’ہماری گھنٹیاں ایمان کے تھرمامیٹر کی طرح ہیں‘ افریقہ میں بڑھتی عیسائیت نے کیسے ایک خاندانی بزنس کو بچایا؟
’ہماری گھنٹیاں ایمان کے تھرمامیٹر کی طرح ہیں‘ افریقہ میں بڑھتی عیسائیت نے کیسے ایک خاندانی بزنس کو بچایا؟
افریقہ سے گھنٹیوں کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا ہے
- مصنف, بین ہینڈرسن
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
’دوسری عالمی جنگ کے بعد تک ہم اٹلی کے لیے بہت زیادہ گرجا گھروں کی گھنٹیاں تیار کر رہے تھے لیکن 1990 کی دہائی شروع ہونے کے بعد سے اٹلی میں ان کی مانگ اب اتنی زیادہ نہیں رہی۔‘
یہ الفاظ تھے اٹلی سے تعلق رکھنے والے ارمینڈو میرینیلی کے جو گرجا گھروں کی گھنٹیاں بنانے والے ایک ماہر کاریگر ہیں اور ان کی فرم کیمپین میرینیلی یورپ میں چرچ کی گھنٹیاں بنانے والی سب سے قدیم خاندانی فاؤنڈری کہلاتی ہے۔
خوش قسمتی سے اب خاندان کو ایک نیا بازار مل گیا ہے۔
ارمینڈو میرینیلی کہتے ہیں کہ ’پچھلے 10 سال میں ہماری تقریباً 25 فیصد گھنٹیاں افریقی ممالک کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ یہ ایک بہت تیز اضافہ ہے۔‘
ان کی مدھم روشنی والی فاؤنڈری کے اندر، تمام اشکال اور سائز کی کانسی کی گھنٹیاں چھتوں سے لٹک رہی ہیں۔ ان کا خاندان تقریباً ایک ہزار سال سے گرجا گھروں کی گھنٹیاں بنا رہا ہے، ان میں سے کچھ گھنٹیاں مشہور جگہوں پر بھی لٹکی ہوئی ہیں، مثلاً پیسا کے لیننگ ٹاور سے لے کر سینٹ پیٹرز سکوائر تک۔
مذہبی اور روحانی
ارمینڈو کا کہنا ہے کہ خاندان کا گھنٹی بنانے کا عمل اتنا ہی مذہبی اور روحانی ہے جتنا کہ تکنیکی۔
’جب مولڈنگ (ڈھالنے کا کام) شروع ہوتی ہے تو گرجا گھر کا پادری پگھلی ہوئی کانسی کے لیے دعا کرتا ہے۔ آخر میں ایک اور دعا کی جاتی ہے اور وہ اس وقت ہوتی ہے جب لوگ اپنے مال جیسے ہار اور انگوٹھیوں کو مائع کانسی میں پھینکتے ہیں، تو گھنٹی کے اندر ان کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔ آج کے گرجا گھروں میں بجنے والی گھنٹیوں میں ان کے آباؤ اجداد کے بھی حصے ہوتے ہیں۔‘
ارمینڈو کے ساتھی آئی وو کے سر کے بال منڈے ہوئے ہیں اور ان کی فرینچ داڑھی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح ہر گاہک کے لیے علیحدہ گھنٹیاں ہاتھ سے تیار کی جاتی ہیں۔
’ہر گھنٹی کو ایک نوٹ بجانا ہوتا ہے جسے ہم منتخب کرتے ہیں۔ بڑی گھنٹی کی آواز گہری ہوتی ہے جبکہ چھوٹی گھنٹی کی آواز بہت زیادہ اونچی ہوتی ہے۔‘
گھنٹی بنانے کا عمل قرون وسطیٰ کے زمانے سے ایک جیسا ہی رہا ہے۔ گھنٹی کو بھیجنے سے پہلے، اس کی آواز کی جانچ کی جاتی ہے۔
ارمینڈو کہتے ہیں کہ ’اس کام کے لیے، ہمارے پاس ایک ماہر کاریگر ہے۔ اس نے یہاں 17 سال کی عمر میں کام شروع کیا تھا۔ اب وہ 85 سال کا ہو چکا ہے۔ ہر گھنٹی پر آخری رائے اسی کی ہوتی ہے۔‘
گھنٹی کی تال کو جانچنے کے لیے ایک ٹیوننگ فورک استعمال کیا جاتا ہے۔
ارمینڈو میرینیلی اپنی گھنٹیوں کی ورکشاپ میں کھڑے ہیں
یورپ میں زوال
یورپ میں میرینیلی گھنٹیوں کی مانگ میں کمی، مغربی یورپ میں، جو کبھی مذہب کا مرکز تھا، عیسائیت کے لیے بدلتے ہوئے رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق سنہ 1900 میں تقریباً 68 فیصد عیسائی یورپ میں رہتے تھے۔ یہ تعداد 2023 میں تقریباً 23 فیصد تک گر گئی اور 2050 تک مزید کم ہو کر 15 فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔
