اسرائیل اور لبنان کیا پھر سے جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ٹام بیٹمین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، شمالی اسرائیل

دو لوگ کنکریٹ کی ایک اونچی دیوار سے اتر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے ایک اسرائیلی فوجی کیمرہ لٹکا ہوا ہے، جسے انھوں نے ابھی ابھی دیوار پر چڑھ کر توڑ دیا ہے۔

ان میں سے ایک دوسرے کو پکارتا ہے: ’دوست، کہاں ہو، میرے پیچھے پیچھے چلو۔‘

دوسرا شخص بھی دیوار سے نیچے آ رہا ہے۔ جب کہ وہاں سے کچھ دور کھڑا ایک تیسرا شخص پورے واقعے کی ویڈیو بنا رہا ہے۔ وہ شوٹ کر رہا ہے کہ انھوں نے وہاں حزب اللہ کا پرچم کس طرح لہرایا۔ ان مردوں کے ساتھ ایک عورت بھی ہے۔

دوسری طرف سے آنے والے اسرائیلی فوجی ٹینکوں سے بچنے کے لیے یہ لوگ تیزی سے وہاں سے بھاگتے ہیں۔

یہ ’ہمت کا کھیل‘ مشرق وسطیٰ کی خطرناک ترین سرحدوں میں سے ایک پر کھیلا جا رہا ہے۔

اس سرحد پر پرتشدد اور خونریز تصادم میں اضافہ متوقع ہے۔

حالیہ مہینوں میں اقوام متحدہ کی پیٹرولنگ والی سرحد بلیو لائن پر جو اسرائیل کی مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو لبنان سے علیحدہ کرتی ہے ایسے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج یونیفل کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور لبنانی شدت پسند گروپ حزب اللہ دونوں نے بار بار سرحد پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

سرحد پر کئی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ ان میں اسرائیل کے توپ خانے کے جواب میں لبنان سے فلسطینی انتہا پسندوں کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملے شامل ہیں۔ ان شدت پسندوں کو حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔

رواں سال کے اوائل میں ایک لبنانی شدت پسند کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے سرحد پار سے حملے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس شدت پسند کو شمالی اسرائیل میں آرماگیڈن کے بائبل کے مقام کے قریب بم پھینکتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اور لبنان کے درمیان تیسری تباہ کن جنگ کا امکان بڑھ رہا ہے؟

کیا جنگ کے آثار پیدا ہو رہے ہیں؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

میں اسرائیل کے شمالی ترین شہر میٹولا میں ایک سیب پیدا کرنے والے کسان لیواو وینبرگ کی چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھا ہوں۔

یہاں کا منظر خوبصورت ہے۔ یہاں سے گلیل کے جنگل والے پہاڑوں سے لے کر باڑے کے اس پار جنوبی لبنان کے سبز میدان نظر آ رہے ہیں۔

وینبرگ کا کہنا ہے کہ ’وہاں پر نیلی کار کے ساتھ جو سفید خیمے ہیں وہ حزب اللہ کے خیمے ہیں، آپ انھیں میرے بیڈ روم سے دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے تو میں سمجھ نہیں سکا کہ میری بیوی کھڑکی کے پاس کیوں نہیں سونا چاہتی تھی، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ خیمے اتنے قریب ہیں کہ کبھی کبھی آپ انھیں سن سکتے ہیں۔‘

حالیہ مہینوں میں اسرائیل نے اقوام متحدہ سے شکایت کی ہے کہ حزب اللہ نے ان کی سرحد کے قریب خیمے لگا رکھے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لبنان کی جانب سے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر کارروائی کی گئی ہے۔

لبنان کے حکام اسرائیل کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اسرائیلی لڑاکا طیارے کا ان کی حدود میں داخل ہونا شامل ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن وینبرگ کا خیال ہے کہ اس موسم گرما میں ایسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

ہم ملٹری گیٹ سے ہوتے ہوئے پیٹرول روڈ تک گئے۔ فوج کے علاوہ یہاں صرف کسان ہی آسکتے ہیں۔

یہ وینبرگ کے سیب اور خوبانی کے باغات کا راستہ ہے۔ ہم لبنان کی سرحد کے اتنے قریب پہنچ گئے جتنے ہم پہنچ سکتے تھے۔ ہم ملٹری کمپاؤنڈ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

