یوکرین کو اگر امریکی ساختہ ایف 16 لڑاکا طیارے مل بھی جائیں تو کیا وہ روس کا مقابلہ کر سکے گا؟
- مصنف, عبدالجلیل عبدالرسولوف اور زانہ بیزپیچوک
- عہدہ, بی بی سی نیوز یوکرین
زمین سے یوکرین کی ٹیم کا حکم بڑا واضح ہے: ایک روسی Su-35 لڑاکا طیارے نے ’سلک‘ کی طرف سے اڑائے گئے لڑاکا طیارے پر میزائل فائر کیا ہے۔
پائلٹ اب جانتا ہے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے اپنے مشن کو ادھورا چھوڑنا ہو گا۔
سلک، پائلٹ کا نام نہیں بلکہ اس کا کال سائن ہے، تیزی سے اپنے مگ 29 کو اتنا نیچے کی طرف لے آتے ہیں کہ انھیں درخت نظر آتے ہیں۔
سوویت یونین کے دور میں ڈیزائن کیا گیا یہ پرانا طیارہ اس وقت جھولنا شروع ہو جاتا ہے جب آپ اسے اس کی آخری حد رفتار تک لے جاتے ہیں۔ سلک ان ٹاورز اور پہاڑیوں سے گزرتا ہے جن کا اس نے اس مشن کی تیاری کے دوران ایک نقشے پر بغور مطالعہ کیا تھا۔
ان کے مطابق ’سطح زمین کے قریب یہ پروازیں سب سے زیادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ آپ کو بہت زیادہ ارتکاز کی ضرورت ہے۔ اور کم اونچائی کی وجہ سے، آپ کے پاس محفوظ انخلا کے لیے وقت یا جگہ نہیں بچتی۔‘
یوکرین کے زمینی حملہ کرنے والے جیٹ طیارے اپنے فرنٹ لائن مشن کے دوران سلک جیسے لڑاکا طیارے کے ساتھ ہوتے ہیں۔
سلک کا کام روسی فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے حفاظت کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کے طیارے انھیں مار گرانے کے لیے زیادہ صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
جوس، جو ایک اور مگ-29 کے پائلٹ ہیں، کے مطابق ہمارا سب سے بڑا دشمن روسی Su-35 لڑاکا طیارے ہیں۔
ان کے مطابق ہم (روسی) فضائی دفاعی پوزیشنوں کو جانتے ہیں، ہم ان کی حدود کو جانتے ہیں۔ ان کا اندازہ کافی حد تک لگایا جا سکتا ہے، اس لیے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم (ان کے زون کے اندر) کتنی دیر ٹھہر سکتے ہیں۔ مگر لڑاکا طیاروں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، ایسے طیارے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایک اچھی فضائی تصویر ہوتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہم کب آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
روسی فضائی گشت یوکرین کی حدود میں گہرائی میں پرواز کرنے والے طیاروں کا پتہ لگاسکتے ہیں۔
روس کے R-37M میزائل 150-200 کلومیٹر کے فاصلے پر فضائی ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں جبکہ یوکرین کے راکٹ صرف 50 کلومیٹر تک ہی جا سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ روسی طیارے یوکرین کے بحری جہازوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور انھیں خطرہ لاحق ہونے سے بہت پہلے ہی مار گرا سکتے ہیں۔
روس کا 400 سے زیادہ یوکرائنی طیارے گرانے میں کتنی حقیقت ہے؟
روسی حملے کے آغاز کے بعد سے یوکرین کی فضائیہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے حالانکہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
روس کا یہ دعویٰ کہ اس نے 400 سے زیادہ یوکرائنی طیارے تباہ کر دیے ہیں۔ یہ دعویٰ قرین قیاس نہیں لگتا کیونکہ یوکرین کی فضائیہ کے حجم کے بارے میں آزادانہ اندازوں کے مطابق اس کے قابل استعمال طیاروں کی تعداد اس روسی دعوے سے کہیں کم ہے۔
آئی آئی ایس ایس ملٹری بیلنس 2022 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روسی حملے سے قبل یوکرین کی فضائیہ کے پاس 124 جنگی صلاحیت کے حامل طیارے تھے۔
روس کی فضائی برتری کو ختم کرنے کے لیے یوکرین چاہتا ہے کہ اس کے حامی ممالک اسے F-16 جیسے جدید طیارے فراہم کریں۔
