بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’ہم مہنگے معاہدوں میں پھنس گئے ہیں‘، برطانیہ میں پاکستانی طلبہ کی مشکلات

’ہم مہنگے معاہدوں میں پھنس گئے ہیں‘، برطانیہ میں پاکستانی طلبہ کی مشکلات

پاکستانی طالبہ برطانیہ

علیزہ ایاز کہتی ہیں کہ ‘آن لائن کلاسز کے لیے اتنی فیسیں لینا مناسب نہیں ہے۔ ہم بین الاقوامی طلبا پہلے ہی دگنی فیس ادا کر رہے ہوتے ہیں۔’

برطانیہ میں زیر تعلیم بہت سے پاکستانی طلبا کا کہنا ہے اگرچہ کورونا کی وبا کے باعث ان کی کلاسز آن لائن منتقل ہو چکی ہیں اور گھر سے پڑھائی کے دوران طلبا یونیورسٹی کی بہت سی سہولیات سے استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ٹیوشن فیسوں کی مد میں ان سے پوری رقم وصول کی جا رہی ہے۔

لگ بھگ ایک ماہ قبل یعنی دسمبر سنہ 2020 میں برطانیہ میں کورونا کی وبا میں شدت کے بعد حکومت نے ملک کے مختلف حصوں میں تیسرے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا تھا اور تمام تر تعلیمی سلسلہ آن لائن منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

برطانیہ میں موجود بہت سے پاکستانی طلبا نے شکایت کی ہے کہ وہ مہنگی رہائش کے معاہدوں میں پھنس چکے ہیں حالانکہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران ان میں سے بیشتر واپس پاکستان چلے گئے تھے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں ماسٹرز کی طالبہ علیزہ ایاز نے بتایا کہ ‘سب کچھ آن لائن شفٹ ہوگیا ہے۔ چونکہ ہمیں لیبارٹریوں اور کلاس رومز میں تعلیم حاصل کرنے کی عادت ہے اس لیے آن لائن تعلیم حاصل کرنا بہت سے طلبا کے لیے بالکل نیا تجربہ ہے۔ اب ہمیں روزانہ کم از کم آٹھ گھنٹے آن لائن کلاسیں لینی پڑتی ہیں۔’

یو سی ایل میں متعدی بیماری ایپیڈیمولوجی کی تعلیم حاصل کرنے والی علیزہ کے مطابق ‘کورونا وائرس نے برطانیہ میں زیر تعلیم پارٹ ٹائم طلبا اور کم آمدن والے طلبا کو، جن میں سے بیشتر کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے، زیادہ متاثر کیا ہے۔’

علیزہ نے کہا کہ ‘آن لائن کلاسز کے لیے اتنی فیسیں لینا مناسب نہیں ہے۔ ہم بین الاقوامی طلبا پہلے ہی دگنی فیس ادا کر رہے ہوتے ہیں۔’

بہت سے طلبا کے لیے اس نئے انداز تعلیم (آن لائن) میں مکمل طور پر ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور اب وہ آن لائن کلاسز کو جاری رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

برطانیہ

یحییٰ سردار ساہی سٹی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ وہ پاکستان سوسائٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہماری تمام تر تعلیم کلاس رومز یعنی کیمپس میں ہوتی تھیں۔ آن لائن پڑھائی کرنا بالکل ایک نیا سیٹ اپ ہے جو کبھی کبھی عجیب بھی محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے طلبا کو آن لائن کلاسز لینے میں دقت اور تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔’

یحییٰ نے کہا کہ آن لائن لیکچرز میں دیگر رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ تکنیکی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے طلبا کو تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے اور وہ زوم پر مناسب طریقے سے کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکتے۔

یحیی کے مطابق اس نئی صورتحال کے باعث متعدد طلبا کی ذہنی صحت پر منفی اثر پڑا ہے اور آن لائن تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

چند طلبا نے پہلے سے ادا کی گئی مکمل فیس میں سے کچھ ری فنڈ کرنے کی درخواست بھی کی ہے کیونکہ ان کے مطابق آن لائن ذریعہ تعلیم میں وہ ان سہولیات سے مستفید نہیں ہوتے جو کلاس روم اور کیمپس میں تعلیم کے دوران حاصل رہتی ہیں۔

برطانیہ

علیزہ نے اپنے ماسٹرز کورس کی مجموعی فیس لگ بھگ 26 ہزار پاؤنڈ جمع کروائی ہے جو کہ 55 لاکھ پاکستانی روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ جبکہ یحییٰ کی انڈرگریجویٹ لا کی ڈگری کی ٹیوشن فیس میں ساڑھے 15 ہزار پاؤنڈ آئی ہے جو کہ تقریباً 35 لاکھ روپے ہیں۔ لندن میں رہائش کے اخراجات فیسوں سے الگ ہیں جن پر بہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں کیونکہ لندن دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

چند طلبا نے احتجاج کیا ہے کہ انھیں زیادہ فیس ادا کرنا پڑی ہے جبکہ دوسری جانب وہ برطانیہ میں رہائش کے مشکل معاہدوں میں بھی پھنس چکے ہیں۔

