یورپ جانے والے تارکین وطن کی ایک اور کشتی کو حادثہ، 60 سے زائد افراد کی ہلاکت کا خدشہ
- مصنف, جو انوڈ، سوزین لیح اور کرسٹی کونی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
مغربی افریقہ کے کیپ وردے ساحل کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 60 سے زائد افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
کشتی میں سوار 28 افراد کو بچا لیا گیا ہے اور جزیرۂ سال سے سامنے آنے والی ویڈیوز میں بہت سے افراد کو ساحل پر سٹریچر پر لاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کشتی پر سوار تمام افراد کا تعلق سنیگال سے بتایا جا رہا ہے اور یہ کشتی گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے سمندر میں تھی۔
کیپ وردے کے حکام نے مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے عالمی برادری سے غیر قانونی تارکین وطن کی نقل مکانی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کشتی کو پہلی بار پیر کو سمندر میں دیکھا گیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کشتی سمندر میں غرق ہو گئی تھی لیکن بعد میں واضح ہوا کہ یہ پانی میں بہتی ہوئی پائی گئی تھی۔
پولیس نے بتایا ہے کہ لکڑی سے بنی اس پرانے طرز کی کشتی کو پہلی مرتبہ کیپ وردے کی حدود میں جزیرہ سال سے تقریباً 320 کلومیٹر دور ہسپانوی ماہی گیروں کی ایک کشتی نے دیکھا تھا اور اس کے بعد انھوں نے اس کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا۔
مہاجرین کی عالمی تنظیم (انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن) کے ترجمان نے بتایا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں میں چار بچے شامل ہیں جن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان ہیں۔
سینیگال کی وزارت خارجہ نے منگل کو اس حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشتی 10 جولائی کو سینیگال کے ماہی گیروں کے گاؤں فاس بوئے سے 101 افراد کے ساتھ روانہ ہوئی تھی۔
اس گاؤں کے ایک منتخب اہلکار موڈا سامب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کشتی پر سوار تقریباً سبھی لوگ اسی علاقے میں پلے بڑھے اور کچھ مقامی خاندان ابھی تک یہ جاننے کے منتظر ہیں کہ آیا ان کے رشتہ دار زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔
سینیگال کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ سینیگال کے شہریوں کی وطن واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے کیپ وردے میں حکام سے رابطہ کر رہی ہے۔
اس کشتی میں دیگر ممالک کے سوار مسافروں میں سیرا لؤنے اور گینیا باسو کے شہری بھی شامل ہیں۔
صدمے اور غصے کی کیفیت
سینیگال کی فاس بوئے کی ماہی گیری برادری کے لوگ اس حادثے کے بعد صدمے میں ہیں اور ان میں بہت غصہ بھی پایا جا رہا ہے۔
یہاں رہنے والے یونیورسٹی کے طالب علم موسیٰ ڈیوپ نے مجھے بتایا کہ ان کے تین کزن اور ایک نوعمر بھانجا اس کشتی پر سوار تھے جو گذشتہ ماہ گھر والوں سے چھپ کر روانہ ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بہن کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹا بھی کشتی پر سوار ہے اور گذشتہ ماہ اس کے لاپتہ ہونے کے بعد سے وہ بہت بے چین تھی۔
خاندان کو ان کی کشتی حادثے کے متعلق اس وقت پتا چلا جب کشتی میں سوار ان کے ایک کزن نے بدھ کے روز جزیرہ سال سے ایک واٹس ایپ ویڈیو بھیجی جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ زندہ بچ گئے ہیں اور ہسپتال میں ہیں جبکہ ان کے ایک نوجوان کزن کی کشتی حادثے میں موت ہو گئی ہے۔
ڈیوپ کا کہنا ہے کہ گمشدہ رشتہ داروں کے لیے غم اور زندہ بچ جانے والوں کی خوشی غصے میں بدل گئی ہے۔ بدھ کو اس سانحے کی خبر پھیلنے کے بعد قصبے میں لوگوں نے کاروں اور کشتیوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور میئر کے گھر کو بھی آگ لگا دی۔
علاقے کے نوجوان روزگار کے مواقع کی کمی کو اس حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور انھوں نے حکام سے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جزیرہ سال کے محکمہ صحت کے ایک اہلکار، جوز موریرا کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔
وزیر صحت فیلومینا گونکلاوز کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ نقل مکانی ایک عالمی مسئلہ ہے، جن کے لیے بین الاقوامی تعاون، بہت زیادہ مشاورت اور عالمی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سب (تمام اقوام) کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ اس بارے میں ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم سمندر میں مزید جانیں قربان نہ کریں۔‘
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ نقل مکانی کے ’محفوظ راستوں‘ کی شدید کمی ہے اور ان کی غیر موجودگی ’انسانی سمگلرز کو لوگوں کو اس جان لیوا سفر پر لے جانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔‘
زندہ بچ جانے والے کیپ وردے تک پہنچ سکتے تھے لیکن یہ یقینی طور پر ان کی مطلوبہ منزل نہیں تھی۔
کشتی حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد علاقے کے لوگوں نے جلاؤ گھراؤ کیا
جزیرہ نما مغربی افریقہ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر دور اور کینری جزائر کی طرف سمندری سفر کے راستے پر ایک ہسپانوی علاقہ ہے جسے بہت سے لوگ یورپی یونین جانے کے راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق یہ کسی بھی تارکین وطن کے لیے سفر کرنے کے لیے سب سے خطرناک سمندری راستہ ہے۔
ایڈوکیسی آف فریڈم فرام ٹارچر نامی تنظیم کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر نتاشا سانگارائڈس نے کہا کہ ’انسانی زندگیوں کا یہ نقصان تارکین وطن کی طرف یورپ کے مخالفانہ رویے اور مسلسل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔‘
ہمیشہ کی طرح غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے والوں کے درست اعداد و شمار حاصل کرنا تو مشکل ہے لیکن سنہ 2020 سے 2023 کے درمیان تقریباً 67000 غیر قانونی تارکین وطن کینری جزائر پہنچے تھے۔
اسی عرصے کے دوران، 2500 سے زیادہ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ آئی او ایم نے بتایا کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس سمندری راستے میں غیر قانونی تارکین وطن افراد کے خفیہ طور پر سفر کرنے کو مدنظر رکھتے ہوئے اموات کی یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تو لوگ اپنے گھر چھوڑنے اور اس طرح کے خطرناک سفر کا خطرہ کیوں مول لیتے ہیں؟
بہت سی وجوہات سمیت ایک وجہ غربت کو سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یورپ کو بہتر معیار زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانوں کی مالی مدد کے لیے ایک بہتر جگہ تصور کرتے ہیں۔
تاہم اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی لوگوں کو اس خطرناک سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مغربی افریقہ کے بیشتر ممالک میں عدم استحکام، فوجی بغاوت، خانہ جنگی اور اسلامی انتہا پسند گروہوں کی موجودگی نے صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔
Comments are closed.