یوکرین جنگ: ’میں جس روس کو جانتا تھا وہ نہیں رہا‘
- سٹیو روزنبرگ
- بی بی سی
ماسکو میں کوئی بم نہیں پھٹ رہے۔ شہر کسی غیر ملکی فوج کے محاصرے میں بھی نہیں۔ ماسکو کے شہری جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس کا یوکرین کی صورتحال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
ماسکو میں زندگی بالکل معمول کے مطابق نظر آتی ہے۔ ہر روز کی طرح ماسکو کے گارڈن رنگ کے چوک پر ٹریفک کا رش ہے۔
میرے سامنے والے میٹرو سٹیشن پر لوگوں کا رش ہے۔ حقیقیت میں زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
لیکن یہ معمول کی زندگی 24 فروری کو ختم ہو گئی جب روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے روسی افواج کو ‘سپیشل ملٹری آپریشن’ کے نام پر یوکرین میں کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا۔
مجھے اشتراکی دور کے روس میں بھی رہنے کا تجربہ ہے۔ اب دنیا کا سب سے بڑا ملک اب تبدیل ہو گیا ہے۔
چلیے مجھے ‘سپیشل ملٹری آپریشن رشیا’ کا احاطہ کرنے دیجیے۔
میں گاڑی میں بیٹھ کر سپر مارکیٹ تک گیا۔ عادت سے مجبور ہو کر میں نے ریڈیو لگایا۔ اس پر ماسکو کی گونج نامی سٹیشن لگا ہوا تھا۔ گونچ میرا پسندیدہ روسی ریڈیو سٹیشن تھا جو اطلاعات کا سب سے مستند ذریعہ تھا۔
لیکن حالیہ ہفتوں میں روس کے ذرائع ابلاغ کے تمام آزاد ذرائع کو بند کر دیا گیا ہے۔ اب گونج کی فریکوئنسی پر سرکاری ریڈیو سپٹنک چل رہا ہے جو یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔
گراڈن رنگ سے گزرتے ہوئے میں ایک تھیٹر کے سامنے سے گزرا جس کی عمارت پر لاطینی زبان کے حرف زیڈ کا ایک بہت بڑا بینر لگا ہوا تھا۔ زیڈ یوکرین پر روسی کارروائی کی علامت ہے۔
روس کے ریلوے کے ہیڈ کواٹر کی عمارت کے باہر بھی بہت بڑا زیڈ کا نشان بنا ہوا تھا۔ میں ایک لاری سے آگے نکلا تو اس پر بھی زیڈ کا سٹیکر لگا ہوا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں زیڈ کریملن کے ناقدین کے گھروں کے دروازوں پر بھی لکھ دیا گیا ہے۔
شاپنگ مال میں کاروبار عروج سے دور ہے۔ بہت سی دکانیں – بین الاقوامی برانڈز – بند ہو چکے ہیں۔ جب سے روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کیا ہے، سینکڑوں غیر ملکی کمپنیوں نے روس میں اپنی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔
سپر مارکیٹ میں شیلفیں بھری ہوئی ہیں۔ روس میں گذشتہ ماہ چینی کی قلت – گھبراہٹ کی خریداری کا نتیجہ – بظاہر حل ہو گیا ہے۔ لیکن مصنوعات کی رینج پہلے کی نسبت چھوٹی لگتی ہے۔ اور گذشتہ دو ماہ کے دوران قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
شاپنگ سینٹر کے باہر، میں ایک ڈاکٹر نادیزہدا سے بات کر رہا ہوں۔
سپر مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں – روسی فوجیوں کے یوکرین میں منتقل ہونے کے بعد آنے والے دنوں میں خوف و ہراس کا کوئی نشان نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’لیکن سب سے مشکل چیز ایک ایسے معاشرے میں رہنا ہے جو یوکرین میں ہونے والے واقعات کے بارے میں سچائی نہیں جاننا چاہتا۔ لوگ اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کے بارے میں فکر میں ہیں۔ انھیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے۔ مجھے روسی ہونے پر شرم آتی ہے۔‘
میں گاڑی سے ماسکو انجینیئرنگ انسٹی ٹیوٹ جاتا ہوں جہاں 30 سال پہلے میں انگریزی پڑھایا کرتا تھا۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں، کمیونزم کے زوال کے بعد، میرے یہاں کے طلبہ امید سے بھرے ہوئے تھے کہ روس اور مغرب ایک پائیدار دوستی اور شراکت داری قائم کریں گے۔ تاکہ مستقبل پُرامن اور خوشحال ہو۔
یہ کام نہیں کیا
انسٹی ٹیوٹ کے باہر ایک طالب علم ڈینس کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے۔ غروب آفتاب کے بعد ہمیشہ صبح ہوتی ہے۔‘
’لیکن میں اپنے فوجیوں کی حمایت کرتا ہوں۔ وہ ہمارے سپاہی ہیں۔ میں اپنے ملک کی حمایت کرنے کا پابند ہوں جو بھی ہو۔‘
میری آخری منزل وہ عظیم جنگی عجائب گھر ہے جو دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی پر سوویت یونین کی فتح کا جشن مناتا ہے۔ ایک شاندار فتح، جو بہت زیادہ انسانی قیمت پر حاصل کی گئی تھی۔ 27 ملین سے زیادہ سوویت شہری مارے گئے تھے جسے یہاں عظیم محب وطن جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مجھے جو چیز پریشان کن معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میوزیم میں سپیشل ملٹری آپریشن کو کیسے جگہ ملی ہے، یہاں اس کی عزت کیسے کی جا رہی ہے۔
عجائب گھر کی ویب سائٹ پر، لفظ ’میوزیم‘ کو تبدیل کر کے حرف زیڈ کو نمایاں کیا گیا ہے۔ میوزیم کی دکان میں آپ زیڈ مگ اور بیج خرید سکتے ہیں جس پر ’پوتن میرا صدر ہے‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔
میوزیم اس وقت یوکرین میں نازیوں کے بارے میں ایک نمائش کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس سے کریملن کے اس جھوٹے دعوے کو ثابت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ روسی فوج یوکرین کو نازی ازم سے آزاد کر رہی ہے۔
یہ ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کا روس ہے۔ ایک متوازی کائنات، جہاں حملے کا مطلب آزادی ہے، جہاں جارحیت کا مطب دفاع ہے اور جہاں تنقید کرنے والے غدار ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ روس جس کو میں پچھلے 30 سال سے جانتا ہوں، وہ اب نہیں رہا۔
Comments are closed.