برونیل یونیورسٹی کے انڈرگریجویٹ طالبعلم اور برونیل میں پاکستانی سوسائٹی کے صدر راجہ عبد الواسع سلطان ایک ایسی ہی احتجاجی تحریک کا حصہ تھے جس میں طلبا کے ساتھ بہتر سلوک برتنے اور انھیں کووڈ 19 کے باعث رعایتیں دینے کی کی اپیل کی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمیں کسی بھی طرح کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہم یونیورسٹی کے میدان میں کوئی کھیل بھی نہیں کھیل سکتے۔ ہم فیس میں کمی پر بات چیت کر رہے ہیں، لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ ہمارا مطالبہ مانا جائے گا۔’

‘ہماری ہڑتالوں کے بعد، ہم نے دیکھا کہ برطانوی طلبا کو ترجیح دی گئی ہے اور انھیں کچھ حد تک رعایت دی گئی جیسا کہ برطانوی طلبا کو قرض کے حصول میں آسانی فراہم کی گئی ہے لیکن دوسری جانب وبا کے دوران بین الاقوامی طلبا ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، وہ برطانوی طلبا کے مقابلے میں دگنی فیس دیتے ہیں لیکن انھیں رعایت نہیں دی گئی۔’

اس سلسلے میں ہم نے برطانیہ کی چند یونیورسٹیوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کورونا کے دوران طلبا کی کس طرح مدد کر رہے ہیں۔

برطانیہ

برونیل یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا کہ’برونیل نے طلبا کے لیے ایک پیکیج میں سرمایہ کاری کی ہے جس کے تحت ایسے طلبا کو کرائے میں چھوٹ ملے گی جو سرکاری لاکڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے کیمپس میں اپنا کمرہ استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم لائبریری، کیریئر کی خدمات اور ذہنی صحت اور تندرستی کے لیے خاطر خواہ مدد سمیت زیادہ سے زیادہ خدمات آن لائن پیش کر رہے ہیں۔ ہم حکومت اور برونیل کی طلبا یونین کے نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ ان حالات میں ہم طلبا کی ضروریات کو کس طرح بہتر طریقے سے پورا کر سکتے ہیں۔’

سٹی یونیورسٹی آف لندن کا بھی کہنا ہے کہ وہ کووڈ 19 کے دوران بین الاقوامی طلبا کی مدد کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔

سٹی یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا ‘اگرچہ سٹی یونیورسٹی طالب علموں کی رہائش کا انتظام نہیں کرتی ہے لیکن ہمیں خوشی ہے کہ ہماری دو اہم نجی کمپنیاں، یونائٹ گروپ اور آئی کیو مستحق طلبا کو کرایہ میں چھوٹ یا کرایہ کی ادائیگی میں معطلی کی پیش کش کر رہے ہیں۔’ انھوں نے کہا ہے کہ اگر طلبہ مناسب انداز میں آن لائن پڑھائی اور معاونت حاصل کر رہے ہیں تو انھیں ٹیوشن فیس کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کی واپسی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔

‘سٹی میں عملے نے غیر معمولی طور پر سخت محنت کی ہے تاکہ ہماری تعلیم کا معیار بلند رہے۔ اگرچہ سٹی کا ارادہ نہیں ہے کہ وہ 2020/2021 کی فیسوں میں کمی کرے لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ اگر کسی طالب علم کو اپنے پروگرام کے کسی پہلو کے بارے میں شکایت ہے تو وہ یونیورسٹی میں طلبا کی شکایات کے عمل کے ذریعے اس کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔’

برطانیہ

سٹی نے ایک ڈیجیٹل انکلیوژن فنڈ بھی تشکیل دیا ہے جو طلبا کو کمپیوٹر اور سافٹ ویئر خریدنے میں مدد کرتا ہے۔

اسی طرح یو سی ایل نے ایک مالی فنڈ بھی تشکیل دیا ہے جس سے پاکستانی طلبا بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔

یو سی ایل کے ترجمان نے بتایا کہ وہ طلبا جو یو سی ایل کی رہائشگاہ میں نہیں رہ رہے ہیں اور لاک ڈاؤن کے دوران گھر واپس چلے گئے تھے، ان سےرقم کی ادائیگی کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ کچھ یو سی ایل طلبا نے شکایت کی کہ ان کے پاس نجی رہائش کے معاہدے ہیں اور وہ ابھی بھی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے اس مسئلے پر یو سی ایل نے دعوی کیا ہے کہ نجی رہائش گاہوں میں کرائے پر رہنے والے طلبا کی مدد کرنے کے لیے، یو سی ایل ‘سٹوڈنٹ سپورٹ اور ویل بیئنگ’ نے طلبا کو خصوصی خطوط جاری کیے ہیں اور ‘ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ مکان مالک اس کو قبول کریں گے اور کرایہ میں کمی کریں گے۔ ‘

یو سی ایل کے ڈائریکٹر آف سٹوڈنٹ سپورٹ اینڈ ویلبیئنگ ڈینس لانگ کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے طلبا کی صحت اورتندرستی ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ ہم سب کے لیے اور ہمارے طلبا کے لیے مشکل وقت ہے، جنھوں نے اس دوران غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘لاک ڈاؤن جیسے اقدامات تنہائی کاسبب بن سکتے ہیں۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں ہماری ذہنی صحت اور تندرستی کا خیال رکھنا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.