یورپ کا خواب آنکھوں میں سجائے ٹینکر کے پتوار پر گزرے 14 دن: ’میں نے پہلی بار پانی کا مطلب سمجھا‘
نائجیریا کے چار مسافر ایک ٹینکر کے پتوار پر سوار ہو کر یورپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ برازیل جانے والے ہیں، اور یہ دو ہفتوں کا سمندری سفر ہوگا جو انھیں موت کے قریب لے جائے گا۔
27 جون کی آدھی رات کے کچھ دیر بعد رومن ایبمین فرائیڈے نے وہ کھانا اکٹھا کیا جو وہ چند ماہ سے جمع کر رہے تھے اور اندھیرے میں نائجیریا کے شہر لاگوس کی بڑی تجارتی بندرگاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
اس سے پہلے فرائیڈے نے 620 فٹ لمبے ایک ٹینکر کو بندرگاہ پر لنگر انداز دیکھا گیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ انھیں یورپ لے جانے والا جہاز ہوگا۔
فرائیڈے نے اس ٹینکر کے پتوار کو ہدف مقرر کیا گیا، یہ واحد مقام تھا جہاں ان لوگوں کی رسائی ہوتی ہے جو جہاز کے مسافر نہیں۔ گودی سے پتوار کے درمیان کا فاصلہ طے کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، ماسوائے اس کے کہ ایک ماہی گیر کو انھیں وہاں لے جانے کے لیے قائل کیا جائے۔
فرائیڈے نے بتایا کہ ’وہ ایک نیک آدمی تھا، اس ماہی گیر نے پیسے نہیں مانگے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ میں وہاں سے نکل جانا چاہتا ہوں۔‘
35 سالہ فرائیڈے نے اپنے کھانے کے بیگ کو رسی کی مدد سے اوپر کھینچا اور جیسے ہی وہ پیچھے ہٹ کر بیٹھے انھوں نے اندھیرے میں تین چہروں کو دیکھا، جنھیں دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ یورپ جانے کے خیال سے وہاں سوار ہونے والے وہ چوتھے آدمی تھے۔
فرائیڈے کا کہنا تھا کہ ’پہلے تومیں ڈر گیا لیکن وہ سیاہ فام افریقی تھے۔‘
پکڑے جانے کے خوف سے، چاروں آدمی اگلے 15 گھنٹوں تک خاموشی سے پتوار پر بیٹھے رہے۔ شام پانچ بجے انھوں نے محسوس کیا کہ جہاز کے دیو قامت انجنز تھرتھرانے لگے ہیں۔ شور شرابے کے دوران انھوں نے کچھ الفاظ کہے۔ ان سب کا ہدف یورپ تھا۔ انھیں توقع تھی کہ وہ ایک ہفتے تک جہاز کے ہمسفر رہیں گے۔
کین ویو نامی یہ ٹینکر بندرگاہ سے باہر نکل کر سمندر کی طرف چلا گیا، جو دو ہفتوں کے خطرناک سمندری سفر کا آغاز تھا۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر انھیں موت کے قریب لے جائے گا۔
یورپ جانے کے خواہشمند رومن فرائیڈے اور دیگر تین لوگوں کو کیا پتا تھا کہ یہ جہاز تو انھیں برازیل لے جائے گا۔
پہلا دن
جیسے ہی لاگوس پیچھے رہ گیا تو ان لوگوں نے پتوار پر آرام دہ جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ یہ پتوار مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ اسی کی مدد سے چلتے ہوئے جہاز کا رخ تبدیل کیا جاتا ہے۔
وہاں کھڑے ہونے کے لیے بہت کم جگہ تھی اور لیٹنے کے لیے واحد جگہ دو چھوٹے جالوں میں سے ایک میں تھی جو پانی کے اوپر شاید پہلے اسی طرح فرار ہونے والوں میں سے کسی نے لگائی ہوگی۔
یہ سمجھنا شاید مشکل ہو سکتا ہے کہ بحیرہ روم میں ایک خستہ حال کشتی پر کوئی شخص اپنی زندگی کو خطرے میں کیوں ڈالے گا لیکن فرائیڈے کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ اس وقت آسان ہوتا ہے جب آپ پہلے ہی اُمید کھو چکے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نائجیریا میں نہ تو کوئی نوکری ہے، نہ پیسہ اور نہ ہی میرے لیے اپنے چھوٹے بھائیوں اور اپنی والدہ کا پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ۔‘
