’ہماری بہنوں کی قربانی نے قیدیوں کی زندگی بچائی‘: نازی فوجیوں کے ہاتھوں 11 راہباؤں کی ہلاکت کا معمہ

جرمنی

،تصویر کا ذریعہBy arrangement

  • مصنف, سوامینتھن نترنجن
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

’ان کی موت جس طریقے سے ہوئی وہ اس کہانی کا ایک اہم حصہ ہے لیکن میرے لیے وہ عام خواتین تھیں، عام راہبائیں، جنھوں نے کچھ غیر معمولی کام کیا اور یہی بات اسے خاص بناتی ہے۔‘

80 سال قبل یکم اگست 1943 کو جرمنی کی نازی فوج نے 11 رومن کیتھولک راہباؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔

سسٹر کلارا والچیک ’نووگروجیک کی شہدا‘ کے نام سے جانی جانے والی ان راہباؤں کے مدفن پر اکثر جاتی ہیں۔

مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس میں موجود سسٹر کلارا نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان راہباؤں نے 120 لوگوں کی زندگی بچائی جن کو بعد میں جبری مشقت پر مجبور کیا گیا۔

سسٹر کلارا والچیک

،تصویر کا ذریعہKLARA VOLCHEK

،تصویر کا کیپشن

سسٹر کلارا والچیک

پانچ مارچ سنہ 2000 میں پوپ جان پال دوم نے ان راہباؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان خواتین نے اتنی طاقت کہاں سے حاصل کی کہ انھوں نے خود کو نووگروجیک کے قیدی باسیوں کی جگہ خود کو پیش کر دیا؟‘

تاہم اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ان راہباؤں کو چند قیدیوں کی رہائی کے بدلے ہلاک کیا گیا۔

حقائق کی تلاش

اس کہانی کا آغاز چار ستمبر 1929 کو ہوتا ہے جب ’ہولی فیملی آف نازاریتھ آرڈر‘ کی پہلی دو راہبائیں نووگروجیک کے چھوٹے سے قصبے میں پہنچتی ہیں۔

اس وقت یہ قصبہ 20 ہزار لوگوں کی آبادی پر مشتمل تھا اور پولینڈ کے کنٹرول میں تھا تاہم ستمبر 1939 میں سوویت یونین نے اس قصبے پر قبضہ کیا لیا جس کے بعد راہباؤں کو اپنا کانونٹ چھوڑنا پڑا۔

جرمنی

1941 میں یہ قصبہ جرمن فوج کے کنٹرول میں چلا گیا۔ اس وقت راہباؤں کو کانونٹ واپسی کا موقع ملا۔ قصبے کی نصف آبادی یہودیوں پر مشتمل تھی جن کے خلاف نازی فوج نے کارروائیاں شروع کر دیں۔

پہلا قتل عام دسمبر 1941 میں ہوا جب 5100 یہودی ہلاک کر دیے گئے۔ اگست 1942 میں 4500 یہودی ہلاک کر دیے گئے۔

1943 میں اس جگہ نازی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے کافی گروہ بھی فعال تھے۔ گسٹاپو، جو نازی جرمنی کی خفیہ پولیس تھی، نے اس مزاحمت کو کچلنے کے لیے 17 اور 19 جولائی کے درمیان 180 افراد کو گرفتار کر لیا۔

جلد ہی یہ خبر عام ہوئی کہ ان گرفتار افراد کو ہلاک کر دیا جائے گا۔

ایک راہب کا بیان

الیگزینڈر زینکیوچ قصبے کے واحد کیتھولک راہب تھے۔ ان کے ساتھ 12 راہبائیں موجود تھیں جن میں 55 سالہ سسٹر میری سٹیلا سب سے زیادہ عمر کی تھیں اور 27 سالہ سسٹر میری بورومیا سب سے کم عمر تھیں۔

الیگزینڈر زینکیوچ بتاتے ہیں کہ سسٹر سٹیلا نے لوگوں کی گرفتاری کی خبر سننے کے بعد ’سادگی سے کہا کہ اے خدا، اگر زندگی کی قربانی درکار ہے تو ہم سے قبول کر جن پر خاندانی ذمہ داریاں نہیں اور ان کو رہائی دے جن کو بیوی بچوں کا خیال رکھنا ہے۔‘

الیگزینڈر زینکیوچ نے اس واقعے کے کافی عرصہ بعد اپنی گواہی میں بتایا تھا کہ ’ہم سب دعا کر رہے تھے۔‘

بیلاروس

،تصویر کا ذریعہKLARA VOLCHEK

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ایک ہفتے بعد راہباؤں کو مقامی پولیس سٹیشن طلب کر لیا گیا۔

الیگزینڈر کی سسٹر سٹیلا سے آخری ملاقات 31 جولائی کو ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سسٹر سٹیلا بے چین تھیں۔‘

سسٹر سٹیلا نے ان کو بتایا کہ انھیں توقع ہے کہ ان کو جبری مشقت کے لیے جرمنی بھجوا دیا جائے گا۔

بعد میں سسٹر سٹیلا نے ایک راہبہ کو چرچ میں رکنے کا کہا اور باقی کے ساتھ پولیس سٹیشن چلی گئیں۔

اگلے دن جب الیگزینڈر چرچ پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ راہبائیں موجود نہیں۔ ان کو ’صدمے کا احساس‘ ہوا۔

