بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین اور روس کی جنگ آپ کے کچن اور بجٹ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

یوکرین اور روس کی جنگ آپ کے کچن اور بجٹ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

یوکرین، گندم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یورپ کی ’بریڈ باسکٹ‘ کہلانے والا یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے

دنیا میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کا روس اور یوکرین کے تنازع یا روس کی جانب سے اپنے ہمسایہ ملک پر حملے سے براہِ راست کوئی تعلق تو نہیں لیکن وہ اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

چاہے وہ گاڑیوں میں ڈالا جانے والا ایندھن ہو یا باورچی خانے میں پکنے والی روٹی، پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک روس اور یوکرین کی برآمدات پر بڑی حد تک انحصار کرتے ہیں۔

روس اور یوکرین دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں دونوں کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہے۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔

صدیوں سے یورپ کی ’بریڈ باسکٹ‘ کہلانے والا یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔

اس اناج میں سب سے اہم گندم ہے جو یوکرین سے نکل کر ان خطوں کے بہت سے ممالک میں لوگوں کے دستر خوان پر روٹی کی شکل میں پہنچتی ہے۔

خوراک اور زراعت پر تحقیق کرنے والے ماہر ایلکس سمتھ کے مطابق ’لبنان یوکرین سے سات لاکھ ٹن گندم درآمد کرتا ہے جو اس کی کھپت کا 50 فیصد ہے۔ لیبیا کی 43 فیصد درآمدات یوکرین سے آتی ہیں۔ تیونس میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں یوکرین کی گندم پر انحصار کی شرح 32 فیصد ہے۔‘

مصر، خاتون، روٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عرب دنیا میں بھی گندم کی روٹی خوراک کا اہم ترین جزو ہے

پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے آیا تھا۔

ایلکس سمتھ کے مطابق اس وقت دنیا میں 14 ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گند م کی شرح کل کھپت کے 10 فیصد سے زیادہ ہے۔

یوکرین اور روس کے تنازعے کے وجہ سے گندم کی عالمی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو چکا تھا اور اب روس کے حملے کے بعد ان خدشات کو ہوا ملی ہے کہ یوکرین کی گندم پیدا کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہے۔

اندازوں کے مطابق یوکرین میں گندم کی 35 فیصد کاشت ملک کے مشرقی علاقے میں ہوتی ہے جو اس وقت لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی روس کی یوکرین پر چڑھائی کی خبر عام ہوئی یورپ میں گندم کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس تنازعے کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتیں سنہ 2021 میں دس برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہیں۔

اس خطے میں روٹی خوراک کا سب سے عام اور سستا ترین ذریعہ ہے جہاں کی حکومتیں یورپی ممالک کی نسبت افراط زر سے نمٹنے کی کم صلاحیت اور مالی وسائل رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سنہ 2011 میں رونما ہونے والے عرب سپرنگ نامی انقلاب کی ایک وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بھی تھا۔

گندم، گراف

روس کی برآمدات

یوکرین کے علاوہ دنیا کو آٹا فراہم کرنے والا بڑا ملک روس بھی ہے جو کسی زمانے میں 50 فیصد خوراک درآمد کرتا تھا لیکن گزشتہ 20 سال میں ایک بڑا برآمدی ملک بن چکا ہے۔

روس اس وقت دنیا بھر میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور سالانہ تقریباً 35 ملین ٹن ایکسپورٹ سے یوکرین کو پیچھے چھوڑ چکا ہے جو دنیا میں گندم برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔

یوکرین پر حملے کے بعد عین ممکن ہے کہ روس کی گندم کی مانگ میں اضافہ ہو جس سے عالمی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔

2019 کی آبزرویٹری آف ایکنامک کمپلیکسٹی کی رپورٹ کے مطابق روس اور یوکرین مجموعی طور پر دنیا کو ایک چوتھائی گندم کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں۔

ایسے میں مصر جیسے ملک، جو دنیا میں گندم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، کے لیے حالات مثبت نہیں نظر آ رہے۔

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مصر کو مطلوب گندم کا 80 فیصد حصہ روس مہیا کرتا ہے جبکہ باقی ضرورت یوکرین کی مدد سے پوری ہوتی ہے۔

