یوکرین پر روس کے نئے حملے میں ’آواز سے پانچ گنا تیز‘ ہائپر سونک میزائلوں کا استعمال
خارکیو کے باہر راکٹ گرنے کے بعد مقامی لوگ جمع ہیں
- مصنف, پال ایڈمز اور ہینری ایسٹیئر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
یوکرین بھر میں روسی حملوں کی ایک نئی لہر میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان حملوں میں روس نے طاقتور ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جن میں ہائپرسونک میزائل بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق روس نے جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران کنزال ہائپرسونک میزائل، جو فضا میں اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں، فائر نہیں کیے تھے۔
اس لیے تازہ حملے کو اب تک کا سب سے شدید میزائل حملہ کہا جا رہا ہے۔
جمعرات کو روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے کہا کہ ’طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی، سمندری اور زمینی ہتھیاروں، بشمول کنزال ہائپرسونک میزائل سسٹم، نے یوکرین کے فوجی انفراسٹرکچر کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔‘
اس سے یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ زاپوریژیا کی توانائی منقطع ہوئی تاہم اسے بحال کر لیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ تابکار مواد کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بجلی استعمال ہوتی ہے۔
دوسری جانب یوکرینی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے 34 کروز میزائل اور چار ایرانی ساختہ شاہد ڈرون مار گرائے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بیلسٹک ہائپر سونک میزائلوں میں روس کی سرمایہ کاری کو نمایاں کیا ہے۔ یہ میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز سفر کر سکتے ہیں۔
یہ تقریباً ایک ماہ میں یوکرین کے توانائی کے انفراسٹرکچر پر روسی حملوں کی پہلی بڑی کوشش ہے۔
روس کے یوکرین کے بنیادی انفراسٹرکچر پر حملوں میں تیزی آنا قابل ذکر ہے۔
مغربی حکام کا خیال ہے کہ اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال سے روس کے پاس روایتی ہتھیاروں کی کمی کی نشاندہی ہوتی ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں ایک اہلکار نے بتایا کہ ’انھیں بہت سے درست ہتھیاروں کو حاصل کرنے میں کافی وقت لگ رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ ایک ساتھ بہت سارے میزائل نہیں چلا سکتے۔‘
یوکرین کی فوج آنے والے میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں بھی کافی ماہر ہو گئی ہے۔
ابتدائی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ مار گرایا گیا جس میں 70 فیصد سے زیادہ کروز میزائل گرائے گئے اور آدھے ڈرونز کو گرا لیا گیا۔
یوکرین کی فوج کے کمانڈر انچیف والیری زلوزنی کے مطابق، مزید آٹھ میزائلوں کو ناکام بنا دیا گیا جسے انھوں نے ’منظم جوابی اقدامات‘ قرار دیا۔
لیکن واضح طور پر پورے ملک سے آنے والی اطلاعات کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ ہر جگہ حملہ آور میزائلوں کو روکا نہیں جا سکا۔
آٹھ میٹر طویل ہائپر سونک میزائل دو ہزار کلو میٹر تک کی رینج رکھتا ہے اور اس کی رفتار آواز سے پانچ گنا تیز ہے
کچھ ہتھیار، جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ’کے-22‘ (K-22) اینٹی شپ میزائل، جو انتہائی بلندی سے اپنے ہدف پر تیزی سے گرتے ہیں، اُن کو روکنا کافی مشکل ہے۔
ایسا ہی ایس 300 طیارہ شکن میزائل نظام کے ساتھ ہے، جو کبھی بھی زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا، لیکن گذشتہ چھ ماہ کے دوران اسے حملے کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عسکری تجزیہ کار تازہ ترین اعداد و شمار کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ تلاش کریں گے کہ روس کے ہتھیاروں کا انتخاب ماسکو کی حکمت عملی اور باقی ماندہ ذخائر کے بارے میں کیا اشارہ دیتا ہے۔
آج کے حملوں سے پہلے، مبصرین نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ آیا روس ایسی حکمت عملی پر قائم رہے گا جو بظاہر کام کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔
گذشتہ چھ مہینوں میں یوکرین کے پاور گرڈ کو پہنچنے والے بے پناہ نقصان کے باوجود، یوکرین کو جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا ہے اور یوکرین کے زیادہ تر شہری طویل عرصے سے بجلی کی سپلائی میں کمی، تکلیف اور کبھی کبھار خطرے کے اب عادی ہو چکے ہیں۔
یوکرین کے انجینیئروں نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کے متعدد ٹرانسفارمرز، سوئچز اور دیگر اہم اجزا کے تباہ ہوجانے کے باوجود کامیابی کے ساتھ پورے ملک میں بجلی کی سپلائی برقرار رکھی ہے۔
کیئو اور دیگر شہروں میں حال ہی میں سٹریٹ لائٹس کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے، جو پیدل چلنے والوں کے لیے ایک بڑی سہولت ہے۔ یہ لوگ اب تک تاریک فٹ پاتھوں پر صرف اپنے موبائل فون کے ذریعے راستہ دیکھ پاتے تھے۔
Comments are closed.