کچھ ہی دیر میں ان کو علم ہوا کہ اس دن، یکم اگست 1943 کی صبح، راہباؤں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

نازی فوجیوں کی اس کارروائی کا مقصد ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان کو ایسی افواہیں سننے کو ملی تھیں کہ گسٹاپو سے شناخت میں غلطی ہوئی کیونکہ خفیہ پولیس ایک مختلف مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے اراکین کو ہلاک کرنا چاہتی تھی جن کے بارے میں ان کو شک تھا کہ وہ سوویت گوریلا جنگجووں کی مدد کر رہے ہیں۔

تاہم الیگزینڈر خود بھی چھپ گئے۔ مارچ 1945 میں جب اس علاقے میں نازی فوج کو شکست ہوئی تو انھوں نے راہباؤں کی لاشیں دریافت کیں اور انھیں چرچ کے قریب دفنا دیا۔

شواہد

الیگزینڈر کا بیان تمارا ورشیٹسکایا کی تحقیق کے مطابق درست ہے۔ تمارا نے 1992 میں ایک میوزیم قائم کیا تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں کی ہلاکت پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔

تمارا

،تصویر کا ذریعہTAMARA

،تصویر کا کیپشن

تمارا ورشیٹسکایا

سنہ 2011 میں انھوں نے امریکی ہولوکاسٹ میموریئل میوزیم کے ساتھ مل کر اس واقعے کے عینی شاہدین سے بات چیت کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ماریا کاراوائسکا وہ واحد فرد تھیں جنھوں نے مجھے آنکھوں دیکھی کہانی سنائی۔ ان کے دونوں بھائیوں کو جرمنی بھیج دیا گیا تھا۔‘

ماریا نے ان کو بتایا کہ 112 پولش شہری جرمنی بھیجے گئے تھے۔

تمارا ورشیٹسکایا نے ایک فہرست دریافت کی جو جرمن زبان میں تحریر تھی۔ اس میں 95 پولش شہریوں کے نام درج تھے جن کو جرمنی بھجوایا گیا تھا۔

ماریا نے تمارا کو بتایا کہ ان کے تین بھائیوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ’ان پر ایک خفیہ مزاحمتی تحریک چلانے کا الزام تھا۔ جرمنی کی فوج ان کو مارنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ ان کی قبریں تک کھودی جا چکی تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ماریا کاراوائسکا

،تصویر کا ذریعہUSHMM

،تصویر کا کیپشن

ماریا کاراوائسکا

گسٹاپو نے جب 180 لوگوں کو حراست میں لیا تھا اس وقت انچارج افسر ولہیلم ٹراوب موجود نہیں تھے۔ ان کا تعلق جرمنی کے ایک ایسے خاندان سے تھا جن کے پاس کاشکاری کا کافی رقبہ تھا۔

تمارا کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ولہیلم کو ان گرفتاریوں کے بارے میں علم ہوا وہ منسک پہنچے اور اعلی حکام سے درخواست کی کہ ان قیدیوں کو ان کے کھیتوں پر کام کرنے کے لیے بھجوا دیا جائے۔‘

’ماریا نے مجھے بتایا کہ اس افسر نے ان کے بھائیوں سے پولش زبان میں بات کی اور انھیں کہا کہ وہ اپنے گھر سے ضرورت کا سامان لے کر آئیں۔‘

اگلے دن تمام قیدیوں کو ریلوے سٹیشن پہنچنے کا حکم دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ حقیقت ہے کہ گرفتاری کے بعد پولش خاندان چرچ گئے اور انھوں نے مدد کی اپیل کی۔‘

بیلاروس

،تصویر کا ذریعہKLARA VOLCHEK

’راہباؤں نے ان کے لیے دعا کی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بوڑھی نن نے دعا کرتے ہوئے کہا ہو کہ اگر قربانی درکار ہے تو ہم سے لی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ سچ ہو سکتا ہے۔‘

تاہم اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ نازی فوجیوں اور راہباؤں کے درمیان ایسا کوئی سودا ہوا کہ گرفتار افراد کی جگہ وہ لے لیں۔

ان کا ماننا ہے کہ راہباؤں کی گرفتاری کا پولش شہریوں کی رہائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

’خدا نے ان کی قربانی قبول کی‘

تمارا کے مطابق جرمنی بھجوائے جانے والے تمام افراد زندہ لوٹے۔

سسٹر ایمابلس اب اس چرچ کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے ان واقعات پر چرچ کا موقف پیش کیا جس میں تحریر ہے کہ ’تمام گواہان متفق ہیں کہ ان راہباوں نے اپنے ایمان، خدا اور پڑوسیوں کی محبت میں اپنی زندگی کی قربانی دی۔‘

جب ان سے شواہد کی کمی پر سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’انھوں نے قربانی کا لفظ بولا تھا اور ہمارا ماننا ہے کہ خدا نے ان کی قربانی قبول کی۔‘

قصبے میں کم ہوتے ہوئے مذہبی رجحان کے باوجود سسٹر کلارا اپنے عقائد پر قائم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ ہماری بہنوں کی قربانی نے قیدیوں کی زندگی بچائی۔‘

’میں جانتی ہوں کہ انسانی سوچ حقائق کو مختلف انداز میں دیکھتی ہے لیکن خدا نے ان کی آواز سنی اور ان کی قربانی کو تسلیم کیا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