لبنانی لوگ ہمارے اتنے قریب تھے کہ ہم ان سے بلند آواز میں بات کر سکتے تھے۔ لبنانی حصے میں ایک منی بس سڑک پر جا رہی تھی۔ یہ سڑک ہمارے قریب تھی۔ دوسری طرف ایک چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے جہاں لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔

ہم بلیو لائن سے جنوب میں چند میٹر فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ہم ایک نیلے رنگ کے بیرل کے پاس سے گزرے جس پر لکھا تھا ’لائن آف ویدڈرال، 2000، ڈونٹ ٹریسپاس۔‘

اسرائیل

خوف کے سائے

جنوبی لبنان پر 18 سال کے قبضے کے بعد اسرائیل کی پیچھے ہٹنے کے بعد یہ دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ سرحد ہے۔

اسرائیل نے سنہ 1982 میں یاسر عرفات اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے جنگجوؤں کو ختم کرنے کے لیے اس علاقے پر حملہ کیا تھا۔

یہ سرحد اب بھی دونوں ممالک کو باضابطہ طور پر تقسیم کرتی ہے۔ چار دہائیوں کے بعد یہاں پھر سے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

وینبرگ کا کہنا ہے کہ ’دو دن پہلے لوگ (ہماری باڑ پر) پتھر پھینکنے آئے تھے۔ وہ وردی میں نہیں تھے، لیکن وہ یقیناً حزب اللہ کی حمایت والے لوگ تھے، کیونکہ جب وہ ہم پر چیخ رہے تھے تو وہ عربی اور انگریزی زبانیں بول رہے تھے۔ اور وہ کہہ رہے تھے، ’ہم تمہیں مار ڈالیں گے، ہم تمہاری زمین پر قبضہ کر لیں گے۔‘

وینبرگ وہ ویڈیو دکھاتے ہیں جسے انھوں نے صبح شوٹ کیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کئی مسلح افراد دوسری طرف ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے تھے۔ وینبرگ کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ وہ حزب اللہ کے جنگجو تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ نئی بات ہے، ہم نے پہلے ایسا نہیں دیکھا۔ ہم لبنانی فوج اور اقوام متحدہ (امن فوج) کو دیکھتے تھے، لیکن ہم نے حزب اللہ کے لوگوں کو اس طرح نہیں دیکھتے تھے۔‘

وینبرگ نے 2006 کے بعد دوسری لبنان جنگ دیکھی ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ ایک اور جنگ چھڑنے والی ہے۔ وہ دوسری جنگ کے دوران ایک فوجی تھے اور ان کا کوئی خاندان نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں: ’وہ بہت خراب صورتحال تھی۔ لیکن میں اکیلا تھا، نہ میری بیوی تھی اور نہ ہی بچے تھے۔ تب میں نے اپنی زندگی کو مختلف انداز سے دیکھا۔ میٹولا ایک جنگ زدہ شہر لگتا تھا۔ آج میں نہیں چاہتا کہ ہمیں اسی راستے پر واپس جانا پڑے۔‘

بیان بازی میں تیزی

میں سرحد کے قریب اور اس سے باہر جس کسی سے بات کرتا ہوں وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی فریق کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ سرحد کے پاس والے علاقوں میں یہ غیر مستحکم صورتحال برسوں سے جاری ہے اور لوگ اس سے تنگ ہیں۔

جب میں نے یونیفل (اقوام متحدہ کی امن فوج) سے سرحد کی صورتحال کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے جنوبی لبنان میں گزشتہ 17 سالوں میں ’استحکام‘ کی تعریف کی اور ’لبنان اور اسرائیل کے عزم‘ کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔

لیکن سیاق و سباق بدل رہے ہیں۔ بیان بازی تیز ہو گئی ہے اور دونوں فریق سرحد کے قریب فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔

سرحد کے قریب کے علاقوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے حالات کا غلط اندازہ لگانا کافی ممکن ہے اور جب چیزیں غلط ہوتی ہیں تو بہت جلد غلط ہو جاتی ہیں۔ بلیو لائن جنگ کا ایک ٹرپ وائر ہے، یعنی ایک ایسی جگہ جہاں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

