سانحۂ بلدیہ انٹر پرائزیز سے متعلق قانونی جدوجہد سے متعلق لکھی گئی کتاب ’ٹرانزیکشنل لیگل ایکٹویزیم آف گلوبل ویلیو چین‘ کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں نے سانحۂ بلدیہ کے بعد اقدامات کیئے ہوتے تو مہران ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی کا واقعہ نہ پیش آتا، ہم نے سانحۂ بلدیہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کراچی کے نجی تعلیمی ادارے میں رشید اے رضوی سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومین رائٹس کے تحت سانحۂ بلدیہ پر جرمن رائٹر ڈاکٹر مریم سیگی کی لکھی گئی کتاب کی تقریبِ رونمائی کی تقریب کا انعقاد ہوا۔
تقریب میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سانحۂ بلدیہ ٹاؤن سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے، مزدورں کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیئے گئے، جس کی وجہ سے چند روز قبل مہران ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا۔
جج جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ علی انٹر پرائزز کو حادثے سے 22 روز قبل انتظامات مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا، بعد میں پتہ چلا کہ کوئی انسپیکشن نہیں ہوئی تھی سرٹیفکیٹ جعلی تھا۔
تقریب میں کتاب کی مصنفہ مریم نے جرمنی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور سانحے سے متعلق جرمنی اور پاکستان میں قانونی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔
تقریب میں سینئر قانون داں اور سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی، سینئر قانون داں منیر اے ملک، چیئر پرسن بلدیہ فیکٹری متاثرین سعیدہ خاتون سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
Comments are closed.