وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہے، یہ تاثر درست نہیں، ہم پر انگلی اٹھانے والا امریکا کہہ رہا ہے کہ پاکستان ہمارا مددگار اور تعمیری ساتھی ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بیٹھ کر حکومت بنانے کو تیار ہیں، لیکن طالبان کو اشرف غنی پر تحفظات ہیں، طالبان بہت اسمارٹ ہیں، وہ بدل گئے ہیں، ذہنی طور پر الرٹ ہیں، ماضی میں انہوں نے مار کھائی ہے، بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان میں خون خرابہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ افغانستان سے باہر نکل گیا ہے، افغانستان کو تو نیوٹرل کرلیا، امریکا کو مشرقِ وسطیٰ، افریقا اور جنوبی ایشاء سمیت 3 علاقے نظر آرہے ہیں جہاں سے دہشت گردی پنپ سکتی ہے، امریکا کہتا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے گا تاکہ خطرہ ہو تو فوری اور فیصلہ کُن ایکشن لے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے، امریکا کے مطابق طالبان نے انخلاء کی صورت میں حملے نہ کرنے کی اپنی بات کو نبھایا ہے، امریکی وزیرِ خارجہ کی کال متوقع ہے، امریکی وزیرِ خارجہ سے گفتگو میں امریکا کو پاکستان کا نقطہ نظر پیش کروں گا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دوحہ مذاکرات اور مذاکراتی عمل میں جو کردار ادا کیا وہ پوشیدہ نہیں، امریکا کہتا ہے کہ ایک مذاکراتی حل کی طرف آگے بڑھیں، یہی پاکستان کہتا ہے، امریکا کہتا ہے کہ ہمارا چین کے ساتھ اسٹریٹجک مقابلہ ہے، اس تناظر میں پاکستان کو دنیا میں کردار ادا کرنا ہے، دنیا سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی رائے تھی کہ افغان صورتِ حال پر سیکیورٹی ادارے اعتماد میں لیں، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بریفنگ دی، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے کمیٹی اجلاس میں سوالات کے جواب دیئے، عید سے قبل قومی سلامتی کمیٹی کی ایک نشست اور کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا کہہ رہا ہے کہ آج افغانستان میں ہماری منزل ایک ہے یعنی افغانستان کا امن و استحکام، پاکستان سے پارٹنر شپ صرف افغانستان تک محدود نہیں، یہ تعلقات افغانستان سے آگے جائیں گے، امریکا کہتا ہے کہ انخلاء 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک دلچسپ تبدیلی دیکھ رہا ہوں، بین الاقوامی کردار اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ افغانستان کا ملٹری حل نہیں، یہی وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تو انہیں طالبان خان کہا گیا، آج دنیا بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ واحد حل امن اور مفاہمت ہے، دنیا کی تازہ سوچ ہے کہ امریکا کا مشن مکمل ہو گیا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے انخلاء کے فیصلے پر سیاسی اتفاقِ رائے ہے، امریکا کہتا ہے کہ محفوظ انخلاء ہماری ترجیح ہے، امریکا کہتا ہے کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے، امریکی صدر بائیڈن کے مطابق مقصد ان دہشت گردوں کو نشانہ بنانا تھا جو نائن الیون کا سبب تھے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا تھا کہ ہمارا مقصد تنظیموں کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ امریکا کو نشانہ نہ بنا سکیں، امریکا اب کہتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو کمزور کر دیا ہے، افغانستان کوئی نیشن بلڈنگ کیلئے نہیں گئے تھے، افغانستان میں جمہوریت کا جھنڈا گاڑنے نہیں گئے تھے، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا کہتا ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی معاونت جاری رکھیں گے، افغانستان کی ایئر فورس کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گے، خواتین کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے، امریکا نے افغانستان میں سفارتی موجودگی رکھنے کا کہا ہے، امریکا کو لگتا ہے کہ انہیں فوری کابل کا فال دکھائی نہیں دے رہا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ ایک مذاکراتی حل کی طرف آگے بڑھیں، یہی پاکستان کہتا ہے، امریکا کہتا ہے کہ اس کے حلیفوں کیلئے ویزا کا اجراء تیز کیا جائے، پاکستان نے دوحہ مذاکرات اور مذاکراتی عمل میں جو کردار ادا کیا وہ پوشیدہ نہیں۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ طالبان نے ان سے کہا کہ انخلاء پر حملے نہیں کریں گے، امریکا کے مطابق طالبان نے اپنی اس بات کو نبھایا ہے، خدا نہ کرے کہ افغانستان 90ء کی دہائی کی طرف جائے، ہمیں ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان میں 20 سال جن پر سرمایہ کاری کی ان میں مقابلہ کرنے کا دم خم نہیں، ہم غیر قانونی کراسنگ چیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں، ملک میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنا ہے تو بہتر انداز سے مینیج کرنا ہے، ہم نے ماضی میں ازبک، تاجک، ہزارہ پر توجہ نہیں دی، ہم اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، ہماری اسٹریٹجک ڈیپتھ والی سوچ نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عبداللّٰہ عبداللّٰہ کہتے ہیں کہ حکومتی ایوانوں میں بڑے مسئلے ہیں، دھڑے بندیاں ہیں، افغانستان کی اپنی پیچیدگیاں تو ہم حل نہیں کر سکتے، ہماری حکومت کی پالیسی افغانستان پر واضح ہے، ماضی کی غلطیاں دھرانا نہیں چاہتے۔
وزیرِ خارجہ نے کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی میں زیادہ لوگوں نے تقریر کی، چند نے تجاویز دیں، اس اجلاس کا مقصد تھا آپ قومی رہنما ہیں، ہمیں کوئی رائے دیں، آپ کی تجویز جو قومی مفاد میں ہو ہم اس پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہوں گے، کشمیر میں اہم لیڈر غیر ذمے دارانہ بیان دے رہے ہیں لیکن یہ سیاست ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو امریکا تک محدود نہیں کیا، ہم نے اپنی انگیج منٹس بڑھائی ہیں، افغانستان پر جتنے فورم ہیں استنبول عمل، ماسکو فارمیٹ ان میں پاکستان پیش پیش ہے، کل تاجکستان ازبکستان کیلئے روانہ ہو رہا ہوں، افغانستان کی صورتِ حال پر انہیں اعتماد میں لوں گا، پاکستان کا نقطہ نظر پیش کروں گا، پاکستان کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں، ہم نے معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنایا، ہم ڈٹ کر پاکستان کے مفادات کی بات کریں گے، پاکستان کے مفادات محفوظ ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ کوشش ہوگی کہ افغانستان خانہ جنگی سے دوچار نہ ہو، سول وار سے بچنے کیلئے پاور شیئرنگ ایک راستہ ہو سکتا ہے، بین الاقوامی برادری کو کہا ہے کہ ہم مزید پناہ گزینوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ہماری کوشش ہے کہ پناہ گزین نہ آئیں، چاہتے ہیں کہ یہاں موجود پناہ گزین بھی باعزت طریقے سے واپس جائیں، خدانخواستہ اگر مزید پناہ گزین آئے تو نئی حکمتِ عملی اپنانی پڑے گی۔
شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ ٹی ٹی پی کا مضبوط ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں، طالبان کی سوچ سے ٹی ٹی پی کو تقویت مل سکتی ہے، پاکستان کی طالبانائزیشن نہیں دیکھ سکتے، ایران سے تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے، 3 سال قبل جو ایران سے تناؤ تھا وہ اب نہیں ہے، ایران کا اہم کردار ہے، اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔
Comments are closed.