جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء

ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

اعتزاز احسن سمیت متعدد افراد نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، قانون بن گیا ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، اسے پڑھ لیں، ہم سمجھتے تھے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا۔

لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت سے پوچھے50 سال سےلاپتہ افراد پر قانون سازی کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟

پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری اپیل پر رجسٹرار کے اعتراضات ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے استفسار کیا آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کرکے درخواستیں سن رہے ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا، میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، آپ ذاتی بات نہ کریں، لاپتہ افراد سے متعلق بات کرنے ہے تو کریں۔

شعیب شاہین نے شیخ رشید، فرخ حبیب، صداقت عباسی اور اعظم خان سے متعلق دلائل دیے۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین کا سوال کیا کہ آپ ان کے کیس کیسے لڑ رہے ہیں، ہم آپ کو سیاسی باتیں کرنے نہیں دیں گے، ابھی تک آپ نے ایک سیاسی جماعت کی باتیں کی ہیں، سیاسی باتیں نہ کریں، یہ میڈیا پر جا کر کر لینا، ہم یہاں آپ کو سیاسی باتیں نہیں کرنے دیں گے، ہم آپ کو اپنا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب آپ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی بات کریں گے تو سوال بھی اٹھیں گے، ہم آپ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان کا مسئلہ ہے کہ جو آدمی عہدے پر ہو وہ ذمے داری نہیں لیتا، جو آدمی عہدے پر ہو خود ذمے داری نہیں لیتا دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شیخ رشید کو گمشدہ کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ شیخ رشید کوئی معصوم شخص ہیں؟ شیخ رشید نے دھرنا کیس میں نظرثانی دائر کی تو وہ اس کیس میں خود نہیں آسکتے؟  شیخ رشید اگر کہیں کہ انہوں نے آپ کو کیس لڑنے کا نہیں کہا تھا تو کیا کریں گے؟ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی نہ بنائیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا؟

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نکتہ اُٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ اپنی استدعا بتائیں۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کمیشن کب کا ہے؟ تب کس کی حکومت تھی؟

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ 2011ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران لاپتہ افراد کمیشن بنا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرانا چاہتے ہیں؟ بل غائب ہونے کا اگر سنجرانی صاحب پر الزام لگا رہے ہیں تو انہیں پارٹی کیوں نہیں بنایا، یہ بہت عجیب بات ہے کہ وفاقی وزیر کہہ رہا ہے کہ اس کا بل ہی غائب کر دیا گیا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میں شیریں مزاری کی رپورٹ پر انحصار کر رہا ہوں، شیریں مزاری نے رپورٹ دی کہ قومی اسبلی سے بل پاس ہوا اور سینیٹ میں غائب ہو گیا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.