یوکرائنی فضائیہ کے ایوی ایشن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کرنل ولادیمیر لوہاچوف کہتے ہیں کہ ’ہمارے پائلٹ بہت خطرہ مول لے کر طیارے میدان جنگ میں لے آتے ہیں۔ لیکن ایف-16 طیارے ہمیں ماضی کے دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو ’آپریٹ‘ کرنے کے اہل بنائیں گے۔‘
ایف 16 طیاروں کے میزائل 150 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ اس سے یوکرین کے پائلٹوں کو روسی طیاروں پر حملہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔
جوس کا کہنا ہے کہ ’یقیناً، ہم ایک ہدف بنے رہیں گے۔ لیکن یہ ایک برابری کی لڑائی ہوگی۔ فی الحال ہم کسی بھی طرح سے جواب نہیں دے سکتے ہیں۔‘
’کوئی وارننگ سسٹم نہیں‘
ایف 16 طیاروں میں بہتر ریڈار بھی ہیں جو ان پر فائر کیے گئے میزائلوں کا پتا لگا سکتے ہیں۔ فی الحال وہ آلات جو زمینی بنیاد پر ریڈاروں کی نگرانی کرتے ہیں، انھیں پائلٹوں کے ساتھ ان خطرات کے بارے میں زبانی بات چیت کرنی چاہیے، جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔
کال سائن پمبا کے ساتھ ایک Su-25 پائلٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے طیاروں میں (روسی راکٹ) لانچوں سے خبردار کرنے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے۔
یہ سب وژوئل ہے۔ روسی فضائی برتری کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین صرف فرنٹ لائن کے قریب اپنی فوجی ہوا بازی کی محدود تعیناتی کا متحمل ہوسکتا ہے، جو مستقبل میں کسی بھی جوابی کارروائی کی کامیابی پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔
جوس کے مطابق وہ روسی فضائیہ کے مقابلے میں 20 گنا کم پروازیں کرتے ہیں۔
یوکرین کے حملہ کرنے والے طیاروں پر لے جانے والے ہتھیار پرانے سوویت دور کے بموں اور راکٹوں کی انوینٹری سے آتے ہیں، جو سخت سپلائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
لیکن یہ صرف زمینی دستوں کے لیے فضائی مدد کے بارے میں نہیں ہے۔ ہوابازی کے ماہرین کے مطابق مغربی طیارے یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔
کرنل لوہاچوف کہتے ہیں کہ ’ہمارے طیاروں میں پرانے ریڈار ہیں جو روسی کروز میزائلوں کو نہیں دیکھ پاتے۔ ہم اندھی بلیوں کی طرح کام کرتے ہیں جو انھیں مار گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
جوس کا کہنا ہے کہ F-16 کے پاس مختلف قسم کے مغربی ہتھیاروں سے کروز میزائلوں کو ’ہماری سرحدوں پر لمبی رینج سے روکنے کی اجازت ملے گی، بجائے اس کے کہ انھیں وسطی یوکرین میں کہیں روکا جا سکے۔
محدود صلاحیت
یوکرین کے پائلٹوں کے مطابق پولینڈ اور چیکو سلواکیہ نے حال ہی میں جو MiG-29 طیارے یوکرین کو منتقل کیے ہیں، ان کے بنیادی مسائل دور نہیں ہو رہے ہیں۔
یہ وہ طیارے ہیں جن کے پاس وہی پرانے ہتھیار اور وہی محدود صلاحیتیں ہیں جو موجودہ یوکرائنی بیڑے کے پاس ہیں۔
لیکن امریکی انتظامیہ نے یوکرین کو F-16 بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یوکرین کو مغربی طیارے فراہم کرنے سے تنازع بڑھ سکتا ہے، جو امریکہ اور یورپ کو براہ راست جنگ میں گھسیٹ سکتا ہے۔
یہاں تک کہ یوکرین کے پائلٹوں کو بھی ان طیاروں کو اڑانے کی تربیت کی منظوری نہیں دی گئی۔
درحقیقت پینٹاگون کے دفاعی پالیسی کے انڈر سیکریٹری کولن کاہل نے دعویٰ کیا کہ F-16 طیاروں کی فراہمی کے لیے ’تیز ترین ٹائم لائن‘ بھی 18 ماہ کی ہوگی، اور اس لیے پائلٹوں کو ابتدائی تربیت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تاہم یوکرائنی حکام کو امید ہے کہ یہ طیارے یورپی ممالک سے حاصل کیے جائیں گے، جس کے لیے ابھی بھی امریکی رضامندی درکار ہوگی، لیکن اس کی فراہمی بہت تیز ہوگی۔