حزب اللہ ایک لبنانی شیعہ ملیشیا ہے جسے اسرائیل اور بیشتر مغربی ممالک نے دہشت گرد گروپ کے طور پر کالعدم قرار دیا ہے۔ لیکن اسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔

یہ 1982 میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف لڑنے والی ایک قوت کے طور پر ابھرا تھا۔

اسرائیل

گروپ کے رہنما حسن نصراللہ نے حال ہی میں اسرائیل پر بلیو لائن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں واقع گجار کے علوی گاؤں کو ’آزاد‘ کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسرائیل کے زیر کنٹرول گاؤں بلیو لائن پر بسا ہوا ہے۔

اسرائیل کے تعاون سے وہاں کے باشندوں نے ایک نئی حفاظتی باڑ تعمیر کی ہے جو لبنان تک پھیلی ہوئی ہے۔

یونیفل اسے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی عزم کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔

حزب اللہ والے انھی کے دلائل سے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ حزب اللہ کا ایک خیمہ سرحد کے بالکل پاس بنایا گیا ہے۔

یہ وہی علاقہ ہے جہاں کشیدگی جاری ہے۔ اور رواں ماہ کے اوائل میں لبنان کی جانب سے گجار میں باڑ کی طرف ٹینک شکن میزائل داغا گیا تھا جس کے جواب میں اسرائیلی گولہ باری شروع ہو گئی تھی۔

لندن میں ایس او اے ایس مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر پروفیسر لینا خطیب کہتی ہیں: ’حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب لبنان میں سیاسی خلا ہے، جس کا گذشتہ سال اکتوبر سے کوئی صدر نہیں ہے۔‘

’حزب اللہ اس بات پر بضد ہے کہ وہ اپنی پسند کے امیدوار پر ہی راضی ہوگا۔ حزب اللہ جتنا زیادہ یہ ظاہر کر سکے کہ وہ طاقتور اور متعلقہ ہے، اس کے خیال میں اتنا ہی لبنان کی صدارت کے لیے اس کے امکانات بہتر ہوں گے۔‘

پروفیسر خطیب کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کا بلیو لائن پر اپنے ایجنڈے کی تشہیر دراصل اس کی مقامی آبادی کے لیے ایک ’پی آر اقدام‘ ہے۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

تو اس علاقے میں آخر کیا بدل رہا ہے؟

تعطل ایک وسیع علاقائی تنازع کا حصہ ہے، جو یہاں اکثر ہوتا رہتا ہے۔

اسرائیل ہمسایہ ملک شام میں سرگرم ایرانی پراکسی جنگجوؤں پر باقاعدگی سے بمباری کرتا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا حزب اللہ کو مزید ہتھیار جمع کرنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ حزب اللہ نے تقریباً 150,000 راکٹ جمع کیے ہیں، جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایرانی ساختہ میزائل بھی شامل ہیں جو اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسرائیل ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید کی امریکی کوششوں کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ کسی بھی معاہدے سے خطے میں ایران کو مزید تقویت ملے گی اور حزب اللہ جیسے پراکسیوں کے لیے رقم اکٹھی کرنے میں مدد ملے گی۔

اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر ایران کے حمایت یافتہ خطرات اور فوجی کارروائی کے لیے اپنی تیاری کو اجاگر کرکے جوہری معاہدے کے خلاف دباؤ برقرار رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نئی رکاوٹیں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی

اسرائیل

،تصویر کا کیپشن

لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچ

میں مغرب میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچ سے بات کرنے کے لیے ایک فوجی چوکی کی کنکریٹ کی دیوار پر چڑھ گیا۔

یہاں جو باڑ لگائی گئی تھی اس پر اب زنگ لگنے لگی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دہائیوں پرانی ہے۔

ہمارے پاس ایک واچ ٹاور ہے جس میں ایک بڑا سوراخ ہے۔

ادھر دیکھتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل ہیچٹ کہتے ہیں: ’یہ حزب اللہ کا واچ ٹاور ہے۔ ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی، وہ باہر نکل کر باہر آتے ہیں اور وہیں سے ہاتھ ہلاتے ہیں۔‘

