یوکرین کی جنگ: کیا چین روس پر عائد پابندیوں کے اثرات کو ختم کر سکتا ہے؟
- کائے وانگ اور وان یوان سونگ
- بی بی سی ریئلٹی چیک
روس ایسے اتحادیوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اس پر لگی ہوئی اقتصادی پابندیوں کے اثرات کو کم کر سکیں۔
دوسری جانب چین نے اس تنازعے کے پر امن حل کا مطالبہ کرتے ہوئے اس میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
روس کے ساتھ چین کی تجارت میں اضافہ
چین کہتا ہے کہ وہ مغربی رہنماؤں کے مطالبے کے باوجود کہ اقتصادی پابندیوں کو کمزور نہ کیا جائے روس کے ساتھ اپنا ’نارمل تجارتی تعاون جاری رکھے گا۔‘
چین کے کسٹمز ڈیٹا کے مطابق اس سال کی پہلی سہ ماہی میں روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا اور یہ گذشتہ سال سے 28 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ مارچ میں جب روس نے یوکرین پرحملہ کیا تو اس کے بعد چین اور روس کے درمیان گذشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد تجارت میں اضافہ ہوا۔
سنہ 2021 میں روس کی مجموعی تجارت میں چین کا حصہ تقریباً 18 فیصد ہے، جو کہ گذشتہ سال تقریباً 147 ارب ڈالر تھا۔
فروری میں سرمائی کھیلوں کے دوران صدر پوتن کے دورہ بیجنگ میں دونوں ممالک نے کہا تھا کہ وہ سنہ 2024 تک تجارت کو 250 ارب ڈالر تک بڑھائیں گے تاہم کسی ایک بلاک کے حوالے سے یورپی اتحاد مجوعی طور پر روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہا ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ربیکا ہارڈنگ کہتی ہیں کہ ’یہ ناگزیر ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں یورپی اتحاد اور روس کے درمیان تجارت ماند پڑ جائے۔ موجودہ بحران نے یورپی یونین کے اندر سپلائی کو متنوع بنانے کی ضرورت پر توجہ مرکوز کی ہے۔‘
تیانجن میں چین کے ٹرمینل پر روس سے قدرتی گیس آتی ہے
کیا چین روس سے زیادہ توانائی خرید سکتا ہے؟
چین روسی تیل، گیس اور کوئلے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔
یوکرین پر جارحیت سے ایک ہفتہ قبل ہی دونوں ممالک نے روسی کوئلے کا ایک نیا معاہدہ کیا تھا جو کہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا تھا۔
صدر پوتن نے چین کے ساتھ تیل اور گیس کے نئے معاہدوں کی بھی نقاب کشائی کی تھی جو ایک اندازے کے مطابق تقریباً 117.5 ارب ڈالر کے تھے۔
دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ ایک نئی گیس پائپ لائن بچھائی جائے جسے پاور آف سائبیریا ٹو کہا جا رہا ہے۔ اس وقت جو پائپ لائن موجود ہے اس نے سنہ 2019 میں ایک 30 سالہ منصوبے کے تحت کام شروع کیا تھا جس کی لاگت 400 ارب ڈالر سے زیادہ تھی تاہم توانائی کے حوالے سے اب تک روس کی سب سے بڑی منڈی یورپی یونین رہی ہے اور یہ بلاک کو 40 فیصد گیس اور تقریباً 26 فیصد تیل فراہم کرتا ہے۔
ہارڈنگ کہتی ہیں کہ ’روسی تیل اور گیس کی چین کو برآمدات گذشتہ پانچ برس سے سالانہ نو فیصد سے زیادہ کی شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ بہت تیز ترقی ہے لیکن اس کے باوجود چین روسی تیل کے لیے یورپی یونین کی مارکیٹ کا نصف ہے۔‘
یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یورپی اتحاد اپنی گیس کی درآمدات میں دو تہائی کمی کر کے روسی توانائی پر انحصار کم کر رہا ہے۔
جرمنی نے، جو قدرتی گیس کے لیے روس کی اہم برآمدی منزل ہے، اعلان کیا ہے کہ وہ نئی نورڈ سٹریم ٹو گیس پائپ لائن کو معطل کر دے گا۔
ایک تجزیے کے مطابق روس اور چین کے درمیان طے شدہ ایک نئی پائپ لائن کے ذریعے سپلائی میں نورڈ سٹریم ٹو پائپ لائن کی گنجائش کا صرف پانچواں حصہ ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ واضح نہیں کہ سائبیریا سے نئی گیس پائپ لائن کب سٹریم پر آئے گی۔
طویل مدت کے لیے چین گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کوئلے پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے روسی گیس کی درآمدات کو بڑھانا چاہے گا لیکن اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2022 کے پہلے دو مہینوں میں روس سے چین کی خام درآمدات میں نو فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس کی سرکاری ریفائنریز کے بھی محتاط رہنے کی اطلاع ہے اور وہ فی الحال روسی تیل کے نئے معاہدوں پر دستخط نہیں کر رہی ہیں۔