’میں پہلا بیٹا ہوں اور میرے والد کی 20 سال پہلے وفات ہو گئی تھی، اس لیے مجھے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔‘
انھوں نے تین سال کام کی تلاش میں لاگوس کی سڑکوں پر گزارے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائجیریا میں ہر دن ’جرم اور گناہ‘ کا گڑھ تھا۔
’لوگ لڑتے ہیں، ایک دوسرے کو مارتے ہیں، دہشت گرد حملے کرتے ہیں، اغوا کرتے ہیں۔ میں اس کے بجائے ایک روشن مستقبل چاہتا ہوں۔‘
رومن فرائیڈے کہتے ہیں ’میں ایک روشن مستقبل چاہتا تھا‘
ٹینکر کے پتوار پر فرائیڈے کے ساتھ ایک پینٹی کوسٹل وزیر، تاجر اور ان دو بچوں کے والد تھینک گوڈ اوپیمپو میتھیو بھی بیٹھے تھے جن کے مونگ پھلی اور پام آئل فارم گذشتہ سال نائجیریا میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ نقصان کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس انشورنس نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں ’میرا کاروبار تباہ ہو گیا اور میری فیملی بے گھر ہو گئی۔ اور یہ میرے ملک چھوڑنے کے فیصلے کی بنیاد تھی۔‘
حالیہ صدارتی انتخابات کے حتمی نتیجے کے بعد بے ضابطگیوں اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’انتخابات ہماری امید تھے۔ لیکن ہم نائجیریا کو اچھی طرح جانتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ وہاں بدعنوانی عروج پر ہے۔‘
لہٰذا اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر وہ رات کو اپنی بہن کا گھر چھوڑ کر بندرگاہ کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں انھیں معلوم تھا کہ کین ویو روانگی کا انتظار کر رہی ہیں۔
نائجیریا میں حالیہ برسوں کے دوران فرائیڈے جیسے لوگوں کی نقل مکانی باقاعدہ اور بے ضابطہ راستوں سے ہوئی ہے، جس کی وجہ کساد بازاری اور بے روزگاری کی ریکارڈ سطح ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق بہت سے لوگ صحارا اور بحیرہ روم کا سفر کرتے ہیں جہاں اس سال کم از کم 1200 نائجیرین شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
رومن فرائیڈے اس پتوار کے اوپر بیٹھے تھے جو انھیں بحر اوقیانوس کے پار لے گیا تھا۔ کچھ لوگ بھاگنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ گذشتہ سال تین افراد ایک پتوار پر چڑھے تھے اور وہ سپین کے داخلی راستے کینری جزیرے تک 2500 میل کا سفر طے کر گئے۔
فرائیڈے کا خیال تھا کہ وہ بھی اسی راستے پر چل رہے تھے۔ اپنے دو ساتھیوں، ولیم اور زیز کے ساتھ، جہاز پر پہلے چند دن بوریت، بے چینی اور خوف کے امتراج میں گزارے، صرف تھوڑی سی باتیں کیں، زیادہ تر دعائیں کیں اور جاگنے کی کوشش کی۔
پھر کین ویو برازیل کے 3500 میل کے سفر کے لیے جنوبی بحر اوقیانوس کے وسیع حصے میں داخل ہو گئی۔
پانچواں دن
بعض معاملات میں جہاز کے پتوار پر ملک سے نکلنے والے ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جو صحارا کے کچھ حصوں کو پیدل یا بحیرہ روم کو لکڑی کی خستہ حال کشتیوں پر عبور کرتے ہیں۔