مصر کے الاہرام اخبار کے مطابق کابینہ کے ترجمان نادر سعد نے خبردار کیا ہے کہ روس یوکرین تنازع ملک کی گندم کی فراہمی کو متاثر کر سکتا ہے اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ گندم کم سے کم استعمال کریں۔

مکئی پر خدشات

گندم کی معاشرتی اور سیاسی اہمیت اپنی جگہ لیکن یوکرین کی دوسری بڑی زرعی فصل مکئی کی قیمتیں میں بڑھ سکتی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین دنیا بھر میں مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی مجموعی رسد کا 16 فیصد فراہم کرتا ہے۔

چین کی 90 فیصد مکئی کی درآمد یوکرین سے ہی آتی ہے۔

یوکرین، بچی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اہم بات یہ ہے کہ یوکرین کی گندم کی برآمد تو اگست اور ستمبر کے مہینوں میں زور پکڑتی ہے لیکن مکئی کا معاملہ اس وقت فوری نوعیت کا ہے کیوںکہ روس کے حملے سے پہلے یوکرین کی مکئی کی آدھی فصل اگلے پانچ ماہ میں برآمد کے لیے تیار تھی۔

ایلکس سمتھ کہتے ہیں کہ دنیا کو اس جنگ کے زرعی اجناس پر اثرات پر نظر رکھنا ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین پر بحث تیل اور گیس کے گرد گھوم رہی ہے لیکن خوراک کا تحفظ ایک اہم معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تیل کی بڑھتی قیمتیں

روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے مشرقی یوکرین میں ’فوجی آپریشن‘ کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہیں۔ قیمتوں میں اتنا اضافہ سات برس میں پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا۔

کچھ روز قبل تیل کی فی بیرل قیمت 98 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جب صدر پوتن نے امن معاہدے کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور روسی نواز باغیوں کے زیرِ کنٹرول مشرقی یوکرین کے خطوں میں اپنی فوجیں داخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

رسد میں کمی کے خدشات کے پیش نظر روس کے یوکرین پر حملے کے دوسرے دن تیل کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا۔

واضح رہے کہ روس سعودی عرب کے بعد دنیا بھر میں کروڈ آئیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ روس دنیا کو قدرتی گیس فراہم کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ میں گیس کی قیمتوں میں جمعرات کو ہی 60 فیصد اضافہ ہو چکا تھا لیکن جمعے کے دن 20 فیصد کمی بھی دیکھی گئی۔

واضح رہے کہ یورپ کو اپنی ضرورت کے تیل اور گیس کا 40 فیصد حصہ روس سے ملتا ہے جس کی پائپ لائنز یوکرین کی زمین سے گزرتی ہیں۔

اس وقت ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ روس پر پابندیوں کے نتیجے میں یہ رسد کم ہو جائے گی اور دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

بینک آف سنگا پور کے چیف ایکانمسٹ منصور محی الدین کہتے ہیں کہ اب تک روس پر پابندیاں عائد کرنے والے ممالک نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے روس کی تیل اور گیس کی سپلائی متاثر ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور ’جیسے جیسے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں آ رہی ہیں ویسے ہی امریکہ، برطانیہ، یورپین یونین اور نیٹو پر دباو بڑھے گا کہ وہ یوکرین کی دفاع میں مدد کریں۔‘

واضح رہے کہ توانائی کے لیے دنیا کا روس پر انحصار عدم توازن کا شکار ہے۔

ڈیوشے بینک کے ماہرین کے مطابق چین، جس نے روس پر پابندیوں سے اختلاف کیا، تیل اور گیس کی 14 فیصد ضرورت روس سے حاصل کرتا ہے جبکہ انڈیا اور تھائی لینڈ اس کے مقابلے میں روس پر صرف دو فیصد ضرورت کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ کا سب سے بڑا اثر قیمتوں میں اضافے کی شکل میں ہو گا جس کے اثرات یورپی معیشت پر نظر آئیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگر تیل کی قیمتیں 50 فیصد بڑھ گئیں تو یورپ اور امریکہ کو کساد بازاری کا سامنا ہو گا، ایشیائی ممالک کو بھی اثر محسوس ہو گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.