سنہ 2017 میں روس سے چین کے لیے گیس پائپ لائن پر کام ہو رہا ہے
کیا چین روس کی فوجی حمایت کر سکتا ہے؟
میڈیا رپورٹس میں امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ماسکو نے یوکرین پر حملے کی حمایت میں چین سے فوجی ساز و سامان طلب کیا۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے اور اس نے ان رپورٹس کو ’غلط معلومات‘ قرار دیا۔
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں زیادہ تر ہتھیاروں کی نقل و حرکت اس کے برعکس ہوئی ہے۔
چین اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے کے لیے روسی فوجی ہارڈ ویئر پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو کہ سنہ 1989 کے تیاننمن سکوائر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں امریکی اور یورپی ہتھیاروں کی پابندیوں کے نفاذ کے باعث زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق سنہ 2017 اور 2021 کے درمیان چین کی کل اسلحے کی درآمدات کا تقریباً 80 فیصد روس سے تھا۔
یہ چینی خریداری روس کی کل ہتھیاروں کی برآمدات کا 21 فیصد بنتی ہے، جو اس کا دوسرا سب سے بڑا عالمی صارف ہے لیکن چین آہستہ آہستہ اپنے فوجی سازو سامان بنانے کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔ اب یہ دنیا کا چوتھا بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
چین کا اسلحہ اب زیادہ جدید ہو رہا ہے۔ ایس آئی پی آر آئی کے سیمن ویزمین کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر اس کے ڈرونز میں ہی روس کی بہت دلچسپی ہو سکتی ہے۔
چین کے پاس جدید مسلح ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے
کیا چین روس کی مالی مدد کر سکتا ہے؟
کچھ روسی بینکوں پر سوئفٹ انٹرنیشنل بینکنگ پیمینٹ سسٹم کے استعمال کی پابندی ہے۔ اس کی وجہ سے چینی کمپنیاں مجبور ہیں کہ روس سے خرید و فروخت کم کریں کیونکہ پھر تاجروں کو سرمایہ کاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چین اور روس دونوں نے حالیہ برسوں میں ادائیگی کے متبادل طریقوں کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
روس کے پاس مالیاتی پیغامات کی منتقلی کا نظام (ایس ٹی ایف ایم) ہے جبکہ چین کے پاس کراس بارڈر انٹربینک ادائیگی کا نظام (سی آئی پی ایس) ہے اور دونوں اپنی اپنی کرنسیوں میں کام کرتے ہیں لیکن سوئفٹ نے عالمی تجارتی نیٹ ورک میں مالیاتی لین دین پر غلبہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان توانائی کی تجارت اب بھی زیادہ تر امریکی ڈالر میں ہی ہوتی ہے لیکن ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ مارچ میں کئی چینی فرموں نے روسی کوئلہ اور تیل خریدنے کے لیے یوآن کا استعمال کیا
روسی سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت روس اور چین کے درمیان تجارت میں صرف 17 فیصد چینی یوآن استعمال ہوتا ہے، جو 2014 میں 3.1 فیصد تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان توانائی کی تجارت اب بھی زیادہ تر امریکی ڈالر میں ہی ہوتی ہے لیکن ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ مارچ میں کئی چینی فرموں نے روسی کوئلہ اور تیل خریدنے کے لیے یوآن کا استعمال کیا۔
کیا چین روس کے ساتھ خوراک کی تجارت کو بڑھا سکتا ہے؟
چین گندم اور جو جیسے اناج کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہے اور اس کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک روس ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے ایک ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک چین نے بیماری کے خدشات کے پیش نظر روس سے گندم اور جو کی درآمد پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں لیکن ان کو اس دن اٹھا لیا گیا جب روس نے یوکرین پر حملے کا آغاز کیا تھا۔
Comments are closed.