لیکن جیسے جیسے پانچواں دن گزرتا گیا، فرائیڈے نے اپنی صورت حال کے مخصوص خطرات کا اندازہ لگانا شروع کر دیا۔ ان کے پاس پہلے ہی کھانا کم تھا اور وہ نیند کی کمی سے تھکے ہوئے تھے۔
وہ اپنی کمر کے گرد ایک رسی باندھ لیتے جب انھیں پتوار کے کنارے سے پیشاب کرنا پڑتا۔ جب پانی کا بہاؤ تیز ہوتا تھا تو لہریں ان پر برستی تھیں۔
فرائیڈے بتاتے ہیں ’ہم سب بڑی لہروں سے خوفزدہ تھے، میں نے پہلے کبھی سمندر نہیں دیکھا تھا لیکن میں طوفانوں کے بارے میں دستاویزی فلمیں دیکھتا تھا اور میں نے بڑے بڑے جہازوں کو لہروں سے ایک طرف سے دوسری طرف ہلتے ہوئے دیکھا تھا۔‘
نیند تقریباً ناممکن تھی۔ فرائیڈے نے کہا کہ ’آپ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی آنکھیں بھی بند نہ کریں۔ پتوار دن میں 24 گھنٹے حرکت کرتا ہے آپ کو مسلسل چوکس رہنا پڑتا ہے۔‘
جال ڈھیلے پڑ گئے اور انھیں دوبارہ ترتیب دینا پڑا۔ وہ دوبارہ ان کے اندر لیٹ گئے لیکن فرائیڈے کو گرنے کے اچانک خوف نے بیدار کر دیا۔ ’اگر جال ٹوٹ جاتا ہے، تو آپ سیدھے پانی میں چلے جاتے ہیں اور آپ مر جاتے ہیں۔‘
سمندر میں بچائے جانے کا کوئی امکان نہیں، ایسے میں جب کوئی نہیں جانتا کہ آپ سمندر برد ہو گئے ہیں۔
دن رات میں اور رات دوبارہ دن میں بدل گئی۔ تمام لوگ اتنے کمزور پڑ گئے کہ انھوں نے بات کرنا مکمل طور پر بند کر دیا۔ فرائیڈے کلائی کی گھڑی پر وقت کا حساب رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس دن کو یاد کرنے کی کوشش کی۔
جال دوبارہ ڈھیلے ہو گئے اور دوبارہ باندھ دیے گئے۔ کھانے کو چھوٹے پارسلوں میں راشن کر دیا جاتا تھا۔ ان کے منھ خشک ہونے لگے۔ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ انھوں نے محتاط رہنے کی کوشش کی۔
10واں دن
دسواں دن وہ لمحہ لے آیا جب یہ چاروں لوگ خاموشی سے گھوم رہے تھے۔ صبح کے کسی وقت انھوں نے اپنے پاس موجود آخری کھانا کھایا اور اپنا آخری بچہ ہوا پانی پیا۔
یہ چاروں پہلے ہی اپنے پاس موجود معمولی راشن کو ختم کرنے سے تکلیف دہ حد تک بھوکے تھے۔
فرائیڈے کہتے ہیں ’یہ سب سے مشکل لمحہ تھا، میرا منھ خشک تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار پانی کا مطلب سمجھا۔‘
کچھ ہلکے پھلکے لمحات تھے۔ فرائیڈے نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ بارش کے لیے دعا کر رہے ہیں اور وہ اس پر ہنس پڑے۔
آپ بارش کے ساتھ کیا کریں گے؟ وہ رونے لگے۔ کیسے پانی جمع کریں گے؟ بارش ان کے لیے خطرناک تھی، ہنسی تھم گئی۔
گھنٹہ بہ گھنٹہ وہ مزید پیاسے ہوتے گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وقت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگلے دن فرائیڈے ایک پھٹے ہوئے سیلوفین بسکٹ ریپر کو رسی سے جوڑ کر سمندر میں اتارنے میں کامیاب رہے، اور پینے کے لیے نمکین پانی کے چند گھونٹ جمع کیے۔ انھوں نے ٹوتھ پیسٹ چاٹا۔
12ویں دن، سمندر کے نمکین پانی سے بیمار، دوسرے آدمیوں میں سے ایک نے پتوار کے کنارے سے قے کرنا شروع کر دی۔
فرائیڈے نے کہا ’وہ سیدھا پانی میں دیکھ رہے تھے اور قے کر رہے تھے۔ ان میں خود کو سنبھالنے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ گرنے ہی والے تھے۔ میں واحد شخص تھا جس کے پاس طاقت باقی تھی اور مجھے اسے پکڑنا تھا۔‘
یہ لوگ بھوک اور پیاس کے آخری مرحلے میں داخل ہو رہے تھے جو آپ کو موت کے قریب لاتا ہے۔
