے تھے وہ اب کھنڈر بن چکی ہے
پیرامیڈِک ولادمیر کے لیے جب تک ممکن ہوا میریوپل میں ہی رہے تاکہ اپنی بوڑھی ماں کا خیال رکھ سکیں۔ مگر غذائی قلت اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے وہ انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد وہ 19 اپریل کو شہر چھوڑگئے۔ اب وہ نیپرو کے ایک ہسپتال میں رضاکارانہ کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’میری طرح ہزاروں ہزاروں خاندان ہیں۔ کتنے ہی لوگ مر گئے؟ کتنے خاندان گم ہوگئے؟‘
دو ماہ گزر جانے کے باوجود ایوان میریوپل کی ہلاکت خیزی کا سوچ کر جذباتی ہو جاتے ہیں۔
ان کی ڈائری کے اختتامی صفحات پر ان کی چشم تصور پر ابھر کر انھیں ستانے والے مناظر، کسی کی موت یا خوش قسمتی سے بچ جانے سے متعلق ٹیکسٹ میسجوں اور ان ٹیلی فون کالوں کا ذکر ہے جن کا جواب نہیں آیا۔
’آپ جس سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں وہ رینج سے باہر ہے۔‘
اضافی رپورٹنگ: کتریانا کِنکولووا اور اِلیا ٹولسٹو
Comments are closed.