یوکرینی فوجی افسر کے مطابق جہاں تک پائلٹوں کی تربیت کا تعلق ہے تو ہم کسی بھی وقت محدود مدت کے لیے صرف ایک خاص تعداد میں لوگوں کو بھیجنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہاں اپنی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق اس لیے سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ چھوٹے گروپوں کو ابھی بھیجنا شروع کر دیا جائے تاکہ ہوائی جہاز آنے پر آپ کے پاس کافی پائلٹ تربیت یافتہ ہوں۔
یہ واضح ہے کہ یہ طیارے یوکرائن کی متوقع جوابی کارروائی کے لیے بروقت نہیں پہنچائے جا سکیں گے۔
ایف 16 کے اثرات کے بارے میں شکوک و شبہات
صدر ولادیمیر زیلنسکی پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ یہ آپریشن مغربی طیاروں کا انتظار کیے بغیر کیا جائے گا۔
کچھ ماہرین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایف 16 طیاروں کا اس جنگ میں کیا اثر ہو سکتا ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو پروفیسر جسٹن برونک کا کہنا ہے کہ یہ جہاز دفاع کی ایک اضافی تہہ فراہم کریں گے لیکن ’خود یہاں تک کہ ایف 16s کے ساتھ بھی جنگ کو تبدیل نہیں کریں گے۔‘
پروفیسر برونک کا کہنا ہے کہ روس کی طرف سے زمینی خطرے کی وجہ سے یوکرین کے پائلٹوں کو اب بھی فرنٹ لائنز کے قریب کہیں بھی بہت نیچے پرواز کرنا پڑے گی اور اس سے میزائلوں کی مؤثر رینج محدود ہو جائے گی۔
ان کے مطابق اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ فضائی طاقت کا استعمال جس طرح مغرب نے عراق، لیبیا، افغانستان جیسی جنگوں میں کیا، یوکرین میں ممکن نہیں ہے۔
کیا یوکرین کو ایف 16 بھیجنے کا فائدہ ہو سکے گا؟
ماہرین کے مطابق کسی ملک کو صرف پائلٹوں اور مکینکس کی تربیت سے آگے بڑھ کر انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔
ایف 16 کو بہت ہموار اور طویل رن وے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یوکرین کو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے موجودہ ہوائی اڈوں کو اس کے قابل بنانا ہوگا: ان کی بحالی، صفائی اور توسیع کو یقینی بنانا ہوگا۔
پروفیسر برونک کا کہنا ہے کہ لیکن اب یوکرین اگر یہ سب کرتا ہے تو روسیوں کو یہ سب خلا سے اور انسانی انٹیلی جنس ذرائع سے پتا چل جائے گا۔‘
ان کے مطابق اگر آپ صرف ایک یا دو اڈوں کا انتظام کرتے ہیں تو ایسے میں پھر ایف 15 یا ایف 16 کو چلانے کے لیے زمینی مدد قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو روسی یہ سب بھانپ لیں گے اور حملہ کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو بہت سے ہوائی اڈے بنانے ہوں گے۔ اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوکرین قابل اہلکاروں کی تعداد، سیاسی کوششوں اور لاجسٹک سپورٹ کے قابل ہے جسے دوسری صورت میں زمین پر ٹینکوں، توپ خانے یا فضائی دفاعی نظام جیسی دیگر چیزوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟‘
فی الحال پمبا، سلک، اور جوس جیسے یوکرائنی پائلٹوں کو اپنے پرانے سوویت دور کے جنگجوؤں اور حملہ آور طیاروں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
اوران طیاروں کی حالت یہ ہے کہ جب ایک الارم اشارہ کرتا ہے کہ ایک نیا جنگی مشن ہے، تو وہ اپنے طیاروں کی طرف بھاگتے ہیں۔ وہ میکینکس کو اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں کہ بورڈ میں موجود تمام سسٹم کام کر رہے ہیں۔
ان میں سے کچھ نے 100 سے زیادہ جنگی مشنز اڑائے ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہر پرواز آخری ہو سکتی ہے۔
Comments are closed.