اپنا دھیان بٹانے کی کوشش میں فرائیڈے نے اکیلے پتوار کے کنارے پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ ان کی ٹانگیں دونوں طرف لٹکی ہوئی تھیں اور وہ افق کی طویل لکیر میں خلل ڈالنے کے لیے سمندر کو یونہی دیکھ رہے تھے۔
سفر کے تیرہویں دن سمندر میں انھیں وہیل نظر آئی۔
انھوں نے ہنستے ہوئے کہا ’میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی چیز دیکھی ہے۔ اگر میں نے گھر پر کسی کو بتایا کہ میں نے وہیل دیکھی ہے تو وہ کہیں گے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ لیکن میں پتوار پر بیٹھ گیا اور میں نے ایک وہیل کو دیکھا۔ اور میں بھول گیا کہ میں بھوکا پیاسا تھا۔
’میں نے وہیل کو دیکھا اور یہ کوئی تخلیق دیکھنے جیسا لمحہ تھا۔ ایک مقدس لمحہ۔‘
14واں دن
جب سفر کے 14ویں دن افق پر پہلی روشنی نمودار ہوئی، تو فرائیڈے نے پتوار کے کنارے پر واپس آ کر، افق کی طرف دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ جہاز کے طاقتور انجن سست ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
پھر دھیمی روشنی میں، دور سے انھوں نے دیکھا کہ زمین کی طرح کا کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ پھر عمارتیں، پھر ایک کشتی۔ کین ویو عملے کے نئے ارکان کو لینے کے لیے ساحل پر رک رہا تھا اور سپلائی لانے والی کشتی نے ان افراد کو دیکھ لیا۔
ایک چیخ سنائی دی ’تم جانتے ہو تم کہاں ہو؟‘
فرائیڈے نے چیخنے کی کوشش کی کہ اسے کچھ پتہ نہیں تھا، لیکن اس کا گلا بہت خشک تھا۔ کشتی وہاں سے چلی گئی، پھر دو گھنٹے بعد صاف روشنی میں ایک پولیس کی کشتی نمودار ہوئی۔ ایک افسر نے فرائیڈے تک پانی کی بوتل پہنچائی۔ انھوں نے بتایا ’آپ برازیل میں ہیں۔‘
خشک زمین پر بحفاظت واپس لوٹ آنے والے پناہ گزینوں نے اہل خانہ کو فون کرنے کے لیے فون ادھار لیے۔ فرائیڈے کے دو ساتھی تارکین وطن، ولیم اور زیز نے نائجیریا واپس جانے کی پیش کش قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
فرائیڈے نے برازیل کو اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں ’ہم یہاں آ کر خوش ہیں، یہ ایک نئی شروعات ہے۔‘
انھیں ممکنہ طور پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برازیل میں تارکین وطن کو صحت کی دیکھ بھال اور دیگر فوائد کے خود کار حقوق حاصل ہیں۔
لیکن افریقی تارکین وطن کو اکثر نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اچھی تنخواہ والا کام تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
فرائیڈے کو ساؤ پالو میں ایک پناہ گاہ میں لے جایا گا۔ وہ ایک نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں اور اپنی بیوی اور بچوں کو لانا چاہتے ہیں۔
فرائیڈے کہتے ہیں کہ ’میں ایک نئی جگہ پر ہوں، میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں زبان سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ نائجیریا سے نکلنے والے پہلے سفر نے انھیں تقریباً ہلاک کر دیا تھا، لیکن جیسے جیسے ان کے بچاؤ کے بعد کے دن گزرتے گئے، انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی ناامیدی کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔
Comments are closed.