اسرائیل اپنی سرحد پر میلوں لمبی رکاوٹیں بنا رہا ہے۔ ہر چند منٹ بعد دیوار کی تعمیر کے لیے سامان لے جانے والے فوجی ٹرک کی آواز آتی ہے۔

اسی دوران ہم نے یونیفل کے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی جو یہاں گشت کر رہا ہے۔ آپ یہاں کشیدگی اور قلعہ بندی کو محسوس کر سکتے ہیں۔

تین اسرائیلی ٹینک ہمارے بالکل پیچھے کھڑے ہیں۔

حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ

اسرائیل کے ترجمان نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے حالیہ پیغامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’ہم سرحد پر بہت مضبوطی سے کھڑے ہیں اور یہ ہماری کوشش ہے کہ ہم انھیں ایک پیغام دیں، وہ (نصر اللہ) اور ہم دونوں اپنی اپنی سرحدوں پر کھڑے ہیں۔ لیکن پھر جب وہ آکر باڑ کو چھوتے ہیں تو ہم انھیں دور رکھنے کے لیے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جن سے لوگوں کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ وہ ہمیں مشتعل کر رہے ہیں اور ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں، یہ کشیدگی بڑھے گی۔‘

میں نے ان سے کہا کہ اسرائیل بھی بلیو لائن کے کچھ حصوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور لبنان پر پروازوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

اس پر ان کا کہنا تھا: ’میں جانتا ہوں کہ دو ایسے شعبے ہیں جن پر تنازع چل رہا ہے اور انھیں حل کرنے کی سفارتی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کام سیاسی سطح پر ہو رہا ہے۔‘

’ہماری توجہ بنیادی طور پر بلیو لائن پر ہے، لیکن جب ہم لبنانی سرزمین پر پرواز کرتے ہیں تو یہ ہمارے ملک کے لیے خطرے کو مدنظر ہوتا ہے، جسے ہم جاری رکھیں گے۔‘

امریکہ کا کردار

منگل کے روز شیخ نصراللہ نے اسرائیل کی عدلیہ میں لائے گئے قانون کے خلاف جاری مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کو اندرونی کشمکش کے ساتھ ایک کمزور ملک کے طور پر پیش کیا۔

انھوں نے کہا: ’اسرائیلی معاشرے کا خیال تھا کہ ان کی فوج ناقابل تسخیر ہے اور ان کی سلطنت سمندر سے دریا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ یقین آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ اس بحران تک پہنچ گئے جس میں وہ آج جی رہے ہیں۔‘

اسرائیل کی تاریخ کی سب سے سخت گیر مذہبی-قوم پرست مخلوط حکومت نے اپنی توجہ یروشلم کے مقدس مقامات پر یہودیوں کے دعووں کی طرف مبذول کرائی ہے۔

دوسری جانب غزہ کی پٹی کے فلسطینی سخت گیر گروپوں اور لبنان کے شدت پسند گروپوں کے درمیان مسجد الاقصی کی حفاظت کے لیے ‘یکجہتی’ بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

پچھلے دو سالوں میں متعدد بار، بشمول رواں سال اپریل میں، جنوبی لبنان کے فلسطینی گروپوں نے الاقصیٰ پر تشدد کے دوران اسرائیل پر راکٹ فائر کیے ہیں۔ لبنان سے اس قسم کے راکٹ حملے حزب اللہ کی حمایت سے ہی ہو سکتے ہیں۔

اگر بلیو لائن پر کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے تو اسرائیل پر ایک اور طرف سے دباؤ بڑھے گا جسے ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہے۔

دوسری جانب ماضی میں جنگیں لڑنے والے اسرائیل اور لبنان نے گذشتہ سال بحیرہ روم میں مستقل سرحد قائم کرنے کے لیے ایک تاریخی بحری معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ زیادہ تر گیس فیلڈز کے لالچ میں کیا گیا۔

یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی سے ہوا۔

اگر امریکہ بھی دونوں ممالک کے درمیان بلیو لائن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے پر مذاکرات میں ثالثی کرتا ہے تو دونوں ممالک اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اپنی سرحد کے اندر زیادہ سے زیادہ رقبہ رکھنا چاہیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