ماریہ ایک معمر خاتون ہیں جو جنوبی اطالوی قصبے اگنون میں رہتی ہیں۔ یہاں انھوں نے اپنی ساری زندگی گھنٹیاں بنتی دیکھی ہیں۔ وہ عیسائیت میں کمی کی کہانی کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں۔
’ماضی میں، چرچ نوجوانوں کو جمع کرتا تھا اور فٹبال ٹورنامنٹس اور تھیٹر پروڈکشنز کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس طرح چرچ مقامی کمیونٹی کا مرکز بن جاتا تھا۔‘
’اب، وہ ایسی سرگرمیاں نہیں کرتے۔ اب، یہ صحرا کی مانند ہے۔‘
لہذا قریب کہیں گھر تلاش کرنے کے بجائے، مارینیلی کی گھنٹیاں سمندر پار بھیجی جا رہی ہیں، بالکل ایسے جیسے کانسی کی مشعلیں جنوب میں عیسائیت کے سفر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
افریقہ میں ترقی
گھنٹیاں بنانا مذہبی، روحانی اور فنکارانہ صلاحیتوں کا مرکب ہے
جنوب مغربی نائیجیریا کے علاقے اوڈونی میں سینٹ چارلس بورومیو رومن کیتھولک چرچ کے پادری فادر کلیٹس کہتے ہیں کہ ’گھنٹی کو ہم خدا کی آواز کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
اوڈونی ایک چھوٹی دیہی برادری ہے۔ یہاں گرجا گھر قدرے جدید ہے لیکن اسے کلاسیکی انداز میں بنایا گیا ہے۔
چرچ کے ٹاور کے اندر بجنے والی، اٹلی کی میرینیلی ورکشاپ میں بنائی گئی گھنٹی کی آواز اردگرد کے دیہی علاقوں میں گھونجتی ہے اور گرجا گھر میں دعا کے وقت کا اشارہ دیتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’افریقہ میں چرچ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔‘
فادر کلیٹس کہتے ہیں کہ ’کچھ سال پہلے تک اس کمیونٹی میں کوئی کیتھولک چرچ نہیں تھا لیکن جب سے یہ چرچ بنایا گیا ہے، بڑی ترقی دیکھی گئی ہے۔‘
اوڈونی میں عیسائیت کی ترقی کی جھلک سب صحارا افریقہ میں بھی جھلکتی ہے۔ 20ویں صدی کے اختتام پر افریقہ میں ایک کروڑ سے بھی کم عیسائی رہتے تھے لیکن اب، سینیٹر فار دی سٹڈی آف گلوبل کرسچینیٹی کے مطابق افریقہ میں کسی بھی دوسرے براعظم سے زیادہ عیسائی ہیں، تقریباً چھ کروڑ پچاس لاکھ سے بھی زیادہ۔
خطے کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مذہبی جوش و جذبے کو بڑھاوا حاصل ہوا ہے۔ اسلام جیسے دیگر مذاہب بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
’ہماری گھنٹیاں ایمان کے تھرمامیٹر کی طرح ہیں‘
افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کی کہانی پینٹیکوسٹالزم کی مذہبی تحریک کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں۔ یہ دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی مذہبی تحریک ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر اور عیسائیت پر کتابیں لکھنے والی مصنف ڈاکٹر نیمی واریبوکو کا کہنا ہے کہ براعظم میں پینٹیکوسٹلز کی تعداد 2006 میں ایک کروڑ سال لاکھ سے بڑھ کر 2020 تک دو کروڑ 30 لاکھ تک ہو گئی ہے۔
ارمینڈو مارینیلی اپنی گھنٹیوں کی بدلتی تقدیر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری گھنٹیاں ایمان کے تھرمامیٹر کی طرح ہیں۔‘
’ہم اپنی تجارت کے ذریعے فوراً سمجھ سکتے ہیں کہ ایمان کہاں سب سے زیادہ زندہ ہے اور کہاں یہ زوال پذیر ہے۔
’فی الحال ہمارے پاس تنزانیہ، نائیجیریا، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو سے آرڈرز ہیں۔ یہاں اٹلی میں عقیدے میں تھوڑے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن افریقہ میں یہ فروغ پا رہا ہے۔‘
Comments are closed.