مصر میں بہائی مذہب کا قبرستان: ‘ہمیں اپنے مردے دفن کرنے کے لیے جگہ دیں`
- احمد شوشاہ
- بی بی سی نیوز عربی
کئی برسوں سے مصر میں بہائی مذہب کے پیروکار اپنے مردوں کو اپنے آبائی شہر سکندریا میں دفنانے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
بہائی مذہب دنیا کے نئے ترین مذاہب میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کے کل 60 لاکھ پیروکار ہیں، جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن سکندریا میں ان لوگوں کے لیے کوئی قبرستان نہیں۔
ملک میں واحد بہائی قبرستان دارالحکومت قاہرہ کے مضافات میں ہے اور اس میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ ایک مقامی بہائی شخص حاتم الہادی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے قوانین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مردوں کو ایک گھنٹے سے زیادہ تک سفر نہیں کروانا۔‘
سکندریا سے قاہرہ کا سفر تین گھنٹے کا ہے۔ حاتم کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے مردوں کو اتنی دور لے جا کر اپنے مذہب کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں چلے بھی جائیں تو وہاں جگہ نہیں بچی۔‘
مصر میں حکام قبرستان کی زمین مذاہب کی بنیاد پر مختص کرتے ہیں۔
سرکاری سطح پر مصر میں صرف تین مذاہب مانے جاتے ہیں: یہودی، مسیحی اور اسلام۔ ملک میں قومی شناختی کارڈ پر ہر شہری کا مذہب درج کیا جاتا ہے اور بہائی شہریوں کے کارڈز پر مذہب کا خانہ خالی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قانونی جنگ
قبرستان کے علاوہ اس برادری کے لیے نکاح کا اندراج ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس برادری کے کچھ لوگ جھوٹی مذہبی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری مسائل سے بچتے ہیں۔
مصر میں بہائی آبادی کی تعداد بھی واضح نہیں کیونکہ اس حوالے سے کوئی سرکاری ڈیٹا موجود نہیں تاہم کچھ اندازوں کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور صرف سکندریا میں درجنوں بہائی خاندان بستے ہیں۔
ایک سال قبل اس برادری کے کچھ لوگ عدالت گئے جہاں انھوں نے شہری انتظامیہ سے کہا تھا کہ ان کے لیے قبرستان کی خصوصی اراضی مختص کی جائے تاہم انھوں نے یہ کیس نہیں جیتا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ‘معاشرے کے مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جانی چاہیے اور بہائی مذہب امنِ عامہ کے خلاف ہے۔‘
سمیع اور لیلہٰ ایک بہائی جوڑا ہے جو اس فیصلے سے انتہائی ناخوش ہے۔
اقلیتوں کے حقوق
سمیع بتاتے ہیں کہ ’آپ سوچیں کہ سکندریا سے قاہرہ جانے کے لیے پورے دن کا سفر، اس کے اخراجات، تھکاوٹ، انتظام۔۔۔ یہ معاملہ کافی سادہ ہو جاتا اگر یہاں سکندریا میں قبرستان ہوتا۔ میں ایک مصری شہری ہوں، کیا یہ میرا حق نہیں کہ مجھے میرے مذہبی عقائد کے مطابق دفن ہونے کی جگہ دی جائے۔‘
لیلیٰ ان سے اتفاق کرتی ہیں۔ سنہ 2020 کے آخر میں ان کے بھائی کی موت ہوئی تھی۔
’ہم اپنے مذہب کی واحد اجتماعی رسم ادا کرنے کے لیے کاروں کے ایک قافلے میں قاہرہ چلے گئے۔ یہ ایک مشکل دن تھا۔ جب بھی میں ان کی قبر پر جانا چاہتی ہوں مجھے اس راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔‘
بی بی سی نے تبصرے کے لیے حکام سے رابطہ کیا لیکن کوئی بیان نہیں دیا گیا لیکن مصر میں وکیل ایمن محفوظ حکومت کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکام کو ایک لکیر کھینچنی ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے
‘اگر ہم ہر عقیدے کے لیے دروازہ کھول دیں گے تو ہر کوئی اپنے نجی قبرستانوں کا مطالبہ کرے گا۔ اس سے ہمارے قومی تانے بانے اور سماجی اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔‘
قاہرہ کے واحد بہائی قبرستان کے گرد ایک موٹی دیوار ہے، جس کے دروازے پر ایک نشان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’قریب نہ آو۔‘
قاہرہ میں قبرستان کے اندر کی تصاویر بی بی سی کو دکھائی گئی ہیں جن میں ایک پرہجوم قبرستان ہے جس میں قبروں کے درمیان انتہائی محدود جگہ ہے۔
بہائی مذہب کی بنیاد بغداد میں ایک ایرانی شخص بہا اللہ نے سنہ 1863 میں رکھی تھی۔ اپنی تحریروں میں بہا اللہ کہتے ہیں کہ ‘جتنی جلدی تدفین کی جائے، اتنا ہی موزوں اور افضل ہے۔‘
بہائی عقیدے کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ میت کو موت کی جگہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے سے زیادہ دفن نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایران میں امتیازی سلوک
مصر واحد ملک نہیں جہاں بہائی لوگ اپنے جنازے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گذشتہ سال ایرانی حکام نے اس برادری کے ارکان کو حکم دیا تھا کہ وہ 1988 میں سزائے موت پانے والے سیاسی قیدیوں کو اجتماعی قبر میں دفن کریں۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر، ایران میں بہائیوں کو حکام ایک متعصب فرقے کے طور پر شمار کرتے ہیں اور انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
یمن میں حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا میں چھ ممتاز بہائیوں کو کئی سال سے جیل میں ڈال دیا تھا، جنھیں سنہ 2020 میں رہا کیا گیا۔ بہائی برادری نے کہا کہ ان کی قید کی واحد وجہ ’ان کا عقیدہ‘ تھا۔
سمیع اور لیلیٰ نے ابھی تک اپنے آبائی شہر میں قبرستان کی امید نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سپریم ایڈمنسٹریٹو کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
’ہم اپنے مردوں کو اپنے ہی قبرستان میں اور اپنی روایات کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔‘
Comments are closed.