بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوم وفات:سیاست میں نئی جہتیں متعارف کرانے والے،عالمی اسلامی تحریکوں میں ہردلعزیز رہنما قاضی حسین احمد

پاکستانی سیاست میں نئی جہتیں متعارف کرانے والے اور عالمی اسلامی تحریکوں میں ہردلعزیز رہنما کی حیثیت رکھنے والے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ کارکن کی حیثیت سے اس تحریک کا حصہ بنے ،وہ بنیادی طور پر معلم تھے اور سیدوشریف کالج سوات میں جغرافیہ پڑھاتے تھے.

آج قاضی حسین احمد کا یوم وفات ہے ، امت مسلمہ کا درد رکھنے والے دردمند دل کی حرکت بند ہونے سے قبل آخر وقت تک بھی وہ امت مسلمہ کے اتحاد و عروج کے لیے سوچ و فکر اور جدوجہد میں شامل تھے .

قاضی حسین احمد 12جنوری کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے ،تعلیم پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی .سیاسی زندگی میں کارکن سے قیادت تک کا سفر کیا، 1987سے 2009تک جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سنبھالی ،ہمیشہ سے اتحاد ملت کے خواہش مند تھے اس سلسلے میں پاکستانی سیاست میں نت نئے آئیڈیاز متعارف کرائے ، اسلامی جمہوریہ اتحاد ،اسلامک فرنٹ اور متحدہ مجلس عمل قائم کرکے ملک و قوم کو یکجاکرتے ہوئے معاشرے و قوم کی سربلندی کے لیے کوششیں کیں.پاکستان میں دھرنا سیاست پہلی بار قاضی حسین احمد نے ہی متعارف کرایا اور ثابت قدمی دکھائی کہ سیاسی مخالفین بھی انکی ہمت کو ماننے پر مجبور ہیں.

وہ 1986 سے 1996تک پاکستان کے قانون ساز ادارے کے ایوان بالا میں سینیٹر رہے جبکہ 2002سے 2007تک ایوان زیریں میں بطور رکن قومی اسمبلی عوام کی ترجمانی کرتے رہے .

قاضی حسین احمد پاکستان میں ایک ایسی سوسائٹی چاہتے تھے جہاں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو ،جہاں نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل ٹہرے اور چاروں طرف ایک دوسرے سے ہمدردی ،محبت ،غمگساری اور بھائی چارے کا ماحول ہو .یہی سوچ قاضی حسین احمد کو پاکستانی سیاست میں مختلف اتحاد بنانے پر مائل کرتی تھی .

قاضی حسین احمد اپنی غلطیوں کا بھی برملا اعتراف کرنے والے انسان تھے ،انکا باطن انکے ظاہر سے زیادہ روشن تھا.وہ اپنے بعض سیاسی غلطیوں کا برملا اعتراف کرتے تھے جیسے الیکشن 2008کے بائیکاٹ پہ وہ برملا اعتراف کرتے تھے کہ یہ نہیں کرنا چاہئے تھا.

قاضی حسین احمد دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے پشتیبان اور پاکستان و اسلامی دنیا میں پل کا کردار ادا کرنے والے شخص تھے.وہ اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ ان کے اندر امت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا،وہ بلاشبہ اتحاد امت کے بڑے داعی تھے ،مسلمانوں کو قرآن و سنت پر جمع کرنے کیلیے ہمیشہ بے چین اور متحرک رہتے ،اسی طرح عالم اسلام میں بھی انکے لیے وہی والہانہ جوش و جذبہ اور عقیدت کا عنصر پایا جاتا تھا. ایک مرتبہ وہ بنگلا دیش دورے پر گئے تو وہاں بنگلا دیش برما کی سر حد پر پہاڑی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں کے پاس پہنچے اور لالٹین کی روشنی میں ان سے ملاقاتیں اور میٹنگ کی ،اس موقع پر روہنگیا مسلمانوں نے انتہائی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ قاضی صاحب ہماری مدد کو ضرور آئیں گے اور ہماری مدد و سرپرستی کریں گے ،سوڈان کی حکومت اور وہاں کی اسلامی تحریک کے مابین ایک تنازعے میں فریقین نے قاضی حسین احمد کو ثالثی کے طور پر دعوت دی کہ وہ آئیں اور صلاح کرائیں .دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آتی تو قاضی حسین احمد خود وہاں پہنچتے یا جماعت کے ذمے داران کے وفد کو فوری روانہ کرتے .افغان جہاد میں قاضی حسین احمد کا بنیادی کردار رہا جس کا اعتراف خود افغان رہنما بھی کرتے ہیں ، اسکے علاوہ کشمیر ،فلسطین ،بوسنیا ،چیچنیا الغرض جس خطے میں بھی جہادی تحریکیں سرگرم عمل ہیں، قاضی حسین احمد مرحوم انکی پشتیبانی کرتے .

6جنوری 2013کو یہ عظیم رہنما اس جہان فانی سے ابدی جنتوں کی طرف کوچ کرگیا .اگرچہ قاضی حسین احمد جسمانی طور پر اس دنیا میں نہ رہے لیکن روحانی طور پر وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور امت مسلمہ کا درد رکھنے والا ہر کارکن بنفسہِ قاضی حسین احمد ہے .

You might also like

Comments are closed.